Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اگر شیعہ باپ کی لڑکی شیعہ مذہب سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتی تو نکاح کا حکم


سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ: ایک زینب نامی عورت کا نکاح غلام فرید نامی ایک شخص سے ہو چکا ہے، جس کا شیعہ ہونا معلوم ہوا ہے۔ نکاح سے پیشتر اس کا شیعہ ہونا معلوم نہ تھا کیونکہ اُس وقت اُس کا آغاز جوانی تھا، اس لئے فرید کا شیعہ ہونا نکاح کے بعد معلوم ہوا ہے۔ معلوم ایسا ہوا کہ وہ ماتم بھی کرتا ہے اور تعزیہ وغیرہ بھی نکالتا ہے۔ اس کے شیعہ ہونے یعنی ماتم اور تعزیا نکالنے کے حلفیہ بیان دینے والے گواہ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ زینب مذکوره نہایت پاک دامن عورت ہے کہ وہ اپنا نکاح اور جگہ کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے جناب عالیہ میں درخواست ہے کہ زینب مذکورہ کا نکاح غلام فرید شیعہ کے ساتھ جائز ہے یا نہیں؟ اور آیا کہ وہ اپنا نکاح کسی اور جگہ کر سکتی ہے یا کہ نہیں؟

جواب: صورت مسئولہ میں تحقیق کی جائے اگر یہ جوان آغاز جوانی میں نکاح کے وقت مذہبی باتوں میں حصہ نہیں لیتا تھا اگر اس کا باپ شیعہ تھا، کوئی نظریہ مذہب شیعہ کے متعلق نہیں رکھتا تھا اور جو کفریہ عقیدے شیعوں کے ہیں مثلاً: سیدنا علیؓ کی اُلوہیت کا قائل ہونا یا جبرائیلؑ کو وحی پہنچانے میں غلطی کرنے کا قائل ہونا یا صحبتِ صدیقِ اکبرؓ کا انکاری ہونا یا سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتا ہو۔ ان کفریہ عقیدوں میں سے کوئی عقیدہ یا اس کے علاؤہ کوئی کفر کا عقیدہ نہ رکھتا تھا تو یہ شیعہ من حیث الفرقة الشيعة المبتدعة اگرچہ فاسق ضرور ہے لیکن کافر نہیں۔ اس لئے مسلمان اہلِ سنت والجماعت لڑکی کا نکاح اس سے منعقد ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب دوبارہ تحقیق کی جبکہ وہ اب مذہبی رسومات (ماتم و تعزیا نکالنے میں حصہ لیتا ہے)۔ اگر وہ مذکورہ بالا عقائد کفریہ میں سے کوئی کفر کا عقیدہ رکھے تو اس لڑکی کا نکاح غلام فرید سے نہیں رہا ہے، اور دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ ماتم و تعزیا نکالنا اور سیدنا علیؓ کو دیگر خلفاء راشدینؓ پر فضیلت دینا وغیرہ اس سے کافر نہیں ہوتا۔ اور اگر تحقیق کرنے پر نکاح کے وقت سے غلام فرید کا کوئی عقیدہ کفر کا ثابت ہو جائے تو پہلے سے نکاح سرے سے منعقد نہیں ہوا ہے اگر یہ صورت ہو تو بھی یہ عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ اور اگر تحقیق کے بعد یہ بات محقق ہو جائے کہ اس وقت غلام فرید کوئی کفریہ عقیدہ رکھتا تھا نہ بعد میں اس وقت تک کفر کا عقیدہ رکھتا ہے تو نکاح صحیح و منعقد ہے اور تاحال نکاح ثابت ہے۔ طلاق و خلع کے سواء دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی یا بعد میں شیعہ مذہب کے کسی کفریہ عقیدہ کا قائل ہو جائے تو نکاح نہیں رہے گا اور دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

(فتاویٰ مفتی محمودؒ: جلد، 4 صفحہ، 587)