شہادت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ (قسط ششم)
نقیہ کاظمیشہادتِ سیدنا عثمان غنیؓ قسط ششم
سیدنا عثمان غنیؓ کی گستاخی کا انجام:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض رکھنے کی سزا! حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحابؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا ان کے بارے میں زبان نہ کھولنا، میرا ان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے، ان کے ساتھ محبت میری محبت اور ان کا بغض میرا بغض ہے، آپﷺ نے یہ بات صرف ارشاد ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کا عملاً مظاہرہ بھی فرمایا۔ حضرت جابر بن عبداللّٰہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص کا جنازہ آیا اور حضورﷺ سے درخواست کی گئی کہ آپﷺ اس کی نماز پڑھا دیں، آپﷺ نے نماز پڑھانے سے انکار فرما دیا۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص سیدنا عثمانؓ سے بغض و کینہ رکھتا تھا پس اللہ نے بھی اس کے ساتھ عداوت رکھی ہے۔
انہ کان یبغض عثمانؓ فابغضہ اللہ۔
(جامع ترمذی: جلد، 2 صفحہ، 212)
اس سے پتا چلتا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کسی قسم کا بغض در حقیقت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی مول لینا ہے. اس واقع سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے دل حضرت عثمانؓ کے کینہ اور بغض سے بھرے ہوئے ہیں جب وہ دنیا میں حضورﷺ کی دعائے رحمت سے محروم رکھے گئے تو قیامت کے دن بھی وہ حضورﷺ کی نظرِ رحمت سے محروم ہوں گے۔
(اللہ سب کی حفاظت فرمائے)
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عصا توڑنے والے کا انجام:
ایک مرتبہ حضرت عثمان غنیؓ خلافت کے آخری دنوں میں خطبہ دے رہے تھے، آپؓ کے ہاتھ میں عصا تھا، اس وقت مفسدین اور باغیوں کا ایک گروہ وہاں موجود تھا، ان میں سے جحیاہ نامی ایک شخص اٹھا اور اس نے آپؓ کے ہاتھ سے عصا چھین لیا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اسے توڑ دیا۔ اس کے کچھ دن بھی نہ گزرے تھے کہ وہ آکلۃ (یعنی کینسر) کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور یہ مرض اسکی ٹانگ میں شروع ہوا لوگوں نے دیکھا کہ اسکی ٹانگ میں کیڑے پڑے ہیں۔
فتناول عصا عثمانؓ وکسرھا رکبتیہ فاخذتہ الآکلۃ فی رجلہ۔
(ازالہ: جلد، 4 صفحہ، 315)
(البدایہ: جلد، 7 صفحہ، 346)
فرمی فی ذالک الموضع بآکلۃ۔
(المصنف لابن ابی شیبہ: جلد، 7 صفحہ، 442)
سیدنا عثمان غنیؓ کی بدعا لینے کا انجام:
جناب قلابہؓ کہتے ہیں کہ میرا ملک شام جانا ہوا تو وہاں میں نے ایک شخص کو کراہتے ہوئے سنا کہ ہائے افسوس آگ۔ ہائے افسوس آگ۔ میں اسکے پاس گیا تو دیکھا کہ اسکے دونوں ہاتھ اور دونوں ٹانگیں قدموں کے اوپر سے کٹی ہوئی ہیں اور وہ دونوں آنکھوں سے بھی اندھا ہے اور وہ منہ کے بل پڑا ہوا یہ الفاظ کہہ رہا تھا میں نے جب اس سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے کہا
انی کنت ممن دخل الدار فلما دنوت منہ صرخت زوجتہ فلطمتہا فقال مالک قطع اللّٰہ یدیک و رجلیک و اعمی عینیک و ادخلک النار، فاخذنی رعدۃ عظیمۃ و خرجت ھاربا واصابنی ماتری ولم یبق من دعائہ الا النار قال فقلت لہ بعدا لک و سحقا۔
(ازالہ: جلد، 4 صفحہ، 315)
میں باغیوں اور مفسدوں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے مکان میں داخل ہوا تھا، جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ نے زور سے چیخ ماری تو میں نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات دیکھی تو کہا تجھے کیا ہوا ہے، اللہ تیرے دونوں ہاتھ اور ٹانگوں کو کاٹ دے اور تجھے اندھا کر دے اور تجھے آگ میں داخل کرے۔ چنانچہ مجھے ایک زلزلے نے آ دبوچا اور میں نکل بھاگا اور یہ مصیبت مجھ پر گر پڑی جو تو دیکھ رہا ہے اور اب ان کی بد دعا میں صرف جہنم کی آگ کا انتظار ہے۔ میں نے یہ بات سن کر اسے کہا کہ چل مجھ سے دور ہوجا۔ تجھ پہ لعنت اور ذلت ہو۔
سیدنا عثمانؓ پر ہاتھ اٹھانے والے کا ہاتھ سوکھ جانا
حضرت امام بخاریؒ اپنی تاریخ میں امام ابنِ سیرینؒ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے طواف کعبہ کے دوران ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھے یقین ہے کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا۔
میں نے اس سے اس عجیب دعا کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے قسم کھائی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تھپڑ ماروں گا، چنانچہ جب انہیں شہید کیا گیا اور ان کی میت ان کے گھر پر تھی تو میں بھی داخل ہونے والوں کے ساتھ وہاں داخل ہوا جب میں نے دیکھا کہ ان کی میت کے آس پاس کوئی نہیں تو میں ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹا کر تھپڑ مار دیا اور باہر نکلا ہی تھا کہ اچانک میرا وہ ہاتھ خشک ہو گیا۔ امام محمد بن سیرینؒ کہتے ہیں کہ میں نے جب اس کے ہاتھ کو چھوا تو وہ بری طرح سوکھ گیا تھا گویا کہ وہ لکڑی ہے۔
قال محمد بن سیرین رأیتھا یابسۃ کانھا عود۔
( تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 250)
سیدنا عثمانؓ کے گستاخوں پر پاگل پن کا عذاب:
یزید بن حبیب کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کی خبر ملی کہ جن لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر پر چڑھائی کی تھی وہ سب کے سب مجنون اور پاگل ہو گئے تھے۔
ان عامۃ الرکب الذین ساروا الی عثمانؓ جنوا۔
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 50)
(صواعق محرقہ صفحہ، 112)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ارادہ کیا تھا بے شک انہیں کچھ دنوں کی مہلت تو ملی مگر وہ آخرکار خدا کی پکڑ میں آئے اور پاگل ہو گئے۔
حضرت عثمانؓ کو برا کہنے والے کا منہ کالا ہو گیا۔
علی بن جدعانؒ کہتے ہیں کہ مجھ سے رئیس التابعین حضرت سعید بن مسیبؒ نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے دیکھو میں نے جب اسکی طرف دیکھا تو حیران ہو گیا اسکا منہ کالا تھا میں نے کہا حسبی اللہ ...
سعید بن مسیبؒ نے کہا کہ یہ شخص سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علیؓ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور میں اسے اس گستاخی سے منع کرتا تھا مگر وہ باز نہ آیا تو میں نے کہا
اللہم ھذا یسب الرجلین قد سبق لھما ما تعلم اللّٰہم ان کان یسخطک ما یقول فیھما فارنی فیہ آیۃ فاسود وجہہ کما تری۔
(مختصر تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 268)
(ریاض: جلد، 3 صفحہ، 47)
ازالہ: جلد، 4 صفحہ، 352)
یا اللہ یہ شخص ایسے دو بزرگوں کو گالیاں دیتا ہے جن کے اعمال کے متعلق آپ کو بخوبی علم ہے (کہ وہ کس قدر نیک تھے) اے اللہ جو کچھ یہ ان دونوں کے بارے میں کہتا ہے اگر آپ کو ناپسند ہے تو مجھے اس میں کوئی نشانی دکھا دیجیے چنانچہ میں نے دیکھا کہ (اس پر اللہ کا غضب اترا اور) اس کا منہ سیاہ ہو گیا جیسا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا گستاخ بجلی کی لپیٹ میں:
ابو نضرۃ کہتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کو برا کہہ رہا تھا، ہم نے اس کو روکا کہ حضرت عثمانؓ کے بارے میں اس طرح کی گفتگو نہ کرو تو اس نے ہماری بات نہ سنی اور آپ کی گستاخی سے باز نہ آیا۔ اتنے میں اچانک ایک زوردار بجلی چمکی اور اس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اسے جلا دیا۔
فجاءت صاعقۃ فاحترقتہ۔
(مختصر تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 268)
ترجمہ: تمام قاتل اپنے انجام کو پہنچے۔
سیدنا عثمانؓ کے قتل کے جن لوگوں نے منصوبے بنائے اور اس ارادہ سے وہ مدینہ آئے اور انہوں نے اس گھناؤنی واردات میں حصہ لیا وہ سب ظالم خدا کی پکڑ میں آئے، اس ظلم میں مصری باشندے بہت آگے تھے عبداللہ ابنِ سبا اور اس تحریک کی قیادت یہیں تھی پھر ایک وقت آیا کہ خود عبداللہ ابنِ سباء کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے گرفتار کیا اور اسے اس کے گندے عقائد کی سزا میں آگ میں جلا دیا۔
فامر باحراق قوم منھم فی حفرتین۔
(الفرق بین الفرق: صفحہ، 177)
(صحیح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 423)
شیعہ عالم ابو عمرو احمد بن عبدالعزیز لکھتا ہے کہ امیر المؤمنین (سیدنا علیؓ نے ابنِ سباء سے کہا) کہ تجھ پر شیطان سوار ہے تو اپنی ان حرکتوں سے باز آجا اور توبہ کر لے لیکن اس نے آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا تو آپؓ نے اسے تین دن قید میں رکھا اور اس کے بعد زندہ جلا دیا۔
(رجال کشی: جلد، 2 صفحہ، 183)
تاریخ طبری سے معلوم ہوتا ہے کہ بصرہ کے جو لوگ اس فساد میں شریک ہوئے وہ سب کے سب بھی بالآخر قتل کئے گئے ان میں سے کوئی بھی نہ بچا، اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا انتقام لیتے ہیں اور انہیں دنیا میں بھی نشانہ عبرت بناتے ہیں۔ سیدنا عثمانؓ کے خلاف اٹھنے والوں میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو جسے اس دنیا میں خون اور ذلت کا عذاب نہ دیکھنا پڑا ہو، ان میں سے ہر ایک یکے بعد دیگرے خدا کی گرفت میں آیا اور اس نے اللہ کے نیک بندے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی دنیوی سزا بھی دیکھی اور آخرت میں پکڑ اور وہاں کی رسوائی و ذلت تو آپؓ کا ہر گستاخ دیکھے گا۔ یہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بدعا تھی آپؓ نے اللہ کے حضور عرض کیا تھا کہ اے اللہ تو ان سب کو گن رکھنا، ان سب کو اپنے عبرتناک انجام سے دوچار کرنا اور ان میں سے کوئی باقی نہ بچے۔
اللہم احصھم عددا و اقتلھم بددا ولا یبق منھم ابدا۔
(رواہ ابنِ سعد: جلد، 3 صفحہ، 50)
حضرت امام مجاہدؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے خون میں جو بھی شریک ہوا اللہ نے سب کو عبرتناک انجام سے دو چار کیا تھا۔
فقتل اللہ منھم من قتل فی الفتنۃ۔
(مختصر تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 206)
(موسوعہ آثار الصحابہؓ: جلد، 2 صفحہ، 33)
رنگ جب محشر میں لائے گی تو اڑ جائے گا رنگ
یہ نہ سمجھیے کہ سرخی خون شہیداں کچھ نہیں۔نہیں۔