Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر پھینک دیا؟

  محمد ذوالقرنین

کیا سیدنا علیؓ نے خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر پھینک دیا؟

السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

عام عوام الناس میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے اور یہ منبروں پر چڑھ کر سنایا جاتا ہے کہ غزوہ خیبر میں سیدنا علیؓ نے یہودیوں کے سب سے بڑے قلعے کے دروازے کو اکھاڑ کر پھینک دیا، بعد میں دیکھا گیا کہ اس دروازے کو چالیس اور بعض روایات کے مطابق ستر (70)سے اسی(80) آدمیوں نے مل کر اٹھایا۔

یہ واقعہ سیدنا علیؓ کی بہادری کو بیان کرنے کے لیے بیان کیا جاتا ہے، لیکن اس واقعے میں کوئی صداقت نہیں یہ سیدنا علیؓ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے سے زیادہ کچھ نہیں، اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ سیدنا علیؓ اسد اللہ الغالب علیٰ کل غالب ہیں لیکن سیدنا علیؓ کی شان بیان کرنے کے لیے جھوٹی روایات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں نہ ہی جھوٹی روایات سے سیدنا علیؓ کی شان یا ان کی بہادری بڑھے گی اور نہ ہی ان کو نہ سنانے سے ان کی شان یا بہادری میں کوئی کمی آئے گی۔

یہ واقعہ مختلف کتب میں بعض اسناد کے ساتھ وارد ہوا ہے۔

اس تحریر میں اسناد پر بحث نہیں کی جائے گی کیونکہ اس سے تحریر کافی لمبی ہو جائے گی اس میں صرف اس روایت پر محدثین کا کلام پیش کیا جائے گا، جس کے بعد اسناد پر بحث کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن اگر محدثین کا کلام دیکھنے کے بعد بھی کسی کو اسناد پر کلام کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی کر دیا جائے گا۔

اس روایت پر مختلف محدثین کا کلام اور ان کا مؤقف ملاحظہ فرمائیں:

امام ذھبیؒ نے اپنی میزان میں علی بن احمد بن فروخ کے ترجمے میں اس روایت کا ایک طرق نقل کیا کہ!

سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں سیدنا علیؓ نے فتح خیبر کے دن خیبر کا دروازہ اٹھا لیا تھا حالانکہ بعد میں چالیس(40) افراد بھی اسے نہیں اٹھا سکے تھے۔

پھر امام ذھبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ منکر ہے اسے اسماعیل بن موسیٰ سے ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

(میزان الاعتدال،جلد 5،صحفہ نمبر 139)

علامہ سخاویؒ اس کے ایک طرق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

اس میں لیث ضعیف ہے اور شیعوں سے روایت کرتا ہے،(پھر اس کی متابعت کو بھی نقل کیا کہ) ان کے بعد چالیس(40) آدمیوں نے مل کر اسے اٹھایا تھا،(پھر کہتے ہیں)میں کہتا ہوں اس کے تمام طرق واہیات(شدید ضعیف) ہیں اور اس وجہ سے بعض علماء نے اس کا انکار کیا(یعنی منکر کہا) ہے۔

(المقاصد الحسنة،صحفہ نمبر 313)

اور مُلا علی قاریؒ بھی شرح مشکوٰة میں اس کا سیدنا جابرؓ والا طرق نقل کر کے لکھتے ہیں کہ یہ طرق ضعیف ہے۔

(مرقاة المفاتیح جلد 11،صحفہ 245)

شارح بخاری امام قسطلانیؒ نے اپنی کتاب میں اس پر پورا باب باندھا ہے اور اس کے تمام طرق نقل کر کے فرماتے ہیں:

ہمارے شیخ(یعنی علامہ سخاویؒ) فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات کمزور ہیں اور بعض علماء نے ان کو منکر قرار دیا ہے۔

(مواہب اللدنیہ،جلد 1،صحفہ 377،378)

اور علامہ زرقانیؒ بھی مواہب اللدنیہ کی شرح میں یہ کہتے ہیں کہ:

 اس میں لیث راوی ضعیف ہے۔

(شرح العلامة الزرقانی،جلد 3،صحفہ 267،268)

امام ابنِ کثیرؒ بھی اپنی البدایة والنہایة میں ان روایات کہ بارے میں کہتے ہیں کہ یہ روایات ضعیف ہی معلوم ہوتی ہیں(یعنی ضعیف ہیں)۔

(تاریخ ابنِ کثیر،جلد 4،صحفہ 153)

امام المقریزیؒ لکھتے ہیں:

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیدنا علیؓ نے خیبر کا دروازہ اٹھا لیا تھا لیکن اس بات کی کوئی اصل نہیں ہے۔

(امتاع الاسماع،صحفہ نمبر 310)

اس روایت کو ملا علی قاری حنفیؒ نے اپنی کتاب موضوعات کبیر میں بھی لکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے۔

اور کہتے ہیں:

بعض علماء نے اس کا انکار کیا ہے (یعنی منکر کہا ہے) سخاویؒ کہتے ہیں کہ اس کے تمام طرق واہیات(شدید ضعیف) ہیں۔

(موضوعات کبیر،صحفہ 170)

اس کے علاوہ علامہ مرعی بن یوسف المقدسیؒ نے بھی اس کو اپنی کتاب الفواٸد الموضوعات فی الاحادیث الموضوعات میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ روایت ضعیف ہے۔

اور پھر کہتے ہیں:

اس کے تمام طرق واہیات(شدید ضعیف) ہیں،اور اس وجہ سے بعض علماء نے ان کو منکر کہا ہے ۔

(الفوائد الموضوعات،صحفہ 132،133)

اور حال ہی میں عرب محققین کی طرف سے ضعیف و موضوع روایات پر ایک کتاب لکھی گئی جس میں ضعیف و موضوع روایات کو جمع کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں اس روایت کے تمام طرق نقل کیے گئے ہیں کہ یہ روایت باطل ہے۔

(موسوعة الاحادیث والاثار الضعیفة والموضوعة،جلد 12روایت نمبر 30562 تا 30568)

ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ محدثین کے نزدیک یہ واقعہ جھوٹا ہے اس کی روایات منکر ہیں، اس کی کوئی اصل نہیں، اس لیے اس واقعہ کو سیدنا علیؓ کی بہادری بیان کرنے کے لیے بیان کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ سیدنا علیؓ پر جھوٹ کے سواء کچھ نہیں۔

دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو حق سننے و سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)