حضرت مولانا مفتی محمد عبد السلام چاٹگامی رحمۃ اللہ کا فرمان
بلا شبہ اپنے کو مسلمان کہنے والے کسی کلمہ گو شخص یا فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا فیصلہ بڑا سنگین اور خطرناک کام ہے اور اس بارے میں آخری حد تک احتیاط کرنا علماء کرام کا فرض ہے لیکن ۔۔۔۔ اسی طرح جس شخص یا فرقہ کے ایسے عقائد یقین کے ساتھ سامنے آجائیں جو موجبِ کفر ہوں تو عام مسلمانوں کے دین کی حفاظت کیلئے اس کے بارے میں کفر و ارتداد کا فیصلہ اور اعلان کرنا بھی علمائے دین کا فرض ہے۔
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد کے نازک ترین وقت میں منکرین زکوٰۃ اور مسیلمہ وغیرہ مدعیانِ نبوت اور ان کے متبعین کے بارے میں سیدنا صدیق اکبرؓ نےجو فیصلہ فرمایا اور جو طر ز عمل اختیار کیا وہ آپ کے لئے تا قیامت رہنما ہے۔ قادیانی، نہ صرف یہ کہ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ گو ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے خاص مقاصد کیلئے اپنے نقطہ نظر کے مطابق ایک صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنے طریقہ پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کا جو خاص کر یورپ اور افریقی ممالک میں کام کیا، اس سے باخبر حضرات واقف ہیں اور خود ہندوستان میں قریباً نصف صدی تک اپنے کو مسلمان اور اسلام کا وکیل ثابت کرنے کیلئے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کا انہوں نے جس طرح مقابلہ کیا تحریری و تقریری مناظرے مباحثے کئے وہ بہت پرانی بات نہیں ہے پھر ان کا کلمہ ان کی نماز اور اذان وہی ہے جو عام امت مسلمہ کی ہے، زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ان کے فقہی مسائل قریب قریب وہی ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں۔ لیکن جب یہ بات یقین کے ساتھ سامنے آگئی کہ وہ فی الحقیقت عقیدہ ختمِ نبوت کے منکر ہیں، اور مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو ہی مانتے ہیں اگرچہ زبان سے رسول اللہﷺ کو خاتم النبین کہتے ہیں۔ اور اسی طرح اُن کے دوسرے موجبِ کفر عقیدے غیر مشکوک طور پر سامنے آئے تو علمائے کرام نے ان کے بارہ میں کفر و ارتداد کا فیصلہ اور اس کا اعلان کرنا اپنا فرض سمجھا اور ان کا اعلان اپنا فرض سمجھا اور اگر وہ یہ فرق ادا نہ کرتے تو خدا تعالیٰ کے مجرم ہوتے۔ لیکن شیعہ اثناء عشریہ کا حال یہ ہے کہ مذکورہ بالا موجبِ کفر عقائد کے علاوہ ان کا کلمہ الگ ھے، ان کا وضو الگ ہے، ان کا اذان اور نماز الگ ہے، زکوٰۃ کے مسائل بھی الگ ہے حتیٰ کہ موت کے بعد کفن، اور وراثت کے مسائل بھی الگ ہیں۔ اگر آپ کو تفصیل سے لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔
بہر حال اپنے اس دور کے حضرات علماء کرام کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اپنی علمی و دینی ذمہ داری اور عند الله مسئولیت کو پیش نظر رکھ کر شیعہ اثناء عشریہ کے کفر و اسلام کے بارے میں فیصلہ فرمائیں۔
(جواہر الفتاوىٰ: جلد، 1 صفحہ، 299)