Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عترت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عقیدہ نظریۂ امامت تاریخ کی نظر میں

  سید تنظیم حسین

عقیدہ امامت کے بنیادی نکات:

1: نبی کے بعد ان کے جانشین و خلیفہ امام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء و مرسلین کی طرح جن کا انتخاب امت یا قوم نہیں کرتی مقرر اور نامزد ہوتے ہیں۔

2: وہ نبی ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔

3۔ دنیا کبھی امام سے خالی نہیں ہوتی خواہ وہ ظاہر ہو یا غائب۔

4: انبیاء و مرسلین ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے۔

5: ان کا درجہ رسول اللہﷺ کے برابر اور دوسرے سب نبیوں سے بالاتر ہوتا ہے۔

6: وہی امت کے دینی و دنیوی سربراہ اور حاکم ہوتے ہیں۔

7: امت پر بلکہ ساری دنیا پر حکومت کرنا ان کا اور صرف ان کا حق ہے۔

8: ان کے علاوہ جو بھی حکومت کرے وہ غاصب و ظالم اور طاغوت ہے۔

9: امامت بغیر نص کے قائم نہیں ہوتی۔

10: امام وقت کا جاننا واجب ہے۔

11: امام وقت حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر سکتا ہے۔

12: نبی کریمﷺ نے اپنے بعد مامور ہونے والے بارہ ائمہ کے نام بھی بتلا دیے تھے۔ (اثناء عشری عقیدہ)

امامیہ یا اہل تشیع کی ابتدائی کیفیت:

زمانہ حال کا مغربی مصنف VATIKIOTIS لکھتا ہے:

کربلا میں حضرت حسینؓ کی شہادت کے فوراً بعد شیعوں میں خلافت کے حصول کے لیے بہت سے گروہ پیدا ہو گئے (فاطمیوں کا تصور ریاست: ازوتی کیوٹس: صفحہ، 5)

گزشتہ صدی کامعروف محقق ایم سلوسٹر ڈی ساسی لکھتا ہے:

شیعانِ علی بہت جلد گروہوں میں بٹ گئے اگرچہ یہ سب محبانِ اہلِ بیتؓ تھے لیکن ان میں نہ تو اس عالی نسب کے حقوق امارت پر اتفاق تھا اور نہ اس پر متفق تھے کہ حق امارت کون سی شاخ کو منتقل ہوا ہے۔ (فدائیوں کی تاریخ فان ہمیر: صفحہ، 291)

برصغیر کے مشہور مؤرخ سید امیر علی لکھتے ہیں:

 توقع تو یہ تھی کہ ظلم ستم شیعانِ علی کو متحد رکھ سکے گا لیکن اگرچہ سب اس بات پر متفق تھے کہ خلافت امارت اہلِ بیتؓ کا حق ہے ان میں اکثر نے کسی منصوبہ یا جانب داری کے تحت مسلمہ ائمہ کے علاوہ دیگر افراد سے وابستگی اختیار کر لی

(The Spirit of Islam: صفحہ، 320)

(ڈی ساسی کا شاخ سے مقصد حسنی و حسینی سادات سے ہے جن میں ابتداء ہی میں امامت سے متعلق اختلاف رونما ہو چکا تھا جب کہ امیر علی کے دیگر افراد میں جملہ بنی ہاشم آ جاتے ہیں اور ان کے مسلمہ ائمہ وہی ہیں جن کو آج کل ائمہ اہلِ بیتؓ کہا جاتا ہے۔

امامیہ میں اتحاد کا فقدان:

ہمیں ان تینوں بیانات میں ایک بات متفق علیہ ملتی ہے وہ یہ کہ سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد شیعانِ علی متحد نہ رہ سکے تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ صرف شیعانِ علی ہی نہیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی جملہ اولاد بھی امامت کے مسئلہ پر متحد نہ تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی ہاشم کا ہر فرد امامت کا امیدوار تھا ہم ان میں سے چند اہم ترین حضرات کے اختلافات کا ذکر کریں گے:

امامیہ میں پہلا اہم اختلاف:

1: حضرت محمد بن الحفیہ رحمۃ اللہ

اگرچہ حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے حضرت علی السجاد زین العابدینؒ کو امام تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن کیسانیہ نے حضرت محمد بن الحفیہؒ کو امامت کے لیے آگے بڑھایا۔

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ کسانیہ)

کہا جاتا ہے کہ وہ اس کے لیے تیار نہ تھے مگر ان کے انتقال 81ھ، 700ء کے بعد ان کے بیٹے امامت پر قائم رہے ان کا نام ابوہاشم عبداللہ تھا ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عالم، فاضل، فصیح و بلیغ تھے 

(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، اول صفحہ، 47)

اور اپنے والد بزرگوار حضرت محمد بن الحفیہؒ کے باطنی علوم کے وارث تھےاس سلسلہ میں یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ حضرت محمد بن الحفیہؒ کے متعلق ایک گروہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ ان کو اپنے والد حضرت علیؓ سے براہِ راست امامت ملی تھی کیونکہ سیدنا علیؓ نے جنگِ جمل میں ان کو علم دیا تھا جب کہ ایک گروہ کہتا ہے کہ انہوں نے حضرات حسنینؓ سے جملہ علومِ باطنی حاصل کیے تھے۔

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ کسانیہ)

ان کے متعلق کیسانیہ کے شاعر التکثیر (تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 274) متوفی 105ھ، 723ء نے بہت دلچسپ اعتقادات کا اظہار کیا ہے: اردو ترجمہ:

حق کے ولی چار ہیں برابر رتبہ میں

علیؓ اور تین ان کی اولاد میں سے

مندرجہ بالا سطور سے ہمارا مقصد یہ بتلانا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں ائمہ کی تعداد کے متعلق یہ خیال تھا کہ ائمہ صرف چار ہیں یعنی حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور محمد بن الحفیہؒ۔

امامیہ میں دوسرا اختلاف:

2: سیدنا زید شہید بن علی السجاد زین العابدینؒ

حضرت زید نے اپنے بھائی سیدنا محمد الباقرؒ کو اہلِ بیتؓ کے پانچویں امام تسلیم کرنے کی بجائے خود امامت کا دعویٰ کیا ان کے اتباع میں زیدیہ وجود میں آئے یعنی وہ زیدیہ امامت کے سلسلہ کے پانچویں امام ہیں سیدنا زید شہید نے اپنا نظریہ امامت پیش کیا ہے

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ زیدیہ) 

انہوں نے فقہ پر بھی ایک کتاب المجموع لکھی ان کے نظریہ امامت کے اہم نکات یہ ہیں:

1: امام کا بنی فاطمہ میں سے ہونا ضروری ہے۔

2: امام نہ مامور من اللہ ہوتا ہے اور نہ معصوم۔

3: فاضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت جائز ہے۔

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ زیدیہ)

4: امام ایسا شخص ہونا چاہیئے جو بزور اپنا حق لے سکے۔

5: امام کا انتخاب بنی فاطمہ میں سے شوریٰ کے ذمہ ہے فرقہ جارودیہ گویا زیدیہ کے یہاں اماموں کی تعداد کے تعین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا صرف ان کے نظریہ امامت کو ہی قابلِ عمل تسلیم کیا گیا ہے۔

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ زیدیہ)

واضح رہے کہ سیدنا زید شہید نے اموی دورِ خلافت میں خروج کیا اور شہید ہوئے ہم یہاں تفصیلات کو غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔

امامیہ میں تیسرا اہم اختلاف:

3: سیدنا اسماعیل بن جعفر الصادقؒ:

سیدنا جعفر صادقؒ جن کا نمبر ائمہ مسلمہ اہلِ بیتؓ میں چھٹا ہے کے جانشین سے متعلق ان کی زندگی میں اختلاف ہوا اور سیدنا جعفر صادقؒ کی کی ہوئی نص کے برخلاف ان کی زندگی ہی میں سیدنا اسماعیل کے بیٹے سیدنا محمد بن اسماعیل کو امام تسلیم کر لیا گیا جس سے فرقہ اسماعیلیہ وجود میں آیا اسماعیلیہ کے یہاں بھی ائمہ کی تعداد بعض کے نزدیک پچاس ہے جب کہ بعض کے نزدیک سو ہے اسماعیلیہ کا نظریہ امامت اس رسالہ میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔

بنی ہاشم کی نظریہ امامت سے بے خبری:

4: سیدنا محمد نفس الزکیہ:

بنو امیہ کی خلافت کے آخری دور میں علوی اور عباسی ایک جگہ اکٹھے ہوئے اس مجلس کا ذکر ڈاکٹر زاہد علی نے الفخری کے حوالہ سے اس طرح کیا ہے:

بنو امیہ کے آخری زمانہ میں علویوں اور عباسیوں کی ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں علویوں کی طرف سے سیدنا جعفر صادقؒ اور عبداللہ المحض بن حسن بن حسن بن علیؓ اور عبداللہ المحض کے دونوں فرزند محمد نفس زکیہ اور ابراہیم قتیل یا خمر اور عباسیوں کی جانب سے سفاح عباسی خلیفہ اول اور اس کا بھائی منصور وغیرہ شریک ہوئے ان لوگوں نے بنو امیہ کے زمانے میں جو مظالم ان پر گزرے ان کا تذکرہ کیا اور یہ تجویز کی کہ اب ہمیں اپنا حق حاصل کرنا چاہیئے انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اب بنی امیہ کمزور ہو گئے ہیں اور لوگ ان کی طرف زیادہ مائل نہیں اس لیے انہوں نے یہ رائے پیش کی کہ ایک خفیہ دعوت قائم کی جائے اور اس کے صدر نفس زکیہ قرار دیے جائیں کیونکہ وہ علم و فضل اور شرف کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں۔

 (تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ اول، صفحہ، 57)

امیر علی نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے

(A Short History of Saracens :تاریخِ عرب 

 صفحہ، 220)

اور لکھا ہے کہ اس میں سیدنا جعفر صادقؒ شریک نہ تھے لیکن اس میں بنو ہاشم کے اکثریت موجود تھی اور محمد النفس الزکیہ کو اپنے والد بزرگوار کی موجودگی میں اتقا اور پرہیزگاری کی وجہ سے متفقہ طور پر خلیفہ تسلیم کیا گیا حتیٰ کہ ابو جعفر منصور نے جو بعد میں خلیفہ ہوا بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی واضح رہے کہ اس روایت میں خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے امام کا نہیں اور حضرت محمد نفس الزکیہ۔ 

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ Alids علوی)

اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم علیہ السلام قتیل باخمریٰ تعلق حسنی سادات سے ہے ان دونوں نے 145ھ میں عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کے عہد میں خروج کیا اور شہید ہوئے)

بنی فاطمہ کے عاشقان پاک طینت:

5: بنو فاطمہ میں ایسے افراد کی تعداد اٹھارہ ہے۔

(Shorter Encyclopaedia of Islam مقالہ Alaids علوی)

جنہوں نے اموی عباسی دورِ خلافت میں خروج کیا اور شہید ہوئے مختصراً ان ائمہ کی جنہیں مسلمہ (recoquized) کہا جاتا ہے ان کے سگے بھائیوں اور بیٹوں تک نے بھی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جو امامیہ اثناء عشر) یا اسماعیلیہ کے نظریہ امامت کی رو سے ان کو حاصل تھی انہوں نے رسول اللہﷺ کی ان احادیث کو جو امامیہ اثناء عشریہ یا اسماعیلیہ اپنے نظریہ کی تائید میں پیش کرتے ہیں کیوں در خور اعتناء نہ سمجھا؟ یہ ایک اہم سوال ہے یہ سب حضرات متقی اور پرہیزگار تھے لہٰذا بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں پہلا تو یہی کہ کیا ان حضرات کو اس حدیث کا علم نہ تھا جس میں کہا جاتا ہے کہ رسول پاکﷺ نے بارہ ائمہ کے نام تک بتلا دیئے ہیں؟ دوسرا یہ کہ اسماعیلیہ جو ابتدائی چھ اماموں پر متفق ہیں ان بارہ ائمہ کے نام جاننے کے باوجود ساتویں امام پر کیوں علیحدہ ہو گئے؟ کیا ان کی علیحدگی امام سے انحراف نہیں؟ تیسرا یہ کہ کیا اس اجتماع کے شرکاء کو جو بنی امیہ کے آخری دورِ خلافت میں ہوا اس حدیث کا علم نہ تھا جس میں کہا جاتا ہے کہ رسول پاکﷺ نے بارہ ائمہ کے نام تک بتلائے تھے؟ کیا اس اجتماع میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس طرف توجہ دلاتا؟ جب کہ اس میں حضرت محمد نفس زکیہؒ خود موجود تھے جن کی پرہیزگاری کا اعتراف امیر علی کے بقول سب کو تھا اور اسی وجہ سے ان کا لقب نفس الذکیہ ہو گیا تھا ان سے پہلے سیدنا زید شہیدؒ کے علم و فضل کا اعتراف بھی سب کو تھا یہی صورت سیدنا محمد بن الحنفیہؒ کی بھی تھی۔

یہ گو مگو کی صورتِ حال صرف ایک ہی سمت کی طرف لے جاتی ہے اور اس سے پہلے کہ ہم اس کی وضاحت کریں وٹی کیوٹس کا بیان قابلِ توجہ ہے۔ 1: فاطمیوں کا تصور ریاست از VAIKIOTIS صفحہ، 1،2 The Fatimid Theory of State)

1: ابتداء میں شیعہ کا لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیوی قیادت کے لئے جدوجہد میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے سیاسی وفاداری کے لئے استعمال ہوا۔

2: شیعیت دراصل سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی پارٹی کا نام ہے نہ کہ کوئی ایسا مجموعہ جو حضرت علیؓ نے بہ حیثیت ایک دینی معلم کے وضع کیا ہو۔

3: تشیع سے مراد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ان کے حصول مقصد میں بلا واسطہ یا بالواسطہ تعاون کا نام ہے۔

القلقشیری کی شیعہ کی تعریف بیان کرنے کے بعد وٹی کیوٹس اس طرح لکھتا ہے:

4: ابتداء میں تشیع ایک سیاسی جدوجہد تھی۔

5: شیعہ بہ حیثیت ایک بڑے فرقہ کے پہلے نمودار ہو گئے۔

6: ان کے عقائد کے لئے موضوعات اور الہیات سے جو از بعد میں دریافت کیا گیا۔

وٹی کیوٹس کی تحقیق کی تصدیق جو ہن نارمن ہولسٹر (1 .THE (SHIA) OF INDIA: P٫80)

 کے قلم سے سنیئے:

NO BETTER EVIDENCE IS NEEDED TO SHOW THE LATE ORIGIN OF TRADITIONS WHICH REPRESENT THE PROPHET OR ALI AS RECIT-ING THE NAMES OF TWELVE IMAMS WITH DE TAILS OF THEIR LIVES THAN IS AFFORDED BY THIS RECURRING PROCESS OF SUBDIVID-ING, BECAUSE OF UNCERTAINITY, AS TO HOW TO PROCEED OR WHOM TO FOLLOW.

ترجمہ: ان روایات کے جن میں نبی کریمﷺ یا سیدنا علیؓ سے بارہ اماموں کے نام معہ تفصیلات زندگی نقل کئے گئے ہیں بعد میں وضع شدہ ہونے کے لئے اس غیر یقینی کیفیت سے بہتر کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہتی جو امامیہ میں مسلسل تفریق در تفریق پر منتج ہوئی کیوں کہ اس کیفیت میں نہ تو راہِ عمل کا تعین ہو سکا اور نہ یہ کہ کسی کی پیروی کی جائے۔

اب ہم حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب شیعہ (SHIA) سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں: جس کی حیثیت رقیب کے سرٹیفکیٹ کی سی ہے۔

Paradoxically enough the majority of the

descendents of the prophet belonged to sunnism and continue to do so until to day.

ترجمہ: توقع و امکانات کے بر خلاف اہلِ بیت رسولﷺ کی اکثریت کا تعلق اہلِ سنت و الجماعت سے رہا اور یہی صورت اب تک چلی آتی ہے۔

1: مقدمہ کتاب SHIA صفحہ، 12 یہ کتاب فارسی میں علامہ سید محمد حسین طباطبائی نے لکھی اور ترجمہ بزبانِ انگریزی سید حسین نصر نے کیا ہے اور مقدمہ بھی انہوں نے لکھا ہے۔

اس اقتباس سے بخوبی ظاہر ہے کہ بنو فاطمہ شیعی اصطلاح میں عترتِ رسول یا اہلِ بیتؓ کی اکثریت نظریہ امامت سے خواہ اثناء عشری ہو خواہ اسماعیلی متفق نہ تھی اور ائمہ اہلِ بیتؓ اثناء عشری یا اسماعیلی کو امام تسلیم کرنے والوں میں بنی فاطمہ تو در کنار بنی ہاشم کے بھی چند ہی افراد ہوں گے۔

خلاصہ: تاریخی اعتبار سے:

1: نظریہ امامت کی ابتداء سیاسی تھی۔

2: بنی فاطمہ اہل بیتؓ یا عترتِ رسول کی اکثریت اس نظریہ سے واقف ہی نہ تھی کیوں کہ

3: نظریہ امامت کے لئے شرعی جواز بعد میں دریافت کیا گیا یا پیدا کیا گیا۔

ایسی صورت میں جب کہ عترتِ رسول کی اکثریت نظریہ امامت کی قائل نہ تھی تو جمہور امت کا اس نظریہ سے ابتداء سے لے کر اب تک اختلاف کسی وضاحت کا محتاج نہیں رہتا۔