شیعہ کے کفریہ عقائد کی وجہ سے ان سے اتحاد نہیں ہو سکتا
جس مذہب کے یہ بنیادی و اصولی عقائد ہیں اور وہ بھی اسلام کے نام پر کہ۔
- قرآن مجید مخرف ہو چکا ہے۔
- امامت نبوت سے افضل ہے۔
- حضرت علیؓ سے لے کر سیدنا مہدی تک بارہ امام انبیاء سابقین علیہم السلام سے افضل ہیں۔
- توحید و رسالت کی طرح امامت پر ایمان لانا ضروری ہو۔
- خلفائے ثلاثہ سیدنا صدیق اکبرؓ، سیدنا فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کو بر حق ماننے والے بھی غیر مومن منافق اور جہنمی ہیں۔
- حضور اکرمﷺ کی بیویاں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت حفصہؓ بھی غیر مومن اور منافق ہیں۔ (حالانکہ ازواجِ مطہراتؓ کو قرآن کریم نے تمام مومنوں کی مائیں فرمایا گیا ہے)
- خلفائے ثلاثہؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ازواجِ مطہراتؓ کو سب کرنا (یعنی برا کہنا) عبادت ہے۔
- تقیہ یعنی امرِ حق کے خلاف ظاہر کرنا عبادت ہے-
- متعہ یعنی بلا گواہوں کے وقتی طور پر کسی غیر محرم مرد و عورت کا باہمی معاہدہ برائے مجامعت اتنا بڑا عملِ صالح ہے کہ (العیاذ باللہ) اس کی وجہ سے متعہ کرنے والے کو جنت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضور اکرمﷺ کا درجہ نصیب ہو گا۔ (العیاذ باللہ)
- لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ ایک نیا کلمہ تجویز کر کے گویا دین اسلام کو چیلنج کر دیا ہے۔
- سوادِ اعظم کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر اپنے مخصوص عقائد و نظریات کی اشاعت کی حکومت سے سرکاری اسکولوں میں شیعہ نصاب منظور کرا لیا ہے، اور ان کی تعلّی اور تحدّی یہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی آپ نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر شیعہ طلباء کو جبراً و قہراً حنفی فقہ اور تفسیر پڑھائی اور تاریخ پڑھائی مگر 25 سال کے اس طویل عرصہ میں مثال کے لیے بھی کسی ایک شیعہ طالب علم کو مذہب حقہ سے برگشتہ نہ کر سکے، اب اس طویل عرصہ کا چوتھائی حصہ ہمیں دیں اور اس عرصہ میں تجربةً شیعہ، فقہ اور تفسیر، حدیث اور تاریخ کو اسکولوں اور کالجوں میں رائج کریں، پھر اس کے نتائج کو دیکھ کر اندازہ کر لیں کہ حق کس کے ساتھ ہے۔
- تقریر و تحریر کے ذریعے شیعہ علماء و ذاکرین اہلِ سنت و الجماعت کے نام کو بھی چیلنج کرتے رہتے ہیں۔
لہٰذا ان حالات میں مذہبِ اہلِ سنت والجماعت اور ناموسِ خلفاء عظام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ مرزائیوں کی طرح روافض و خوارج وغیرہ بد مذہب گروہوں اور پارٹیوں سے بھی اجتناب و احتراز کیا جائے جو انکارِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا تنقیدِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کے ارشاد ما انا علیہ و اصحابی کی شاہراہِ جنت کو چھوڑ کر جہنم کے راستوں پر امتِ محمدیہﷺ کو چلانا چاہتے ہیں۔
جماعتِ مقدس (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا حق تو ہم پر یہ تھا کہ مال و جان کی قربانی دے کر بھی ان کے ناموس کی حفاظت کی جاتی نہ یہ کہ عربی مدارس کے طلبہ کے لیے چند دنیوی سفری مراعات حاصل کرنے کے لیے تحفظِ عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نظر انداز کیا جائے۔
(اتحادی فتنہ: صفحہ، 42)