حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندحضرت زید بن ثابتؓ
کاتبینِ وحی میں سے نمایاں اور سر فہرست آنے والا نام حضرت زید بن ثابتؓ کا ہے، آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے: حضرت زید بن ثابت بن ضحاک بن زید خزرجی انصاریؓ، کتابتِ قرآن؛ بلکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین میں سب سے نمایاں خدمت آپ نے ہی انجام دی ہے، آپ مدینہ منورہ کے مفتی اور امام تھے، علمِ میراث میں مشیخیت کا درجہ حاصل تھا، سرکارِ دوعالمﷺ نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا:
أفْرَضُ أمَّتِي زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ
(سیر أعلام النبلاء: جلد، 2 صفحہ، 309)
ترجمہ: میری امت میں سب سے زیادہ علمِ فرائض جاننے والے، زید بن ثابت ہیں۔
رسولِ اکرمﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے، اس وقت حضرت زیدؓ کی عمر گیارہ سال تھی، اور سترہ سورتیں یاد کر چکے تھے، جب سرکارِ دوعالمﷺ نے وہ سورتیں سنیں تو بہت خوش ہوئے اور یہودیوں پر عدمِ اہتمام کا اظہار کرتے ہوئے، ان کی زبان و تحریر سیکھنے کا حکم فرمایا، حضرت زیدؓ فرماتے ہیں کہ: نصف مہینہ میں ہی یہود کی زبان و تحریر پر میں قادر ہو گیا، اور اتنا ماہر ہو گیا کہ: یہود کی طرف حضورﷺ کے خطوط لکھتا تھا، اور ان کی طرف سے جو خطوط آتے تھے ان کو آپ کے سامنے پڑھتا بھی تھا۔ حضرت زیدؓ ہی کی روایت ہے کہ: سرکار دوعالمﷺ نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں ایک ایسی قوم کے پاس مراسلت کرتا ہوں، جس پر مجھے اطمینان نہیں ہے کہ وہ کہیں کچھ زیادہ یا کمی نہ کر دے، لہذا اے زیدؓ! تم سُریانی زبان سیکھ لو! میں حکم پاتے ہی صرف پندرہ یا سترہ دنوں کی قلیل مدت میں سُریانی زبان سیکھ لیا۔
(الاصابہ: جلد، 1 صفحہ، 543 البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 328)
آپ خدمتِ نبویﷺ میں رہ کر بادشاہوں کے خطوط بھی لکھا کرتے تھے۔
(الورزاء ولکتاب: صفحہ، 12)
آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی روایت متواتر ہے، جن مؤرخین نے کتابت کی صراحت کی ہے، ان میں سر فہرست ابن اسحاق، خلیفہ ابن خیاط، عمر بن شعبہ، بخاری، طبری وغیرہ ہیں۔
(حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ: جلد، 5 صفحہ، 350 تاریخ خلیفہ: جلد، 1 صفحہ، 77 فتح الباری: جلد، 9 صفحہ، 22، تاریخ طبری: جلد، 6 صفحہ، 79 وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ جلد، 7 صفحہ، 158، صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 746 فضائل القرآن)
حضرت زیدؓ فرماتے ہیں کہ:
میں رسول اللہﷺ کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو سخت گرمی لگتی تھی، آپ کے جسم اطہر پر پسینوں کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، جب آپ کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی تھی تو میں سامانِ کتابت لے کر حاضر ہوتا، آپ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا، لکھنے کے دوران قرآن پاک نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہ سکوں گا، جب فارغ ہو جاتا تو آپ فرماتے پڑھو! میں پڑھ کر سناتا، اگر اس میں کوئی فروگزاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرما دیتے، پھر اُسے لوگوں کے سامنے لاتے۔
(مجمع الزوائد: جلد، 1 صفحہ، 152 باب عرض الکتابت بعد املاہ)
اسی امتیازی وصف کی وجہ سے حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ کے مشورہ سے آپ کو ایک جگہ قرآن مجید جمع کرنے کی خدمت اصرار کے ساتھ سپرد فرمائی، اور انھیں اوصاف کی وجہ سے حضرت عثمان غنیؓ نے مصاحف نقل کرنے والی جماعت کا انچارج بنایا۔
(صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 746)