سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور کثرت نکاح
نقیہ کاظمیسیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور کثرتِ نکاح
کثرت سے نکاح کرو
قال النبیﷺ: تناکحوا تکثروا، فنی اباھی بکم الامم یوم القیٰمۃ۔
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا: بڑھ چڑھ کر نکاح کرو، تم تعداد میں بہت زیادہ ہو جاؤ گے اس لیے کہ میں بروزِ قیامت دوسری امتوں پر تمہاری کثرت کے سبب فخر کروں گا۔
بہتر وہ جس کی بیویاں زیادہ ہوں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ نے صحیح بخاری میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے:
باب کثرۃ النساء
(کثرت سے بیویاں رکھنا)۔ یہ باب قائم کر کے اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں:
عن سعید بن جبیر قال: قال لی ابنِ عباس: ھل تزوجت؟ قلتُ: لا، قال: فتقوج، فان خیر ھٰذہ الامۃ اکثرھا نساء۔
(صحیح بخاری: صفحہ، 5069)
کتاب: کتاب نکاح کے مسائل کا بیان
باب: بیک وقت کئی بیویاں رکھنے کے بارے میں:
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَكَمِ الْأَنْصَارِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ رَقَبَةَ، عَنْ طَلْحَةَ الْيَامِیِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً
کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا شادی کر لو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے (یعنی آنحضرتﷺ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی بہت عورتیں ہوں۔
ترجمہ: سیدنا سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے (میرے استاد) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا تم نکاح کر چکے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: نکاح کرو اس لیے کہ اس امت میں بہتر وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہیں۔
معلوم ہوا سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول متعدد شادیوں کی فضیلت پر نص ہے۔
حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ مذکورہ قول کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حدیث میں سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرما دیا کہ نکاح کا ترک کرنا ایسی چیز نہیں کہ اسے ترجیح دی جائے، اس لیے کہ اگر نکاح کا ترک قابلِ ترجیح شئ ہوتی تو رسول اللہﷺ اسے اختیار کرتے مگر رسول اللہﷺ تو اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ خشیت و معرفت رکھنے کے باوجود کثرت سے نکاح کرتے ہیں۔
اور "شفا" میں لکھا ہے کہ عرب نکاح کی کثرت کو پسند کیا کرتے تھے کیونکہ یہ کام نکاح کرنے والے مرد کی مردانگی پر دلالت کرتا ہے۔
سیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔
حضور اکرمﷺ کی سیرت کے مختلف پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو ایسا بھی ہے جس کی اس آخری زمانے میں اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک سے زائد شادیاں کر کے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا
فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ
(سورۃ النساء: آیت، 3)
جس زمانے میں ہم لوگ جی رہے ہیں اس زمانے میں ایک شادی کا رواج عام ہو گیا ہے اور دوسری شادی کو لوگ بُرا سمجھنے لگے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانین قدرت میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ عورتوں کی شرح پیدائش مردوں سے زیادہ ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کا حکم فرمایا۔ اور بوقتِ مجبوری ایک ہی پر اکتفا کرنے کی اجازت بھی دی۔
آج لڑکیوں کو رشتے نہیں مل رہے عورتوں کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ سے عورت کی قدر و قیمت اور ویلیو کم ہو گئی ہے، نکاح مہنگا اور زنا سستا ہو چکا ہے۔ آپ نکاح کا تصور کریں فوراً ذہن میں دو تین لاکھ کا بجٹ آ جائے گا، مگر زنا کا سوچیں تو چار پانچ سو میں بھی دستیاب ہے ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم حضور اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں سے سبق حاصل کر کے چلیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے آٹھ شادیاں کیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نو شادیاں کیں۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ستر شادیاں کیں۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے چار شادیاں کیں، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ستر یا نوے یا ایک ہزار شادیاں کیں۔