کافروں کی شہادت مسلمان کے خلاف قابلِ اعتبار نہیں ہے
قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے: وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡۚ: گواہ بنا دو تمہارے مردوں میں سے۔
تشریح: آیت میں مؤمنوں سے خطاب کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایمان والو! تم اپنے مؤمنین مردوں میں سے دو گواہ بنا لو جس کے مفہوم سے معلوم ہو رہا ہے کہ کافروں کی شہادت معتبر نہیں ہے۔ نہ ہی ان کو گواہ بنانا جائز ہے۔ سیدنا ابوبکر جصاصؒ احکامِ قران کے اندر آیت مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے قول ای من رجالکم جس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف شہادت دینے کے لئے ایمان شرط ہے۔
سیدنا ابن الہمامؒ فتح القدیر شرح الھدایۃ میں شہادت کی بحث میں رقمطراز ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی شہادت قابل قبول نہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا: وَلَنۡ يَّجۡعَلَ اللّٰهُ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ سَبِيۡلًا یعنی کافروں کے لئے مسلمانوں کے خلاف کوئی راستہ اللّٰہ جل شانہ نے نہیں رکھا۔
علامہ ابن عابدین شامیؒ دارلمختار میں لکھتے ہیں کہ مدعی اگر مسلمان ہے تو شاہد اور گواہ کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے۔
درِ مختار میں ہے کہ کسی مسلمان کے خلاف کسی کافر کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔
واضح رہے کہ شیعہ روافض کی شہادت مسلمان کے خلاف ناقابلِ اعتبار ہونے پر نظائر تو بے شمار ہیں، یہاں پر صرف دو نظائر پیش کی جاتی ہیں۔
1: صاحب اخبار القضاۃ رقمطراز ہیں: کان ابی لیلی لا یجھر شھادۃ الرافضۃ قاضی عبدالرحمن بن ابی لیلی روافض کی شہادت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔
2: وکان شریک لا یجھر شھادۃ الرافضۃ قاضی شریک روافض (شیعہ) کی شہادت کو جائز قرار نہیں دیتے تھے۔
لہٰذا مسلمانوں کے مقدمات میں معتبر اور دین مسلمان گواہ کا پیش کرنا ضروری ہے شیعہ اور روافض کی شہادت قابلِ قبول نہ ہو گی۔
علاؤہ اس کے یہ ہے کوئی شہادت اس شخص کی وہ نہیں ہوتی کہ جو شخص کسی سے عداوت رکھے رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ایک طویل حدیث میں ہے:
ولاذی عمر لاخیه وفی حاشیۃ کذا وقع والصواب ولا عمر لاخیه بالیاء وقد ذکرہ الدار قطنی و صاحب الغریںین بلفظ یدل علی صحۃ ھذا
ظاہر بات ہے کہ اثناء عشری شیعہ اہلِ سنت والجماعت سے عداوت رکھتے ہیں اس لئے ان کی شہادت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
کسی مسلمان کے خلاف شہادت دینے کے لئے یہ شرط ہے کہ گواہ مسلمان ہو سچا ہو غیر جانبدار ہو اور شیعہ میں یہ تینوں شرطیں مفقود ہیں لہٰذا مسلمان کے خلاف اس کی شہادت مردود ہے۔
(فتاویٰ بینات: جلد، 3 صفحہ، 542)