کیا یزید قسطنطنیہ کی مغفرت کی بشارت میں شامل تھا؟؟ مولانا نافع رحمۃ ﷲ علیہ کے موقف کی وضاحت
محسن اقبالکیا یزید قسطنطنیہ کی مغفرت کی بشارت میں شامل تھا؟؟
مولانا نافعؒ کے موقف کی وضاحت
اہلحدیث کہلانے والے کچھ نام نہاد محققین نے یزید کے دفاع میں مولانا نافع رحمہ اللہ کی کتاب فوائد نافعہ کا حوالہ دیا اور استدلال کیا کہ مولانا نافعؒ کے نزدیک قسطنطنیہ میں پہلا حملہ ہوا یزید اس کا امیر تھا اور یزید مغفرت کی بشارت میں شامل تھا۔۔۔
مولانا نافعؒ یزید کو اس لشکر کا امیر مانتے تھے جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا لیکن یزید اس مغفرت کی بشارت میں شامل ہے مولانا نافعؒ اس کے قائل نہیں تھے۔۔
فوائد نافعہ میں مولانا نافعؒ نے اپنی کتاب سیرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف مکمل تفصیل کے لئے رجوع کا ذکر کیا ہے۔۔۔
سیرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں مولانا نافع غزوہ قسطنطنیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''اس جیش کے غازیوں کے متعلق ''مغفور لھم'' کی جو بشارت دی گئی ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے اگر ان میں یزید بن معاویہ بھی شامل ہو تو وہ بھی اس بشارت کا مستحق ہے مگر اسکے ساتھ محدثین نے اسکی وضاحت ذکر کی ہے۔۔۔۔۔آگے فتح الباری اور عمدۃ القاری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ
''مطلب یہ ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ سے اس غزوہ کے بعد ایسے افعام اور امور سرزد ہوئے جنکی وجہ سے وہ مستحق مغفرت نہ رہا تو وہ اس عموم (مغفرت) سے خارج ہو گا۔اگر اللہ تعالی چاہیں تو معافی دے دیں اور اگر چاہیں گے تو گرفت فرمائیں گے جیسے دیگر اہل معاصی کے حق میں قاعدہ ہے۔
پس اس حدیث کی تشریح میں جو کچھ علماء نے نقل کیا ہے اور یزید بن معاویہ کے مغفور ہونے یا نہ ہونے کی تشریح کر دی ہے وہ کافی اور صحیح ہے۔
مزید وضاحت کے لئے مولانا نافعؒ نے شرح ابواب والتراجم للبخاری از شاہ ولی اللہؒ کی طرف رجوع کا ذکر کیا۔۔۔
اور شاہ ولی اللہؒ نے شرح تراجم للبخاری میں، ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں، علامہ عینیؒ نے عمدۃ القاری میں اس روایت کی تشریح میں یزید کو اس مغفرت سے خارج کیا ہے۔
( سیرت امیر معاویہ رضی اللہ، 263/262)
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک ’’مغفور لہم‘‘ سے بعض لوگوں نے یزید کی نجات پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ اس دوسرے لشکر میں شریک تھا بلکہ اس کا افسر و سربراہ تھا۔ جیسا کہ تاریخ گواہی دیتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے جو اس نے گناہ کئے وہ بخش دیئے گئے، کیونکہ جہاد کفارات میں سے ہے اور کفارات کی شان یہ ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کے اثر کو زائل کرتا ہے۔ بعد میں ہونے والے گناہوں کے اثر کو نہیں۔ ہاں اگر اسی کے ساتھ یہ فرما دیا ہوتا کہ قیامت تک کے لئے اس کی بخشش کردی گئی ہے تو بے شک یہ حدیث اس کی نجات پر دلالت کرتی۔ اور جب یہ صورت نہیں تو نجات بھی ثابت نہیں، بلکہ اس صورت میں اس کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اس غزوہ کے بعد جن جن برائیوں کا وہ مرتکب ہوا ہے، جیسے امام حسین رضی اﷲ عنہ کو شہید کروانا، مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کرانا، شراب نوشی پر اصرار کرنا، ان سب گناہوں کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔ چاہے تو معاف کرے، چاہے تو عذاب دے۔ جیسا کہ تمام گناہ گاروں کے حق میں یہ ہی طریقہ رائج ہے‘‘
(شرح تراجم ابواب بخاری/117)
یہی مفہوم علامہ قسطلانی نے ’’ارشاد الساری ۵/۱۲۵، اور علامہ بدرالدین عینی نے ’’عمدۃ القاری 14/199‘‘ اور علامہ مناوی نے ''فیض القدیر 3/84'' میں بیان فرمایا ہے۔
علامہ عینیؒ لکھتے ہیں کہ''میں کہتا ہوں کہ مغفرت کے عموم میں اسکے داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی خاص دلیل سے اس عموم سے خارج نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مشروط ہے اس بات سے کہ وہ شخص مغفرت کا اہل ہو یہاں تک کہ ان غازیوں سے کوئی بعد میں مرتد ہو جاتا ہے تو وہ اس عموم میں داخل نہیں رہتا۔''
(عمدۃ القاری،14/199)
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں کہ '' یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہوسکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضورﷺ کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر کوئی فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکر قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں۔
(فتح الباری جلد 7ص 196)
اس کے ساتھ ساتھ اسی کتاب فوائد نافعہ میں مولانا نافعؒ نے لکھا ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو مسلم بن عقیل رضی اللہ کے قتل کا حکم دیا تھا۔اور جس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یزید کے سامنے پیش ہوا تو پہلے وہ خوش ہوا اس کے بعد جلد ہی اس فعل پر نادم ہوا اور ابن زیاد پر لعنت کی۔
( فوائد نافعہ،229/249)
تو مولانا نافعؒ کا مؤقف واضح ہوا کہ ان کے نزدیک یزید امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر خوش بھی ہوا اور یزید نے ہی ابن زیاد کو مسلم بن عقیل رضی اللہ کے قتل کا حکم دیا تھا اور یزید اس غزوہ قسطنطنیہ کے پہلے لشکر میں شامل ہے لیکن مغفرت کی بشارت سے خارج ہے۔
غلامِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم،
محسن اقبال