صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عقل و بصیرت کی روشنی میں
مولانا قاری عبدالعزیز صاحب شوقی رحمہ اللہصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عقل و بصیرت کی روشنی میں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوزیشن عام معمولی انسانوں کی سی نہیں، ان کو ہم بلا مبالغہ صاحبِ رسالت و نبوتﷺ کی 23 سالہ شبانہ روز کی جدوجہد کا روشن ترین اور کامیاب ماحصل سمجھتے ہیں۔ اگر رسول اکرمﷺ کی رسالت کے لیے دلائل و شواہد پیش کرنے کی ضرورت ہو تو ہم بلا ریب اصحاب پاک رضی اللہ عنہم کو پیش کر سکتے ہیں۔
1: سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو کچھ پیغام اور تعلیم اپنے رب سے حاصل کی، اگر انہوں نے اس کو چھپا کر اپنے ہی تک محدود رکھا تو یقین کیجیے کہ اس صورت میں مقصدِ نبوت پورا نہیں ہو پاتا اور اگر آپﷺ نے
بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ
(سورۃ المائدة: آیت، 67)
ترجمہ: جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔
کے حکم کی تعمیل فرماتے ہوئے سب کچھ پہنچا دیا؛ لیکن اس پہنچائی چیز پر معدودے چند حضرات کے سوا کوئی کاربند نہیں ہوا گویا کہ باقی سب حضرات (نعوذباللہ) مرتد اور منافق ہی تھے، تو اس صورت میں رسولِ کریمﷺ کو ایک کامیاب نبی نہیں کہا جا سکتا۔
مختلف انبیاء علیہم السلام مختلف قوموں کی طرف بھیجے گئے اُن میں سے بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ جن کو کوئی صحابی نہیں کہ اُن پر ایمان کوئی لایا ہی نہیں تھا اور بہت سے پیغمبر ایسے ہیں کہ اُن کے صحابیوں یا حواریوں کی تعداد اس قدر کم ہے کہ اس کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایک صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسے نبی ہیں جن کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ تھی؛ لیکن خود حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ان ماننے والوں کی حرکات سے زندگی بھر تنگ رہے؛ اس لیے ان کے اصحاب کا شمار بھی بہت کم ہے۔
جس طرح خاتم النبیین اور سید الانبیاء ہونے کا فخر ہمارے نبی کریمﷺ کو حاصل ہے اسی طرح آپﷺ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپﷺ اپنے مقصد میں تمام نبیوں سے بڑھ کر کامیاب ہیں، یہ خصوصیت آپﷺ ہی کو حاصل ہے کہ آپﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں اپنے مشن کو خود پھلتے پھولتے دیکھ لیا۔
آپﷺ دنیا سے رخصت ہوئے تو اس حالت میں کہ آپﷺ کے پیغام کو آباد دُنیا کے انتہائی کناروں تک پہنچانے کے لیے پانچ، سات افراد نہیں لاکھوں جاں نثار موجود تھے اور پھر تاریخ کے روشن صفحات شاہد ہیں کہ ان جاں نثاروں نے اپنے نبی کے پیغام کو وہاں تک پہنچا کر دم لیا جہاں تک (اس زمانہ کے مطابق) عقلِ انسانی تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ صاحبِ رسالت اور مقصدِ رسالت کے ایسے جفاکش اور مستعد دیوانوں کو صحابیت تو کیا، مومنیت کے مقام سے بھی خارج کر دینا اُنہیں لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو افلاسِ خرد کے اسیر اور نقصانِ فہم کے مریض ہیں۔
2: کوئی اُستاد اور معلم بہترین اور کامیاب معلم اُسی وقت کہلا سکتا ہے جب کہ اس کے تلامذہ لائق اور ہونہار بھی ہوں اور اُن کی تعداد بھی کثیر ہو شاگردوں کی لیاقت و قابلیت اکثر و بیشتر اُستاد کی لیاقت و قابلیت کا پر تو ہوتی ہے۔ اگر استاد میں کوئی جوہر نہ ہو تو شاگرد میں کسی کمال کی جھلک کا نمودار ہونا ممکن نہیں ہے۔ نیز کسی اُستاد کے شاگرد کثیر تعداد میں ہیں تو یہ اس کے فیضان کی عمومیت کا نشان ہو گا۔ شاگردوں کی قلت اس بات کی دلیل ہو گی کہ استاد کا فیض وسیع نہیں محدود ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ استاد کی قابلیت اور کمال کے ناپنے کا معتبر پیمانہ شاگردوں کے سوا اور کوئی نہیں، جس اُستاد کے شاگرد عام طور پر یا اکثریت کی صورت میں لائق ثابت ہوتے ہوں وہ استاد یقیناً باکمال ہے اور اپنے مشن میں کامیاب ہے؛ لیکن جس کے شاگرد اکثر طور پر نالائق ثابت ہوں ایسے شخص کو باکمال اور کامیاب استادوں کی فہرست میں ہرگز نہیں رکھا جا سکتا۔ جب آپ اسے تسلیم کرتے ہیں تو اب اصل بات کی طرف آئیے۔
انبیاء علیہم السلام بھی اپنے اپنے وقت میں اپنی قوموں اور آبادیوں کے استاد تھے، اللہ نے ان کے ذمہ ضروری قرار دیا تھا کہ وہ لوگوں کو احکامِ الہٰی کی تعلیم دیں۔ سب سے آخری اور سب سے بڑھ کر معلم ہمارے نبی کریمﷺ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپﷺ کے شاگرد ہیں اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ آپﷺ جیسے اکمل ترین معلم کے تمام تلامذہ ہونہار، لائق اور ہدایت یافتہ تھے اور پھر اُن کی تعداد بھی تقریباً سوا لاکھ تھی، جس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کا فیضان عام سے عام تر تھا۔
حاصل یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد کا کثیر ہونا اور اُن کا مشہدی و مہدی ہونا رسولِ اکرمﷺ کے کمالِ معلّمیت اور عمومِ فیضان کی دلیل ہے اور جو شخص آپﷺ کے اس وصف کا منکر ہے وہ رسالت کا منکر ہے۔
اب اُن لوگوں کی بات پر بھی ذرا غور کر لیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دشمنی کا وافر حصہ نصیب ہوا ہے۔ حضور اکرمﷺ کے معلمِ اکمل ہونے سے تو وہ بھی انکار نہیں کر سکتے؛ لیکن یہ عجیب تماشہ ہے کہ ثبوتِ کمال کی جو صورت ہے اس سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔
کہتے یہ ہیں کہ شاگرد تو آپﷺ کے سارے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہو گئے تھے لیکن آپﷺ کے وصال کے بعد سب آپﷺ کی تعلیم سے پھر گئے، صرف پانچ سات افراد اصل تعلیم پر باقی رہے۔ ان لوگوں کی سمجھ پر افسوس بھی ہے اور حیرت بھی۔ کیا نبیﷺ کی تعلیم بھی کوئی مداری کا جادو ہے کہ جیسے جادوگر کے مرتے ہی اس کا جادو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کے وصال فرماتے ہی تعلیمِ نبویﷺ کا اثر بھی ختم ہو گیا۔ ایک معمولی دنیا دار استاد تو اپنے خیالات اپنے شاگردوں میں ایسے راسخ کر دے کہ اس کے مرنے کے بعد شاگرد اسی ڈگری پر قائم رہیں اور اُستاد کے خیالات کو عملی جامہ پہنائیں؛ لیکن نبی صرف نبی نہیں؛ بلکہ خاتم النبیینﷺ کے تلامذہ آپﷺ کے وصال کے فوراً بعد آپﷺ کا سبق بھلا دیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا آپﷺ کی ذاتِ گرامی اس قدر معمولی قوتِ تاثیر سے بھی خالی تھی؟ (استغفراللہ)
پھر تقریباً سوا لاکھ افراد میں سے چند گنے چنے افراد تو لائق شاگرد ثابت ہوں اور باقی سب نالائق۔ کیا دُنیا جہان کی قدیم و جدید تاریخ میں کوئی ایسا شاندار ریکارڈ دکھایا جا سکتا ہے؟ یا اس ذلت کے الزام کے لیے اللہ کے حبیبﷺ کے سوا اِن مہربانوں کو اور کوئی ملا ہی نہیں؟ پھر جس اُستاد کے اس قدر لاکھوں شاگرد ناکارہ ہوں اُن میں چند کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے، ان کے لائق ہونے کی کیا ضمانت ہے؟ ممکن ہے ان لاکھوں کی طرح یہ چند شاگرد بھی امتحان میں فیل ہوں، بہرحال معصوم نظر والوں کو سوچنا چاہیے کہ استاد و شاگرد اور رسولﷺ و اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں فرق پیدا کر کے انہوں نے نوبت کہاں تک پہنچائی ہے؟ کہ ایک کی عداوت دوسرے کے انکار کا باعث بنی جا رہی ہے۔ ہاں اگر در پردہ مقصد ہی یہ ہو کہ رسالت کا انکار کر دیا جائے (جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے) تو پھر کوئی بحث ہے نہ شکایت۔
3: ایک مصلح کا کمال یہ ہے کہ جو لوگ اس کے حلقۂ تربیت میں آ جائیں اُن میں اس کی اصلاح کا اثر کامل طور پر موجود ہو، اگر اصلاح کا اثر کسی مصلح کے گرد جمع ہو جانے والوں میں قطعاً نہ پایا جائے یا اثر موجود تو ہو؛ لیکن دیر پا نہ ہو تو ایسے شخص کو مصلح شاید کہہ لیا جائے؛ لیکن اس کو باکمال مصلح نہیں کہا جا سکتا۔
ہمارا ایمان ہے کہ رسول اکرمﷺ دُنیا کے اکمل ترین مصلح ہیں، قیامت تک اس امت میں اصلاح کے جس قدر بھی سلسلے پائے جائیں گے اُن سب کا مرکز حضور اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی ہے اور جس طرح اللہ رب العزت نے آپﷺ کو تمام دیگر کمالات سے پورے طور پر عنایت فرمایا۔ اب اگر حقائق سے آنکھیں بند کر کے یہ کہہ دیا جائے کہ رسولِ کریمﷺ کی شانِ مصلحت کا پر تو صرف معدودے چند حضرات کرام رضی اللہ عنہم پر پڑا باقی تمام حضرات کرام رضی اللہ عنہم محروم ہی رہے یا اس سے متاثر ہی نہیں ہوئے، تو کوئی انصاف والا اگر موجود ہے تو بتائے کہ یہ رسولِ اکرمﷺ کے مصلحانہ کمالات کی تعظیم ہے یا تنقیص؟
اس دور میں اگر کوئی آپﷺ کا پیرو و اصلاح و تجدید کا جذبہ لے کر اٹھتا ہے اور چند ہی روز میں اپنی مخلصانہ جدوجہد سے لاکھوں انسانوں کی کایا پلٹ کر دیتا ہے تو اس کے اثرات بھی برسوں نہیں صدیوں تک فنا نہیں ہوتے اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ فیض ہوتا ہے آقائے مدنیﷺ کی اطاعت و اتباع کا، تو خود سرکارِ مدینہﷺ کے مصلحانہ کمالات کا اثر اور نتیجہ کیا ہونا چاہیے؟ لوگ کہنے کو تو ایک بات منہ سے نکال دیتے ہیں؛ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے اوراس کا اثر کہاں کہاں تک پہنچے گا؟ کسی قدر بھی عمیق نظر سے کام لیا جائے تو یہ بات صاف طور پر واضح ہو جائے گی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عداوت اور ان کے انکارِ ایمان کے پردہ میں اعتقادِ رسالت کی بنیادیں متزلزل ہیں۔ جس شخص کو رسالت و نبوت پر اعتماد ہو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عقیدت سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔