مسند ابوبکر اور المصنف عبدالرزاق کی اس روایت میں کوئی شبہ ہی باقی نہیں ہے کہ یہ ادراج راوی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ناراضگی اور بائیکاٹ اور نماز میں شرکت کی اجازت نہ دینا اس واقعے کی عینی شاہد یعنی جناب عائشہ کا ہی قول ہے ۔شیعہ مناظر(قسط 25)
جعفر صادقمسند ابوبکر اور المصنف عبدالرزاق کی اس روایت میں کوئی شبہ ہی باقی نہیں ہے کہ یہ ادراج راوی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ناراضگی اور بائیکاٹ اور نماز میں شرکت کی اجازت نہ دینا اس واقعے کی عینی شاہد یعنی جناب عائشہ کا ہی قول ہے ۔شیعہ مناظر(قسط 25)
شیعہ مناظر: سلام علیکم ۔ ممتاز صاحب جب آپ نے خود ہی اصلی بحث کی ترتیب کو خراب کرنے کے لیے مختلف اور اصل بحث سے غیر متعلق سوالات اور ان کا بار بار تکرار کیا تو میں بھی کچھ شبہات اور پیش کرنے پر مجبور ہوں تاکہ ایک تو آپ کویہ سمجھا سکوں کہ میری طرف سے اصل موضوع پر اصرار کا یہ مطلب نہیں کہ میں دوسرے موضوعات پر آپ کے سوال کا جواب دینے سے عاجز ہوں۔ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے یہ مشورہ بھی آیا تھا کہ میں ترتیب سے آپ کے سوالوں کا جواب دوں میں نے ان کے مشورے کا یہ جواب دیا کہ میں ایسا کروں گا تو گفتگو کا اصلی مقصد فوت ہوگا لہٰذا ایک دو مسائل چھیڑنے کا مطلب آپ کو واپس اصل موضوع پر واپس لانا تھا۔
سنی مناظر: وعلیکم السلام۔ کچھ مصروفیات ہیں۔ میں جمعہ کے دن سے گفتگو شروع کروں گا۔آپ اپنی تحریر کے (ب) کے متعلق مکمل تیاری کرلیں۔ کیونکہ آپ کے پاس دلائل اور اسکینز کی کمی ہے۔ جس سے چاہیں مدد لیں لیکن مکمل تیاری کے ساتھ آئیں۔ گفتگو ٹو دی پوائنٹ اور ایک ایک نکتہ کو کلیئر کرتے ہوئے آگے بڑھتی جائے گی۔ان شاء اللہ۔ میرے سوالات موضوع سے باہر نہیں تھے آپ ہاں یا ناں کے چکروں میں تھے جبکہ آپ کو سوچنا چاہئے تھا کہ علمی گفتگو ہاں یا ناں سے نہیں کی جاتی۔ آپ کے دوستوں نے درست مشورے بھیجے ، آپ کو ان پرعمل کرنا چاہیے تھا اور بنیادی سوالوں کے جواب دے کر شیعیت کا دفاع کرنا تھا۔
شیعہ مناظر: اب آتا ہوں آپ کی نتیجہ گیری پر۔میرے مدعا کے الف۔آپ کے دلائل تین تھے۔
آپ کے علماء میں سے بعض کی طرف سے ادراج کا دعوایٰ اور لفظ (قال) بعض قطعی شواہد اور ایک دو شبہ مثلا راوی کا عینی شاہد نہ ہونا۔جناب فاطمہ ع رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا انکار اور استغفار۔
میں نے چار حصوں میں 20 کے قریب دلائل پیش کئے اور یہ ثابت کردیا کہ ادراج نام کی کوئی چیز نہیں اگر ادراج ہو بھی ،پھر بھی سب حقیقت اور راوی نے غلط بات نقل نہیں کی ہے بلکہ آپ نے غلط نتیجہ نکالا لہٰذا دوستوں کی خاطر اور آپ کے غلط فہمی کو دور کرنے کی خاطر فہرست وار اور مختصر اشارہ کرتا ہوں۔
آپ کی پہلی دلیل: ادراج کی نفی پر داخلی شواہد: اسی بخاری کی حدیث میں حدیث سننے کے بعد بھی جناب فاطمہ کی طرف سے مطالبہ جاری رکھنا اور جناب عائشہ کا یہ قول
(قالت. کانت فاطمہ تسال ابابکر)
یعنی اس کے بعد بھی معاملہ جاری رہا۔
آپ کے پیش کردہ ادراج کے دعوی ٰکے مطابق امام بیہقی نے ادراج کو غضبت کے بعد تسلیم کیا لہٰذا غضبت کا معاملہ واضح ہے اور آپ نے خود ہی ایسے شواہد پیش کئے کہ جن سےصاف ظاہر ہے غضبت تو صحیح ہے۔اب بائکاٹ کا جاری رہنا اور راضی رہنے پر میرے اسی حدیثی شواہد میں سے ایک۔
مسند ابوبکر میں موجود اسی روایت ایک اور نقل جس میں کوئی شبہ ہی باقی نہیں ہے کہ یہ ادراج راوی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ نارضگی اور بائیکاٹ اور نماز میں شرکت کی اجازت نہ دینا اس واقعے کی عینی شاہد یعنی جناب عائشہ کا ہی قول ہے ۔ اسی طرح المصنف عبدالرزاق کی حدیث بھی واضح ہے کہ ان سب کے راوی خود جناب عائشہ ہے۔کوئی ادراج نہیں،اسناد دیکھنا۔
عبدالرزاق کی کتاب میں 6658، 6660 نمبر حدیث دیکھنا۔بات بلکل کلیر ہے۔ عدم ادراج پر حدیث سے باہر کے شواہد کا بھی میں نے تذکرہ کیا تھا ۔جناب عائشہ کا قول قالت کانت فاطمہ تسال اور امیر المومنین کی طرف سے خلیفہ دوم کے دور تک مطالبہ جاری رکھنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان معاملہ ختم نہیں ہوا تھا ۔اس کے شواہد ایک دفعہ پھر ملاحظہ کریں۔خلیفہ دوم کہتا ہے: علی میرے پاس اپنی بیوی کی ان کے باپ سے میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔
جِئْتَنِى تَسْأَلُنِى نَصِيبَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ ، وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا
صحيح البخارى کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔۔ مسند أحمد (4/ 213):
وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ حَدِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، ۔۔۔۔۔ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ،
صحیح مسلم - كتاب الجهاد والسير - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔۔
السنن الكبرى للبيهقي کتاب قسم الفئ۔۔ ۔۔۔ ( 5 باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء ۔۔
وجاءني هذا ـ يعني عليا ـ يسألني ميراث امرأته ۔۔ صحيح ابن حبان (14/ 575):
هذا - يعني عليا - يسألني ميراث امرأته من أبيها ۔ مصنف عبد الرزاق (5/ 471):
ثُمَّ جِئْتُمَانِي، جَاءَنِي هَذَا , يَعْنِي الْعَبَّاسَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَهُ مِنِ ابْنِ أَخِيهِ، وَجَاءَنِي هَذَا , يُرِيدُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , يَسْأَلُنِي مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا،۔
السنن الكبرى للبيهقي (6/ 487)
لہذا یہ خود اسی بات پر دلیل ہے کہ معاملہ ختم نہیں ہوا ہے ۔اب نماز میں شرکت کی اجازت نہ دینے کی بات بھی اوپر کی اسناد میں کلیئر ہے دوستوں کی خاطر اسی لنک کو دوبارہ شیئر کر رہا ہوں ۔ اس سے ایک سند حضرت زهرا (س)کو راتوں رات دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھنے پائے۔عبد الرزاق صاحب كتاب «المصنف» نے ایک اور معتبر روایت نقل کی ہے جس کے مطابق اميرالمؤمنین عليه السلام نے حضرت زهرا (سلام الله عليها) کو راتوں رات دفن کیا تاکہ ابو بكر آپ پر نماز نہ پڑھنے پائے ۔
6554 عبد الرزاق عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ حَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دُفِنَتْ بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَرَّ بِهَا عَلِيٌّ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهَا، كَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ.
حسن بن محمد نے نقل کیا ہے كه فاطمہ بنت رسول خدا ﷺ کو راتوں رات دفن کیا : علي [عليه السلام] نے اس کام کو انجام دیا تاکہ ابوبکر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا جنازہ نہ پڑھنے پائے ، کیونکہ ابو بكر اور فاطمہ کے درمیان کچھ ہوا تھا۔
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 3، ص521، تحقيق : حبيب الرحمن الأعظمي، دار النشر: المكتب الإسلامي – بيروت، الطبعة : الثانية 1403
اس روایت کی سند صحیح ہے نیچے کی لنک پر رجوع کر کے دوست و احباب اطمنان حاصل کر سکتے ہیں ۔
اسی سلسلے کی ایک اور اہم سند سنن ترمذی کی وہ روایت ہے جس میں امام زہری نہیں ہے اور ابوھریرہ سے نقل ہوئی ہے ۔
ملاحضہ کریں
دَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، تَسْأَلُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالاَ: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنِّي لاَ أُورَثُ، قَالَتْ: وَاللَّهِ لاَ أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا، فَمَاتَتْ وَلاَ تُكَلِّمُهُمَ
سنن الترمذي
أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : 44- بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرِكَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
نوٹ: خود امام ترمذی نے{ لاَ أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا} بات نہ کرنے کو ان کی طرف سے خلیفہ کی بات کو قبول کرنے کا معنی کیا ہے جبکہ یہ اس سلسلے کی دوسری روایات کے خلاف معنی ہے حتیٰ ترمذی کی دوسری روایات کے بھی خلاف ہے اور اس پر بہت سے شواہد ذکر کر چکا ہوں لہذا یہاں پر بات نہ کرنے کا مطلب وہی ہے جو ناراضگی اور بائیکاٹ کی حالت کو بتاتی ہے۔امام ترمذی کے گمان کی کوئی حیثیت نہیں جیساکہ ابن حجر نے بھی امام ترمذی کی اس بات کو رد کیا ہے۔اس کی اسکین پہلے پیش کرچکا ہوں ۔
آگے سے آپ نے شواہد پیش کرنے کا کہا تھا اور شواہد شواہد کا رٹ تو بہت لگایا بعد میں ایک مرسل روایت پیش کی اس کا حشر بھی معلوم ہے ۔صحیح سند اسناد کے مقابلے میں ایک مرسل روایت کی کیا حیثیت ہے۔ ہاں تعصب سے کام لینا چاہئے تو کوئی علاج نہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔ اب آپ کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ایک دفعہ آپ کے مرسل کا حشر دیکھاتا ہوں ۔
فِي التَّمْهِيدِ - ِلابْنِ عَبْدِ البَرِّ - ج 22 :320 - م "ومَرَاسِيلُ الشَّعْبِيِّ لَيْسَتْ عِنْدَهُمْ بِشَيْءٍ".
: وَجَاءَ عَنْ القَسطَلانِي - إِرْشَادُ السَّارِيِ 6 :475 - مَا نَصُّهُ: "وَأَمَّا مَرَاسِيلُ الشُّعْبِيِّ لَيْسَتْ بِحُجَّةٍ
مُطْلَقًا َلا سِيَّمَا مَا عَارَضَهُ الصَّحِيحُ". انْتَهَى.
وَهُنَا فِي مَوْرِدِنَا قَدْ عَارَضَ مُرْسَلَ الشُّعْبِيِّ الظَّاهِرُ مِنْ صَحِيحِ البُخَارِيِّ النَّافِي لِرِضَى الزَّهْرَاءِ
(عَلَيْهَا السَّلامُ) عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُطْلَقًا حَتَّى المَمَاتِ.
قَالَ الأَلْبَانِيُّ فِي إروَاءِ الغَلِيلِ - ج 5 - ص 288 – 289 :
"وَثَّقَهُ العَجلِيُّ"! قُلْتُ: وَهُوَ مِنْ المَعْرُوفِينَ بِالتَّسَاهُلِ فِي التَّوْثِيقِ، وَلِذَلِكَ لَمْ يَتَبَنَّ الحَافِظُ تَوْثِيقَهُ
. انْتَهَى.
وَالمُرَادُ بِالحَافِظِ ابْنُ حَجَرٍ.
وَجَاءَ فِي "تَمَامِ المِنَّةِ"- لِلأَلْبَانِيِّ أَيْضًا - ص 400 - 401:
" وَقَدْ وَثَّقَهُ العَجلِيُّ". قُلْتُ: تَوْثِيقُ العَجلِيُّ فِي مَنْزِلَةِ تَوْثِيقِ ابْنِ حَبَّانَ، وَلِذَلِكَ لَمْ يَعْتَمِدْهُ هَهُنَا
الذَّهَبِيُّ وَغَيْرُهُ مِنْ المُحَقِّقِينَ". انْتَهَى.
فَهَذِهِ شَهَادَةُ ثَلاثَةٍ مِنْ كِبَارِ عُلَمَاءِ أَهْلِ السُّنَّةِ المُتَقَدِّمِينَ وَالمُتَأَخِّرِينَ: ابْنُ حَجَرٍ وَالذَّهَبِيُّ وَالأَلْبَانِيُّ عَلَى عَدَمِ الأَخْذِ بِتَوْثِيقَاتِ العَجلِيِّ، فَكَيْفَ يَكُونُ كَلامُهُ مَقْبُوًلا عِنْدَ غَيْرِ أَهْلِ السُّنَّةِ؟!!!
آپ کے تین بزرگوں کی طرف سے مراسیل شعبی کے عدم اعتبار پر تصریحات اور کیا چاہئے آپ کو آپ کے امام ذھبی اور ابن حجر ، البانی نے واضح طور پر اس کے مراسیل کو رد کیا ہے لہٰذا جو شاخ نازک پر آشیانہ بنائے ۔ جناب ممتاز صاحب یہ آپ کے ادراج اور اس کے شواہد کا حشر ہے لیکن تعجب اس بات کی ہے کہ آپ ان سب حقائق سے چشم پوشی کر کے ادراج ادراج کا رٹ لگارہے ہیں ۔ میں تو آپ کو اس نعرے اور مسلک ادراجی اور گمانی سے دست بردار ہونے پر مجبور تو نہیں کرسکتا لیکن الحمد لللہ دوستوں تک آپ کے بہانے حقیقت کو روشن کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔اس پر آپ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔اگر اس مکمل سند کا مطالبہ کریں تو پیش کرسکتا ہوں ۔ابھی نماز کا وقفہ ۔ آپ فلحال کچھ نہ لکھیں ۔ ممتاز صاحب۔ کچھ نہ لکھنا ۔ خلاف ورزی نہ کرنا ۔
سنی مناظر: چلیں آپ بضد ہیں تو فی الحال ب پر گفتگو شروع نہیں کرتے۔اب آپ دوبارہ رونا روتے ہوئے سیدنا علی اور حضرت عمر فاروق والی حدیث کو بار بار بیچ میں نہ لانا کیونکہ جب معاملہ سیدہ فاطمہ کے مطالبہ فدک والا ہی بحث کرنا ہے تو وہیں تک رہیں تاکہ ایک ایک نکتہ کلیئر ہوجائے۔ جب دور حضرت عمر فاروق شروع ہوا تو اس کے حقائق آپ نے خود ب میں لکھے ہیں اس لئے ب کا واقعہ الف سے جوڑ کر الف کو سمجھنے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں ختم کردیں۔
شیعہ مناظر کی طرف سے سنی مناظر کو زبردستی جواب دینے سے روکنا اور ایڈمن شپ سے ہٹادینا
آدھا گھنٹے بعد آپ کو دوبارہ ایڈمن بنا دوں گا ۔
اس نامناسب حرکت پر بطور احتجاج سنی مناظر نے گروپ لیفٹ کردیا!