ھادی شیعہ مناظر اور دیگر ممبرز کے تبصرے۔ (قسط 44)
جعفر صادقھادی شیعہ مناظر اور دیگر ممبرز کے تبصرے۔ (قسط 44)
ھادی شیعہ مناظر: مناظرے پر تبصرہ از احقر ہادی بریسلی نجفی ۔خدا شاہد نے مناظرہ کو شروع سے لے کے آخر تک بغور دیکھا. شیعہ مناظر جناب محمد دلشاد نےبخاری اور مسلم سے صحیح سند کے ساتھ احادیث پیش کیں کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے حضرت ابو بکر سے اپنی میراث کا مطالبہ کرتی رہی رہیں۔
کانت فاطمۃ تسال لیکن اس مطالبے کو ابوبکر نے یہ کہہ کر رد کرتے رہے کہ انبیاء ع کی کوئی میراث نہیں ہوتی (ایک اور خیانت! حضرت ابوبکر صدیق نے نبی ﷺکا فرمان سنایا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے بات کر رہے ہیں تو پوری حقیقت بیان کریں)اس پر حضرت زہرا غضبناک ہوگئیں اور ابوبکر سے مرتے دم تک ناراضگی ظاہر کرتی رہی یہاں تک کہ آپ سلام اللہ تعالی علیہا نے ترک تعلق کر دیا ،اپنی نماز جنازہ میں شریک نہ کرنے کی وصیت کی اور رات کی تاریکی میں دفن کرنے کی وصیت کر دی۔
اس کا جواب دیتے ہوئے اہل سنت مناظر نے یہ اعتراض اٹھایا کہ حضرت زہرا کی کے الفاظ اور اس کے بعد کے جتنے الفاظ ہیں وہ سب زہری نے اپنی طرف سے ایڈ کر دیے ہیں لہٰذا اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔آپ حضرت زہرا کے چہرے کے تاثرات وغیرہ سے ثابت کریں کہ وہ ناراض ہو گئی تھی۔اس کے جواب میں جناب شیعہ مناظر نے اس بات پر زور دیا کہ آپ پہلے اس بات کا اقرار کریں کہ یہ روایت صحیح سند کے ساتھ ہماری صحیح ترین دونوں کتابوں میں موجود ہیں یہ فقط شیعوں کا الزام نہیں بلکہ یہ در حقیقت یہ ہماری اپنی صحیح ترین کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔اہل سنت مناظر نے اس بات کا جواب دینے سے کتراتے کتراتے بڑی مشکل سے یہ اقرار کرلیا کہ ہاں یہ باتیں ہماری صحیحین میں لکھی ہوئی ہیں لیکن ہم اس لئے نہیں مانتے کیوں کی اس حدیث میں زہری نے ادراج کر دیا ہے یعنی زہری کا گمان ہے،(کتراتے کتراتے!! اللہ کے بندے !!پہلے ہی دن اور پہلے جواب میں ہی صاف صاف حقائق لکھ دئے تھے۔ اوپر چیک کرلیں)
اس کے جواب میں شیعہ مناظر نے اہل سنت کے مین سٹریم علمائے کرام کے حوالوں سے بتایا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء نہ صرف اس اعتراض کو نہیں مانتے بلکہ اس کے اوپر انہوں نے تاویل یا تحلیل کر دی ہیں کچھ کہتے ہیں کہ زہرا س خطا پر تھی ان سے غلطی ہوگئی عثيمين اور ابن تیمیہ وغیرہ کے جوابات بھی دکھائے.
اس کے علاوہ چند ایسے علماء کا موقف دکھایا جوحضرت زہرا کی ناراضگی کو تو مانتے ہیں لیکن بعد میں رضایت کا دعویٰ کرتے ہیں جس پر آپ خود اہل سنت مناظر دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے۔ (اسکین رکھ کر پوری عبارت کیوں نہیں دکھائیں؟)
کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو آخری اوقات میں یعنی تقریبا چھ ماہ کے عرصے میں منوایا گیا تھا یعنی راضی کروایا گیا تھا۔ (اس رنجش کو ختم کرنا شیعوں کو قبول نہیں کیونکہ پھر ان کا دانہ پانی ختم ہوجائے گا)
اہلسنت مناظر کی طرف سے پیش کی گئی یہ دلیل شیعہ مناظر کے لیے ایک احسن دلیل کے طور پر تھی جس سے خود اہل سنت مناظر نے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے جید علماء کے نزدیک حضرت زہرا ناراض ہوگئی تھی لیکن بعد میں منوایا گیا تھا اور منوانے والی بات کو ثابت کرنے کیلئے جو حدیث دی وہ شعبی کی مرسل حدیث تھی جس میں مدلس راوی بھی تھا ۔(ایک ہوتی ہے شدید ناراضگی جس کے شیعہ قائل ہیں اور سیدہ کی توہین کرتے ہیں، ایک ہے عارضی رنجش، غلط فہمی اور خلش جو کہ نبیوں کے درمیان بھی کبھی کبھار ہوگئی اور زائل بھی ہوگئی، جو معیوب نہیں ہے۔ انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ اہل سنت سیدہ کی اس رنجش کے قائل ہیں جو بعد میں ختم بھی کردی گئی۔ اب بتائیں کس کا مؤقف اہل بیت کے شایان شان ہے؟)
اس اقرار نے صحیحین پر ایک اور مہر ثبت کردی کہ صحیحین کی روایت بالکل ٹھیک ہے امام زہری جوکہ 2200 سے زائد روایات کر رہا ہے اور اتنا قابل اعتبار ہے جس سے تمام صحاح میں ان سے کثیر روایات لی گئی ہیں۔ (کیا اہل تشیع ثقہ راویوں کے گمان پر من وعن ایمان رکھتے ہیں؟ آپ لوگ امام معصوم کے واضح صحیح قول کو بھی نہیں مانتے ہو!راویوں کے گمان کو کیا خاک مانوگے!)
اس کے علاوہ بخاری کی دقت نظری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بخاری تو ان روایات کو لینے کو تیار نہیں جن سے اہلبیت ع کی خاص فضیلت ثابت ہوتی ہو جیسے حدیث غدیر خم جیسی متواتر حدیث بھی امام بخاری کو اپنی طرف جلب کرنے میں بالکل ناکام رہی، خود بخاری کی دقت نظری امام زہری پر کامل اعتماد کثیر احادیث کا راوی اتنا بے وقعت بھی نہیں کہ جس کو شعبی کی مدلس مرسل روایت رد کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ علماء جرح وتعديل شوارح بخاري مسلم امام زہری کی روایت کو بالکل صحیح مانتے ہیں۔ (امام زہری ثقہ راوی ہے۔ اس کا انکار کس نے کیا؟ شعبی پر اوپر تفصیل موجود ہے)
اور شعبی کی مدلس مرسل روایت امام زہبی امام حاکم وغیرہ تسلیم نہیں کرتے لہذا بعد میں رضاعت والی حدیث تو گئی، لیکن اہل سنت مناظر نے اتنی بڑی غلطی کر دی جناب زیرا س کی رضایت تو ثابت نہ کرسکے لیکن ایک اور اعتراض بھی داغ دیا کہ زہری کی منفرد ہے کسی دوسرے راوی سے بھی دکھائیں لیکن اہلسنت مناظر یہ بھول گئے کہ امام مسلم اپنی صحیح میں فرماتے ہیں کہ زہری نوے حدیث کے قریب روایت کرتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔(مسلم، باب من حلف باللات والعزی فلیقل لاإلہ إلا:۳۱۰۷)(راوی کے گمان کی بات ہو رہی ہے۔ امام زہری کی اصل روایات کا کس نے انکار کیا؟)تو جناب اہلسنت مناظر نے اہلسنت کے منھج کے مخالفت کرتے ہوئے خبر واحد کو ماننے سے انکار کرتے رہے اور عملا منہج اہلسنت سے دستبرداری کا نمونہ بھی پیش کیا۔ (شدید ناراضگی خبر واحد ہے۔ کسی اور طرق اور کسی اور راوی نے بیان نہیں کیا۔ اصل نکتہ سمجھیں۔یہی منہج اہلسنت ہے، اگر نہیں تو پھر سنی و شیعہ کے بیچ اختلاف کیا رہا؟)
شیعہ مناظر نے امام زہری کے اکیلے راوی ہونے کے اعتراض کو مختلف جہتوں سے جواب دیدیا اور ابوہریرہ سمیت چند اور راویان سے بھی پیش کیا اور پھر شعبی کی مدلس اور مرسل روایت کو چٹکی میں رد کر دکھایا۔
اور گرم توے میں ایک اور صحیح حدیث قالت عائشہ سے ناراضگی پر ٹھپہ لگا کر اہلسنت مناظر کے اوسان خطا کردیئے،جس کی تاب نہ لاکر موصوف نے جمعہ تک کا وقت مانگ لیا لیکن جب شیعہ مناظر جب جواب لکھنے لگے تو شیعہ مناظر کو مداخلت کرکے روک نے کی کوشش کرتے رہے۔ (پتہ نہیں کیسی کیسی باتیں آپ لوگ کر لیتے ہو۔ سب شیعہ مناظر ایک جیسے ہو!اوپر گفتگو پڑھیں۔ مجھے وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے)
جب باز نہ آئے تو شیعہ مناظر نے آدھا گھنٹہ کیلئے ایڈمن شپ سے ہٹانے کا اعلان کردیا،یہ آدھ گھنٹہ بجلی کی طرح اہلسنت مناظر پر گرا اور گروپ چھوڑ کر لفٹ کرگئے۔ (کیا میں لاکڈ گروپ میں فریق مخالف کی کاپی پیسٹ تحریریں پڑھتا رہتا، جبکہ نکتے پر موصوف جواب دینے سے عاجز ہوچکے تھے۔آپ اللہ کو حاضر ناضر سمجھ کر بتائیں کہ میری جگہ آپ سے یہ ہوتا کہ فریق مخالف گروپ لاک کر کے من مانی کرتا تو آپ کا کیا ردعمل ہوتا؟)
کچھ دیر بعد واپس گروپ میں تشریف لائے اور اپنے لفٹ ہونے کو احتجاجی علامت قرار دیا ۔(جب بتایا گیا کہ آپ کے مناظر تو فتح کا جشن منا رہے ہیں تو مجھے آنا پڑا۔ پھر جو حال اس کا ہوا وہ سب کے سامنے ہے)
شعبی کی مرسل روایت جو کہ صحیح روایات کے معارض تھیں۔اس کے متعلق شیعہ مناظر نے شاہد کے طور پر متقدمین اور متاخرین علماء رجال میں سے تین اقوال پیش کئے ۔امام حافظ زہبی سے امام حجر عسقلانی سے اور آلبانی سے کہ شعبی کی مرسل روایت صحیح قرار دینا سہل انگاری اور اصول حدیث کے برخلاف ہے چونکہ یہ قول عجلی کا تھا ان کو متساهل قرار دیکر مسترد کردیا۔یوں شعبی والی مرسل روایت خود محدثین اہلسنت نے قبول نہیں کی۔ (اس پر تفصیل اوپر موجود ہے ویسے دلشاد صاحب کا وہ جواب پڑھ لیجئے گا جب باقر مجلسی کا دفاع کرتے ہوئے شیعہ صحیح روایت اور راویوں کی ایسی تیسی کر رہا تھا۔)
محدثین اہلسنت کی کثیر جماعت کا یہی عقیدہ تھا اور ہے کہ صحیحین کی روایات درست ہیں جناب زہرا س ناراض ہوکر دنیا سے گزرگئی اور ابوبکر سے ترک کلام کیا الیقین لا یزول بالشک۔یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ہے۔آپ صحیح احادیث کو رد کرنے کیلئے مرسل اور مدلس روایت سے کیسے استدلال کرسکتے ہیں۔(ایک طرف صحیح روایت میں سیدہ کی ناراضگی کا گمان صرف ایک راوی سے اور وہ بھی خود سیدہ کے الفاظ سے نہیں !! اس پر شیعہ کو اتنا یقین کہ باقی قرائن و سنی و شیعہ روایات مسترد، چاہے سیدہ کی شان بھی مجروح ہوتی رہے!! بس شیعہ مسلک کی جیت ہونی چاہیئے! اللہ کی پناہ)
اس کے علاوہ شاہد کے طور پر شیعہ مناظر نے ترمزی شریف اور مصنف سمیت کئی کتب سے روایات پیش کی جو ناقابل تردید تھیں۔ (بس روایات کافی ہوتی ہیں۔ استدلال پیش کیا تھا؟ کاپی پیسٹ کرنے سے کوئی مناظر نہیں بن جاتا)
اس دفعہ اہلسنت مناظر نے اپنے اسلاف پر انٹرنیٹ اور جدید سہولیات نہ ہونے کی بنا پر کم علمی اور احادیث تک رسائی نہ حاصل کرسکنے والے قرار دے کر خود کو جدید دور کا ماڈرن سنی قرار دیا اور علماء سلف کے عقیدے کو مسترد کردیا البتہ ان کیلئے دعا بھی کی۔(وقت گذرنے کے ساتھ وسائل میں اضافہ اور سہولتیں میسر ہوتی ہیں ، کیا آپ انکار کرتے ہیں؟ قرآن کے سافٹ ویئر میں عربی یا اردو کا ایک لفظ لکھیں آپ کو ان آیات اور تفاسیر کی فہرست سیکنڈوں میں مل جائے جن میں وہ لفظ موجود ہوگا، کیا زمانہ قدیم میں یہ سہولت تھی؟۔ اگر وسائل نہ ہوں تو اس سے کم علمی کیسے ثابت ہوگئی؟کہاں کی بات کہاں فٹ کر رہے ہیں۔ بس مخالفت کرنی ہے، چاہےکیسے بھی ہو!)
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی شیعہ مناظر نے جناب صدیقہ کبری س کے دفاع اور مولا علی ع کی جناب فاطمہ کے مطالبے پر ڈٹ جانے کو صحیح مسلم اور بخاری سے احادیث دیں کہ مولا علی ع ابوبکر کی زندگی میں ان کے فیصلے کو خیانت دھوکہ دہی جھوٹ اور افترا سمجھتے رہے ییاں تک کہ حضرت عمر کی حکومت میں عمر سے بھی میراث فاطمہ س کا مطالبہ کرتے رہے جب حضرت عمر سے میراث فاطمہ س کا مطالبہ کیا تو حضرت عنر نے کہا تم علی اور عباس نے اس وقت ابوبکر کو جھوٹا خائن غدار سمجھا آج مجھے بھی خائن اور غدار جھوٹا سمجھتے ہو. (شیعہ مناظر دلشاد نے فرار اختیار کیوں کیا؟ میں نے شرائط اور وہ نکات بھی لکھ کر دے دئے کہ آپ لوگ آرام سے جواب لکھ کر ان تک پہنچائیں پھر بھی بھاگ کھڑا ہوا۔ آخر کیوں؟ یہ مؤقف ایک جھٹکے کی مار ہے۔ دلشاد سمجھ گیا کہ میں اس کیسے زیر کروں گا۔اس لئے ٹائیں ٹائیں فش)
ان صریح روایات سے شیعہ مناظر نے کمال علمی نکات بتائیں اور موقف اہلبیت کتب اہلسنت سے ثابت کیا
اور زہری کے گمان کہنے والوں کو آئینہ دکھایا۔معاملہ ختم ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو امام مسلم اور بخاری کی صحیحین سے حضرت علی کا احتجاج حضرت عمر کا اعتراف حضرت عائشہ کی احادیث ان پر کم از کن بیس سے زائد دلائل دے کر سنی مناظر کے منہ پر کالک مل دی۔( سوائے آپ لوگوں کی لمبی تحریروں کے اس بندے کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک موقعہ پر اسے کہا کہ یہ اتنی ساری روایات بھیج دی ہیں، ذرا چند جملے لکھ کریہ تو بتائیں کہ ان سے آپ ثابت کیا کر رہے ہیں تو موصوف کی سیٹی گم! اب ایسے ایسے کاپی پیسٹر بھی مناظر بن گئے ہیں۔ اللہ کی شان ہے!)
سچ کہتے ہیں جب انسان اپنے سلف علماء کے عقیدے اور ٹھوس دلائل کو یہ کہکر رد کردیں کہ ان کے پاس انٹرنیٹ اور کمپیوٹر نہیں تھے. اور ان تک احادیث پہنچی نہیں تھیں ہم کمپیوٹر اور جدید آلات سے لیس ہیں ہم تک حدیثیں پہنچی ہیں اور سلف کا عقیدہ درست کرنے نکلے ہیں تو طرف مقابل ایسے ہی کالک مل دیتا ہے۔(جو لوگ صحیح احادیث کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ ہم چھوٹے لوگوں کی باتیں کیا سمجھیں گے۔وہ بات کس تناظر میں کہی گئی اسے تھوڑی سمجھنا ہے، بس جم کے مخالفت کرنی ہے۔ )
شیعہ مناظر نے ایک اور نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بالفرض اگر امام زہری کی روایت کو اندراج قبول کرلیا جائے تب بھی اندراج کا معنی گمان نہیں ہوتا. کیونکہ جن علماء نے ادراج کی نسبت دی ان کے نزدیک بھی ادراج سے مراد شرح حديث ہے. نہ کہ گمان بافتی. چنانچہ امام سیوطی لکھتے ہیں :
و عندی ما أدرج لتفسیر غریب لا یمنع ولذلک فعلہ الزھری و غیر واحد من الأئمة
''اور میرے نزدیک کسی غریب لفظ کی تشریح کے لیے جو ادراج کیا جائے وہ ممنوع نہیں ،اس کے پیش نظر امام زہری اور دوسرے ائمۂ حدیث نے ادراج کی اس صورت کو استعمال کیا ہے
(تدریب الراوی : جلد١' ص٢٣١)
(ادراج کو ممنوع کس نے کہا؟ روایات میں کسی راوی کی طرف سے ادراج کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بات مکمل سمجھائی جا سکے یا درست پسمنظر پہنچ سکے۔ ادراج درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ )
پس امام زہری کی اس روایت کو بالفرض ادراج مان بھی لیں تو امام زہری امی عائشہ کی حدیث کی شرح کر رہے ہہں. تاکہ قاری کو حدیث کی صحیح سمجھ حاصل ہوجائے۔ (بالکل درست فرمایا۔ امام زہری کا ارادہ یہی تھا، لیکن جو تین گمان اس نے بیان کئے وہ تینوں دیگر سنی و شیعہ روایات سے غلط ثابت ہوتے ہیں اس سے واضح ہوا کہ وہ حقائق ان کے علم میں نہیں تھے۔ کسی بات کا علم نہ ہونا کوئی عیب نہیں ہے، اس نے وہی مفہوم سمجھا اور سمجھایا جو عام طور پر ایسی صورتحال میں ممکن ہوسکتا ہے، لیکن ہم اگر واقعے پر غور و فکر کریں تو سیدہ فاطمہ کی شان کے خلاف ہے کہ اپنے والد نبیﷺ کا فیصلہ سن کر بھی شدید ناراضگی اور غصہ کیا ہو۔)
پس صحیحین اور دیگر معتبر کتب و احادیث صحاح میں ناراضگی فاطمہ س ثابت تھی ترک تعلق بھی ثابت تھا .
بعد میں رضایت مل جابے والی بات بھی مرسل اور مدلس راوی سے ہے اور علماء جرح و تعدیل کے اصول کے خلاف بھی ہے اور قرین عقل بھی یہی ہے کہ الیقین لا یزول بالشک۔یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ہے
اس کے علاوہ امام زہری کے مقابلے میں ویسے بھی شعبی کی مرسل روایت کی اتنی حیثیت نییں بنتی. امام زہری 2200 سے زائد روایات کا راوی کدھر اور شعبی کی ارسال شدہ مدلس روایت کدھر۔(مقابلہ راوی کی صحیح روایت سے نہیں ہے بلکہ مقابلہ راوی کے ایسے گمان سے ہے جو دیگر قرائن کی موجودگی میں درست نہیں ہے)
اہلسنت مناظر نے امام زہری کی شخصیت کو مجروح کرنے کیلئے ایسے پیش کرنے کوشش کی کہ جیسے یہ ادراج( بمعنی گمان ھھھھ) کرنے میں مشہور تھے۔ذیل میں چند بزرگ تابعین علماء متقدمین و متاخرین کے اقوال پیش کرتے ہیں. جس کی طرف شیعہ مناظر بار بار متوجہ کرانے کی کوشش کرتے رہے. (امام زہری کی شخصیت کیسے مجروح ہو رہی ہے؟ اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، اپنا اندازہ بیان کیا۔)
امام زہری ائمہ جرح و تعدیل، ائمہ محدثین اور ائمہ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی نظر میں :
علماء جرح وتعدیل نے آپ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کیا ہے آپ کی زندگی کا کوئی ایسا باب نہیں ہے جس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے۔حافظ ابن حجر :’فقیہ اورالحافظ‘ ہیں‘ ان کی بزرگی اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے‘‘۔۔
(تقریب التہذیب:۵۰۶، رقم:۶۲۹۶)
حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے: تم ابن شہاب کو لازمی پکڑو کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی جاننے والا نہیں ہے۔‘‘
معروف تابعی قتادہ رحمہ اللہ ( متوفی ۱۰۹ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہاب سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا۔‘
تابعی مکحو ل رحمہ اللہ (متوفی ۱۰۹ھ) فرماتے ہیں:
’’زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا ہے۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ابن شہاب باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں۔‘‘
امام لیث بن سعد (متوفی ۱۷۵ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے ابن شہاب زہری سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا ۔‘‘
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھنے والوں میں سب سے زیادہ ’ثابت‘ امام زہری ہیں ۔‘‘
امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کسی ایک کے پاس بھی وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب کے پاس ہے۔ ‘‘
سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہ تو علم کا ایک سمندر ہے ‘‘۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام زہری اہل مدینہ میں سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سب سے بہتر اسناد جو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں وہ چار ہیں: امام زہری، حضرت علی بن حسین سے، وہ حسین بن علی سے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے اوروہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ اور امام زہری رحمہ اللہ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔‘‘
امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “انھوں نے دس صحابہ کی زیارت کی ہے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے تھے اور فقیہہ اور فاضل تھے۔ ‘‘
امام احمد العجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “تابعی اور ثقہ تھے”۔
امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’محمد بن مسلم الزہری ’الحافظ‘ اور ’الحجۃ‘ ہیں۔ ‘‘
ابو ایوب سختیانی رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۱ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
ابو بکر الھذلی رحمہ اللہ (متوفی ۱۶۷ھ) فرماتے ہیں: ’’میں حسن بصری اور ابن سیرین رحمہما اللہ کے ساتھ بیٹھا، لیکن میں نے زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے کہا کہ زہری آپ کو سعید بن مسیب سے زیادہ محبوب ہے یا قتادہ؟ تو انھوں نے کہا دونوں، تو میں نے پھر کہا کہ وہ دونوں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا یحییٰ بن سعید؟ تو یحییٰ بن معین نے کہا: یہ سب ثقہ راوی ہیں ۔‘‘
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حدیث کا علم اُمت محمد میں چھ افراد نے محفوظ کیا: اہل مکہ میں سے عمرو بن دینار نے اور اہل مدینہ میں ابن شہاب الزہری نے۔‘‘
(حوالہ فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ ازحافظ محمد زبیر)
امر واقعہ یہ ہے کہ امام المحدثین، امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کی تعدیل و توصیف سے اسماء الرجال کی کتب بھری پڑی ہیں۔ اب اس قدر جلیل القدر امام زہری رحمہ اللہ کے معاصر فقہاء، محدثین اور ائمہ کی شہادت امام زہری رحمہ اللہ کے حق میں ہم رد کر دیں اور مستشرقین اور آج کے ان جدید محققین یا متجددین کی قبول کر لیں جو تیرہ صدیوں بعد ان کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے،الغرض و قصہ مختصر اہلبیت علیہم السلام کا موقف یہی تھا کہ جاگیر فدک ان کی میراث تھا۔(سو باتوں کی ایک بات قرآن سے نبیوں کے گمان کا غلط ہونا ثابت ہے۔ جب معصوم کا گمان غلط ہونا ممکن ہے اور معیوب نہیں تو غیر معصوم راویوں کا گمان سو فیصد درست کیسے ممکن ہے؟ اور معیوب کیوں؟ دوسری بات میراث نبویﷺ سے 9 ازاج مطہرات اور چچا حضرت عباس کس دلیل سے خارج ہیں؟)
خلفاء سے یہ معاملہ بھی کم از کم مس ہینڈل ہوا ہے۔ (نبیﷺ پر عمل کرنا شیعہ کے نزدیک مس ہینڈل ہونا ہے۔ اللہ کی پناہ) خلفاء اور اہلبیت آپس میں اس معاملے میں بھی سخت مخالفت رکھتے ہیں۔ (ہرگز نہیں۔ کئی دلائل ہیں۔ کچھ اس مناظرے میں زیربحث آچکے ہیں۔)میں شیعہ مناظر جناب محمد دلشاد کو وکالت جناب سیدہ سلام اللہ علییا پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اہلسنت بھائیوں سے خو کو قبول کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔
نامعلوم ممبر: میں دونوں مناظر صاحبان کو مبارک باد کا مستحق قرار دونگا انہوں نے مستند روایات و علوم سے لاعلم اور بھٹکے ہوۓ لوگوں پہ حقیقت کو واضح کیا جو پرائمری اور مڈل کلاسوں سے بھاگے ہوۓ مولویوں کی چالاکیوں میں آکے اپنی آخرت تباہ کر رہے تھے اور ایسے مولوی تو پیٹ کی خاطر شیعہ سنی فسادات برپا کرواتے ہیں,میں دلشاد صاحب کی بجاۓ ممتاز صاحب کی کاوش کو زیادہ داد دونگا جنہوں نے اپنی مستند کتابوں سے یہ بات تو واضح کردی کہ شیخین سے بی بی س ناراض تھیں تو وہ بی بی س کے دروازے پہ معافی کیلیے آئے ۔
(اس واقعے پر سیدہ کی رنجش کی فکر کرنا ، سیدہ کی عیادت کرنا، دلجوئی کرنا بھی شیخین کے ایمان کی علامت ہے۔جسے آخرت کی فکر ہوگی وہی ایسے عمل کرے گا۔لیکن شیعہ تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ جو ناپسند ہو اس کے اچھے کام بھی ناپسند ہی ہوتے ہیں۔)
ان کو یہ تو پتہ تھا نہ کہ سند رسول ص کے ٹکڑے کرنا,بی بی س کا گھر جلانا بی بی کو زخمی کرنا ان کی آخرت کیلیے کیا ثابت ہوگا (پتہ بھی تھا اور پھر یہ سب کیا بھی!! کیا یہ ممکن ہے؟ یہ سب مشہور تاریخی افسانے ہیں برادر۔ تحقیق کریں)
اب بیچارے ممتاز صاحب اس سے زیادہ اور کیا سچ بولتے,انہوں نے گھر بار بھی تو چلانا ہے اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ کے بارے میں بھی تو سوچنا تھا،انہوں نے یہی سوچ کے اشاروں میں ہی بی بی س کے دروازے پہ معافی کیلیے شیخین کا آنا بتایا ہے کہ عقل مند کیلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔(اہل سنت اشاروں میں نہیں کہتے۔ اوپر گفتگو دوبارہ پڑھیں۔ جو مؤقف بیان کیا ہے دوٹوک بیان کیا ہے۔ یہ لگی لپٹی مجھے نہیں آتی۔ میں لفظوں کا غلام نہیں ہوں۔ لفظ میرے غلام ہیں۔ اپنا مؤقف الفاظ بدل بدل کر بھی بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ الحمدلللہ)
عقل والوں کی ہی اہلیبیت ع کو ضرورت ہے حق انہوں نے واضح کردیا ہے،اب سمجھنا عقل والوں نے ہے ہمیں پوری امید ہے وہ دن دور نہیں ممتاز صاحب بھی جلد حق کی حمایت میں کھل کےآجائیں گے۔
(شیعیت پر میرے بیشمار اشکالات ہیں۔ جس مسلک کی بنیاد ہی نہ ہو اس کی حمایت کم عقل، اندھا، بہرا کر سکتا ہے۔ منصف مزاج ذہن کبھی بھی شیعیت کی تائید نہیں کرے گا۔صرف نام سے اہل بیت کی محبت کا دعویٰ کافی نہیں ہے۔ سیرت اہل بیت پر عمل کرنا لازمی ہے۔)
علی: سلام علیکم یا علی مدد د میں بہت بہت مبارک پیش کرتا ہوں قبلہ محمد دلشاد کو جنہوں نے دختر رسول بیبی خاتوں جنت ۔سیدہ النسا العالمین کے دفاع میں بہت ہی مضبوط دلیل دیے ۔
اہل سنت مناظر کو اس نکتے پر بات کرنے کو آمادہ کیا گیا تھا کے ۔بی بی سلام اللہ علیہا ناراضگی کی حالت میں شیخین سے اس دنیا سے رحلت فرما گئیں ۔تو ممتاز کو چاہیے تھا کہ اس کے رد میں کوئی دلیل دیتا بجائے اس کے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا اور کہا کی میراث کا حق نہیں تھا سیدہ کا اور زہری کی بات کو گمان کا نام دے کر اہل سنت کے مذہب کو ذلیل کروایا اگر آپ کی زہری کی یہ بات جو بی بی سلام اللہ علیہا کے حق میں ہے یہ گمان ہے تو وہ جو حضرت عائشہ سے روایت نقل ہوئی اس پر آپ جواب کیوں نہیں دے رہے تھے ۔(یہ مشورہ اپنے مناظر کے دینا تھا کہ نمبر ڈال کر سوال پوچھے گئے تو جواب ترتیب سے دینے میں کتنی دیر لگتی ہے، دع دیتے۔ لمبی تحریریں لکھنے کا وقت تھا، اصل نکات لکھنے کا وقت نہیں تھا۔) ممتاز ابن تیمیہ اور آصف اشرف دجالالی جیسی حرکت کر گیا لیکن یہ منہ پر نہیں لایا ورنہ اس کا مقصد وہی تھا کے بیبی معاذ اللہ خطاء پر تھی ۔ (حضرت موسی و حضرت ھارون دونوں نبی تھے۔ بنص قرآن دونوں میں سخت اختلاف، جھگڑا بلکہ ہاتھا پائی بھی ہوگئی! آپ کے خیال میں دونوں میں سے کون حق پر تھا؟ سوچئے گا ضرور!شیعہ منطق کے مطابق ہر معاملہ ، ہر اختلاف، ہر لڑائی حق و باطل کے بیچ ہوتی ہے تو اس اعتراض کا جواب قیامت تک آپ نہیں دے سکتے!اگر اہل سنت منطق قبول کریں گے تو جواب دینے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگتا۔ یہی حق ہے محترم!)اور یہ کہتا رہا کہ ممتاز صاحب آپ خود کو بچانے کے چکر میں دختر رسول کو جھٹلا رہے تھے آپ کل رسول کو کیا منہ دکھاؤ گے روز محشر رسول اکرم آپسے سوال کریں گے کہ آپ نے میرے جگر کے ٹکڑے کے ساتھ کیا وفا کی (سیدہ فاطمہ کو کسی نے نہیں جھٹلایا، نبیﷺ کا فیصلہ سنانا جھٹلانا نہیں ہوتا۔شیعہ روز محشر نبیﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ جو قول متفقہ بین الفریقین ہے اس پر عمل نہ کرکے ایسا عقیدہ کیوں بنالیا جس سے خاتون جنت کی شان و عظمت پر حرف آتا ہے!)زهری کا گمان آپ نے بیبی کی وجہ سے لے لیا نہ ورنہ بخاری نے تو نہیں لکھا گمان آپ اپنی طرف سے کیوں گمان کو لا رہے ہیں ؟ آپ گمان کا رٹہ لگا کر باقی آپکے امام و اكابر کو بھی پیچھے چھوڑ گے (مناظرہ دوبارہ پڑھئے گا)وسلام