شیعہ نے ایک شادی شدہ عورت کو اغوا کیا تو اس عورت سے اس شیعہ کا نکاح درست نہیں ہے، اور اس عورت سے شیعہ کا جماع کرنے کی صورت میں جو ناجائز اولاد پیدا ہو گی وہ اس عورت کے وارث نہیں بن سکتے
سوال: سوالات کو تفصیل وار تحریر کرنے سے پہلے واقعات کو مجموعی طور پر تحریر کرتا ہوں واقعات اس طرح پر ہیں کہ ایک اہلِ سنت والجماعت عورت بالغہ قواعد و مسائل سے واقف نے بخوشی ایک اہلِ سنت والجماعت نوجوان مرد کے ساتھ نکاح کیا اور مدت درواز تک اس کی زوجیت میں رہی یکے بعد دیگرے اس کے بطن اور شوہر مشکور کے نطفے سے اولاد پیدا ہوتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ ایک شیعہ مرد کی نوجوانی پر بھی فریفتہ ہو گئی۔ اس رویہ کو جب کافی عرصہ گزر چکا تو ایک روز موقع پا کر سنی شوہر اور اس بچوں کو بے سر و سامان چھوڑتے ہوئے شیعہ آشنا مذکور کہ ہمارا بحالت حمل مفرور ہو گئی، اور پانچ ماہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے گزر چکے تو اس کے بدن سے ایک دختر پیدا ہوئی جس کا ذکر مندرجہ ذیل تفصیلات میں تحریر کرتا ہوں یہ امر ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ دختر مذکورہ کا عالم وجود میں آنا مشتبہ نطفہ سے ہوا ہے اس مولود کے چند سال بعد ایک پسر متولد ہوا اس کا بھی ذکر تفصیل وار سوال میں تحریر کرتا ہوں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب یہ شیعہ آشنا کے تصرف میں جا پہنچی تو اس کا اصلی شوہر اس کی واپسی کا ہر چند طالب ہوا لیکن اپنی غربت اور شیعہ آشنا کی قوت سے مرعوب ہو گیا اور اس کی واپسی کے لئے شرعی وقانونی چارہ نہ کر سکا لیکن اس کی واپسی کا متمنی بھی رہا اور طلاق بھی کبھی نہیں دی۔
سابق وہ حال کے واقعات اپنی جگہ بدستور ہیں اور اب نئے حالات رونما ہیں۔ یہ اس طرح کے اب شیعہ آشنا فوت ہو گیا ہے اس نے تین پسر ان جو متوفی کی جگہ کی جائز بیوی سیدہ کے وطن سے ہیں ان کے علاؤہ داشتہ مذکورہ اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے دختر و پسروں کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اس نے وہ چھوڑے ہیں اس پسماندگان کی تعداد 6 افراد پر مشتمل ہے ترکہ میں اراضی زرعی چھوڑی ہے جس پر تنازعہ برپا ہے، سیدہ خاتون کے بطن سے پیدا ہونے والے تین پسر ان کا دعویٰ ہے کہ وہ متوفی کے اس وجہ سے جائز وارث ہیں کہ داشتہ متوفی کی صحیح زوجہ نہیں اور اس کے دختر و پسر :والد الزنا: ہیں۔ ترکہ میں اراضی کے علاؤہ زر نقد و زیور جملہ خانگی سامان چھوڑا۔ جو داشتہ کے قبضہ میں ہے۔ متوفی کے ذمہ جو واجبات سرکاری و غیر سرکاری تھے وہ سیدہ خاتون کے ہر سہ پسران نے ادا کئے ہیں۔
سوالات تفصیل وار ہیں:
(1) ایسی عورت جس کا اوپر ذکر ہوا اپنے شوہر سے بلا طلاق و خلع کرائے شیعہ آشنا کے تصرف میں رہنا جائز ہے؟ زوجہ ہو سکتی ہے؟ اور کیا اس کے ترکہ سے حصہ پا سکتی ہے؟
(2) مذکورہ قسم کی داشتہ کے دختر و پسر سیدہ خاتون کی اولاد کے ساتھ کیا وارث ہو سکتے ہیں؟ اگر وارث ہو سکتے ہیں تو کس قدر؟
(3) یہ کہ سنی مذہب کی عورت اعتقاداّ نہیں بلکہ شیعت کو اپنی کامیابی کی غرض سے اختیار اور بطور آلہ کے استعمال کرے۔ اور مزہب پر مائل نہیں، شیعہ مرد کی جوانی پر فریفتہ ہو جائے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہو گا؟ اور اس حیلے سے جو ثمرہ حاصل کرے گی وہ جائز ہو گا؟
(4) یہ کہ کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے کہ سنی شوہر کی حیات میں جبکہ اس نے طلاق نہیں دی شیعہ مرد کے ساتھ نکاح جائز ہو گا ؟
(5) جس عورت کا نکاح باقاعدہ سنی شوہر کے ہمراہ ہوا ہو اور طویل عرصہ تک اس کی زوجیت میں رہنے کے باوجود یہ کہے کہ اس نے سنی شوہر کے ساتھ عقد کا ہونا دل سے قبول نہیں کیا بلکہ بےدلی کے ساتھ زبانی قرار کیا تھا اور اپنی ذاتی افعال کو جو اس کی حد تک پہنچا کر شیعہ مرد کے ساتھ نکاح کر بیٹھے تو کیا یہ انکار نما اقرار یا اقرار بمنزله انکار کی شریعت اجازت دیتی ہے؟
جواب: اس واقعہ کی تحقیق کسی ثالث شرعی جو فریقین کا تسلیم شدہ ہو، کے ذریعے کی جائے یا کوئی مسلمان حاکم اس کی تحقیق کرائے واقعہ اگر اسی طرح ثابت ہوا جس طرح مذکورہ بالا سوال میں درج ہے تو نہ یہ عورت اس شیعہ کی وارث ہو سکتی ہے اور نہ اس کی اولاد اس کی وارث ہو سکتی ہے نہ شرعی شوہر کے ہوتے ہوئے بغیر طلاق حاصل کئے ہوئے نہ یہ عورت کسی دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اور نہ اس کے پاس رہ سکتی ہے دوسرے کے ساتھ بغیر نکاح رہنے سے اگر اولاد پیدا ہو جائے تو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بغیر نکاح کے شرعاً اولاد کا نسب سابق نہیں ہوتا حدیث شریف میں ہے الو لد للفراش والعاھر الحجر اور اگر واقعہ کی تحقیق کے بعد تحریر مذکور کے مطابق ثابت نہ ہو تو پھر حالات واقعہ کے مطابق سوال مرتب کر کے پوچھا جائے تب جواب دیا جائے گا۔
(فتاویٰ مفتی محمودؒ: جلد، 4 صفحہ، 685)