حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی رحمۃ کا فرمان
سوال: یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ چودہ سو سال سے شیعہ اسلامی فرقوں میں شمار ہوتے آئے ہیں۔ اب انہیں کیونکر کافر قرار دیا جا سکتا ہے؟
جواب: اس اہم مسئلہ کی وضاحت حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے اپنی کتاب ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت ل: میں نہایت تفصیل کے ساتھ کی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، تاکہ قارئین کرام شیعیت کی حقیقت اور شیعی ذہنیت سے آگاہ ہو کر ان کے دجل و فریب سے بچ سکیں۔
دو اہم نكات:
(1) بانی ایرانی انقلاب کے تقدس و عظمت کا پروپیگنڈہ اور اس پروپیگنڈے کی طاقت و تاثر، موجودہ ایرانی حکومت اپنے سفارت خانوں اور ایجنٹوں کے ذریعے خمینی کی شخصیت اور اس کے برپا کردہ انقلاب کی اسلامیت کو ثابت کرنے کے لئے اور اسی سلسلہ میں وحدت اسلامی اور شیعہ سنی اتحاد کی دعوت کو عام کرنے کیلئے ملک کی دولت پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے کانفرنسوں پر کانفرنسیں بلائی جا رہی ہیں اور مختلف زبانوں میں کتابوں ، کتابچوں، پمفلٹوں اور رسائل و اخبارات کا ایک سیلاب جاری ہے اور عالم اسلام کے بے لضمیر دانشوروں، صحافیوں اور علماء و مشائخ کو خریدنے کیلئے گویا حکومتی خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ شیعہ مذہب کا مآخذ نہ تو قرآن ہے نہ حدیث، نہ اس مذہب کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق ہے نہ رسولﷺ سے کوئی واسطہ۔
(2) شیعہ مذہب سے عالم اہلِ سنت کی ناواقفی اور اس ناواقفیت کی وجہ سے مذہب شیعہ کی خاص تعلیم کتمان اور تقیہ۔
کتمان کے معنیٰ چھپانے اور ظاہر نہ کرنے کے ہیں، اور تقیہ کا مطلب ہے اپنے قول یا عمل سے اصل حقیقت اور واقعہ کے خلاف ظاہر کرنا اور اس طرح دوسرے کو دھوکے میں مبتلا کرنا ۔
مذہب شیعہ کی اس تعلیم کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک پریس کے ذریعے عربی فارسی کی دینی کتابوں کی طباعت کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا اور ہاتھ ہی سے کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ علمائے اہلِ سنت عام طور سے مذہب شیعہ سے ناواقف رہے کیونکہ وہ کتابیں صرف خاص خاص شیعہ علماء ہی کے پاس ہوتی تھیں اور وہ کسی غیر شیعہ کو ان کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے۔
بعد میں جب دینی مذہبی کتابیں پریس کے ذریعے چھپنے لگیں اور مذہب شیعہ کی یہ کتابیں بھی چھپ گئیں تب بھی ہمارے علمائے کرام نے ان کے مطالعہ کی طرف توجہ نہیں کی ۔ سوائے گنتی کے چند حضرات کے ، اور جب علماء کا یہ حال رہا تو ہمارے عوام کا کیا ذکر اورکسی سے کیا شکایت!
اس عام ناواقفیت کے سبب عوام الناس کا خمینی اور ایرانی انقلاب سے متاثر ہونا ایک فطری بات ہے، کیونکہ وہ شیعیت کے بنیادی خدوخال سے آگاہ نہ تھے۔
اسلام میں شیعیت کا آغاز :
شیعیت ، اسلام کے اندر تخریب کاری اور مسلمانوں میں اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے یہودیت و مجوسیت کی مشترکہ کاوش سے اُس وقت وجود میں آئی تھی جب یہ دونوں قوتیں طاقت کے بلبوتے پر اسلام کی برق رفتاری سے پھیلتی ہوئی دعوت کو روکنے میں ناکام رہی تھی اور اس لئے شیعیت کا تانا بانا پولوس کی تصنیف کردہ مسیحیت کے تانے بانے سے بہت کچھ ملتا ہے جس نے عیسائی بن کر اندر سے عیسائیت کی تحریف اور حضرت عیسیٰؑ کے لائے ہوئے دین حق کی تخریب کی کامیاب کوشش کی تھی، جس کا نتیجہ موجودہ عیسائی مذہب ہے۔
شیعہ مذہب کے عقائد و مسائل ایسے ہیں جن میں سرفہرست قرآن میں تحریف کا عقیدہ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ازواج مطہراتؓ اور بالخصوص خلفائے ثلاثہؓ کے بارے میں سب و شتم ہی نہیں بلکہ ان حضرات کو منافق،کافر، زندیق اور مرتد قرار دینے والی وہ خون کھول دینے والی شیعی روایات ہیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔
انتباہ: کیا مذکورہ بالا عقائد کے کفر ہونے میں کسی کو شک و شبہ کی گنجائش ہے؟ اب بھی جو علما شیعوں کی تکفیر میں توقف کریں وہ عند اللہ مجرم ہوں گے یا نہیں؟