شیعہ باپ کی لڑکی کا رشتہ سنی العقیدہ مرد سے ناجائز ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ: ایک شخص بنام محمد نواز ہے مذہب شیعہ رکھتا ہے اس نے اپنے لڑکی کا نکاح اپنے رشتہ دار بنام نور محمد مذہب شیعہ کے ساتھ کر دیا تھا۔ جب وہ لڑکی نو سال کی ہوئی تو اس کو اس کے باپ نے پڑھنے کے واسطے مدرسہ میں داخل کر دیا تو نور محمد نے لڑکے کے باپ کو مدرسہ میں تعلیم دلانے سے منع کر دیا مگر تعلیم دلانے سے وہ منع نہ ہوا یہ ناراضگی سمجھ کر نور نے نابالغ لڑکی کو تین دفعہ طلاق کا لفظ استعمال کر کے طلاق دے دی تھی۔ یہ خلفاً لڑکی کے باپ محمد نواز کا بیان ہے لڑکی بھی جو آج کل 25 سال کی عمر میں ہے کہتی ہے کہ مجھ کو بالکل یاد ہے میرے سامنے طلاق بہ یک زبان دی۔ اس وقت گواہ بھی موجود تھے۔ گواہوں نے جا کر ایک عالم کے پاس گواہی دی جو کہ قصبہ جڑانوالا میں بڑا عالم تھا اس نے فتویٰ دیا کہ یہ لڑکی نے کہا پڑھا سکتی ہے عالم کا فتویٰ موجود ہے۔
جب وہ لڑکی جوان ہوئی تو اس نے اپنے باپ کو کہا کہ جو نکاح آپ لوگوں نے پڑھا رکھا تھا وہ بموجبِ شریعت محمدیﷺ باطل ہو گیا اور مجھ کو وہ آدمی منظور بھی نہیں ہے اس کے بعد اس لڑکی نے کہا کہ میں تو مذہب اہلِ سنت والجماعت ہوں اور اہلِ سنت والجماعت کے آدمی کے ساتھ شادی کروں گی۔ ایک شخص بنام محمد امیر ولد کرم خان صوبے دار اہلِ سنت والجماعت ہے جس کی آمدورفت موضع بگڑ میں تھی محمد امیر کو لڑکی کے باپ محمد نواز نے کہا کہ میری لڑکی اہلِ سنت والجماعت ہو گئی ہے اگر تم اپنے نکاح کے اندر کر لو تو میں نکاح پڑھا دیتا ہوں تو محمد امیر نے کہا کہ اس جگہ پر مجھ کو خطرہ ہے تم لوگ میرے گھر بمعہ مال مویشی چلے آؤ جب لڑکے بمعہ والدین گھر آئے تو مسمی نور محمد نے ایک آدمی کو شہر کے لوگوں کی طرف ایک رقعہ دے کر روانہ کیا کہ میرا نکاح ہے تو یہ سن کر چک 382 کے لوگوں نے محمد امیر کے ساتھ برتاؤ بند کر دیا اس کے بعد نکاح کی تصدیق کے لئے ایک ملک عباس خان اور امامِ مسجد چک 384 قاضی سید رسول وہاں پر موضع بگڑ کے اندر گئے۔ نور محمد دیہات کہا اس وقت اس کی برادری اور عام لوگ بھی اس جگہ موجود تھے تو انہوں نے کہا کہ بابت سید رسول نے دریافت کیا تو کسی آدمی نئے نکاح چھوڑنے کی تصدیق نہیں کی اور وہ آدمی جن کے سامنے نور محمد طلاق دی تھی وہ وہاں پر موجود نہیں تھے امام مسجد قاضی صاحب سید رسول نے دریافت کیا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں شیعہ ہوں اور محمد نواز لڑکی کے باپ نے کہا کہ میں شیعہ رافضی ہوں قاضی صاحب سید رسول نے نور محمد کو کہا کہ ایک تو شیعہ ہو اور دوسرا طلاق دینے کے بعد بھی اپنا نکاح قائم خیال کرتے ہو اگر تم شیعہ ہو تو تمہارا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ نور محمد نے کہا اگر میرا نکاح شیعہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جانے دو قاضی سید رسول نے شہر کے اہلِ سنت و الجماعت کے لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ لوگ ان شیعہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ رکھتے ہو یا کہ نہیں؟ تو اہلِ سنت والجماعت کے لوگوں نے کہا کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ برتاؤ نہیں رکھتے کہ یہ لوگ تبرے کہتے رہتے ہیں۔ اس حالت کو دیکھ کر نور محمد کا نکاح باطل خیال کیا گیا۔ اس کے بعد امام مسجد نے اس لڑکی غلام سکینہ کو وضو کرتے دیکھا تو وہ اہلِ سنت والجماعت کے موافق کر رہی تھی۔
چند دنوں کے بعد امام مسجد صاحب ملک عباس خان کے گھر سبق دے رہا تھا تو وہ لڑکی غلام سکینہ آگئی۔غلام سکینہ نے زبانی عرض کی کہ میں سنت جماعت ہوں میرا بھی مسلمانوں میں میل جول ہونا چاہئے۔
عباس خان کی لڑکی قرآن پاک پڑھ رہی تھی امام مسجد نے غلام سکینہ کو کہا کہ اگر تم اہلِ سنت والجماعت ہو تو قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر خلفاً بیان دو غلام سکینہ نے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر حلفاً بیان دے دیا کہ میں سنت والجماعت ہوں جس کا گواہ ملک عباس خان بھی ہے جو کہ اس وقت موجود تھا، اس لئے ہمارا ایمان کہتا ہے کہ یہ لڑکی سنت والجماعت ہے۔
اس کے علاؤہ کتب معتبرہ شیعہ میں سیکنڑوں واقعات کفریہ ہیں، جیسا کہ شیعہ کی کتاب اصول :کافی صفحہ 204: پر ہے کہ خدا کو بدا ہوتا ہے یعنی خدا جھوٹ بولتا ہے اور خدا جاہل ہے ائمہ بھی جھوٹ بولا کرتے تھے۔ شیخ صدوق نے (رسالہ اعتقادیہ) میں لکھا ہے کہ :ما بداللہ کما بد اله فی اسماعیل: خدا جو ایسا بدا بھی ہوا ہے جیسا اسماعیل کے بارے میں ہوا اور مثلاً سیدنا علیؓ نبی کے بعد خدا نے اپنے بیٹے محمد کی امامت کا اعلان کر دیا، مگر خدا کو معلوم نہ تھا کہ محمد اپنے باپ کے سامنے ہی رہ جائیں گے، جب وہ مر گئے تو خدا نے رائے بدل دی اور آپ نے اعلان کے خلاف امام حسن عسکری کو خلیفہ مقرر کیا۔ ایسے ایسے کفریہ کلام کو پڑھ کر محمد امیر ولد اکرم خان صوبے دار کے نکاح کو جائز قرار دے دیا ہے اور نور محمد کے نکاح کو باطل قرار دے دیا ہے۔
جواب: سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کے والدین شیعہ ہیں اور لڑکی اہلِ سنت والجماعت سے ہے اور سکینہ لڑکی کا نکاح شیعہ کے ساتھ باطلِ محض اور کالعدم ہے۔ کیونکہ اقوال کفریہ ہیں لہٰذا یہ لڑکی بغیر طلاق اپنا نکاح کسی سنی کے ساتھ کر سکتی ہے۔
(فتاویٰ مفتی محمودؒ: جلد، 4 صفحہ، 592)