اسماعیلی عقائد و فاطمی دعوت
سید تنظیم حسینحرف آخر:
اسماعیلی عقائد و فاطمی دعوت:
اسماعیلی عقائد اور فاطمی دعوت سے متعلق باب چہارم میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے اسماعیلیہ سے متعلق تمام مصنفین خواہ موافق ہوں مخالف اس امر پر متفق ہیں کہ اسماعیلی عقائد پر مختلف فلسفوں کا غلبہ ہے یہ اقرار ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسماعیلی عقائد کا تعلق قرآن و سنت سے برائے نام ہے لہٰذا اسماعیلیہ سے متعلق دیگر امور پر گفتگو محض علمی رہ جاتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسماعیلیہ سے متعلق بعض امور وقفہ وقفہ سے سامنے آتے رہتے ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ امور سے متعلق ہم بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
اخفا و رازداری کی اصل وجہ:
تقیہ اور اخفاء میں تھوڑا سا ہی فرق ہے کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ یا عقیدہ بھی ایران سے آیا کیونکہ حران کے صابی اپنا دین چھپاتے تھے لیکن تقیہ پر عمل تو ابتداء سے ہی بتلایا جاتا ہے اسماعیلیہ نے تو صرف اتنا کیا کہ اس کو اپنی بلندی پر پہنچا دیا ہمارے خیال میں اخفاء و رازداری کی اصل وجہ اسماعیلیہ کے عقائد اور فاطمی دعوت کی نوعیت تھی دراصل یہ وہ زمانہ تھا جب قرآن و سنت کی تعلیمات عام ہو چکی تھیں اور متوسطہ طبقہ میں اتنا شعور پیدا ہو گیا تھا کہ وہ یہ تمیز کر سکتے تھے کے کس عقیدے کا واقعی تعلق قرآن و سنت سے ہے اور کتنا ہے اسماعیلیہ کے عقائد و دعوت کو مرتب کرنے والوں کے متعلق سب متفق ہیں کہ وہ فہم و فراست کی اولین سطح پر تھے لہٰذا وہ اپنی مرتبہ دعوت کے متعلق ضرور جانتے ہوں گے کہ اس کی نوعیت کیا ہے یعنی یہ اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کو مجمع عام میں پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے نہ صرف پہلے سے زمین ہموار کرنا ہوگی بلکہ یہ کہ صرف خواص ہی اس کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اگر عوام کے سامنے پیش کیا گیا تو شدید گڑبڑ ہوگی۔
ابتداء میں اخفاء کی وجہ حکومت سے خطرہ بتلائی جاتی ہے اور فاطمی خلافت کے قیام کے بعد عباسی خلافت اور اندلس میں اموی حکومت سے خطرات کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں تک ہم سمجھتے ہیں یہ خطرات حق و صداقت کی آواز کو نہیں روک سکتے تھے ہم دیکھتے ہیں کہ اموی اور عباسی دورِ خلافت میں ایسے کم نہ تھے جو ہر وقت اپنے موقف کے لیے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانے کو تیار تھے ایسے بھی تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے ستون دار پر سروں کے چراغ رکھنے میں ذرا بھی تکلف نہ کیا ایسے بھی تھے جنہوں نے تیغ قاتل کی روانی میں لفظ سکون محسوس کیا۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو حضرت زید شہید اور محمد نفس الزکیہ کے اسماءِ گرامی یاد ہیں اور یاد رہیں گے یہ بھی تو فاطمی تھے۔
(Short encyclopaedia of Islam میں اٹھارہ افراد کے نام گنائے ہیں جنہوں نے اموی اور عباسی دور خلافت میں خروج کیا ان میں سے گیارہ حسنی ہیںاور سات حسینی مقالہ Alids یعنی علوی)
تو لہٰذا ہمارا خیال ہے کہ اسماعیلیہ کے عقائد اور دعوت مرتب کرنے والوں میں اعتماد کا فقدان تھا اور وہ یہ جانتے تھے کہ ان کو قبول عام کی سند نہیں مل سکتی یہی ہوا بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ابو عبداللہ شیعی کہ عسکری کامیابی کے بعد جس نے اسماعیلیت قبول نہ کی اس کو قتل کرا دیا گیا لیکن اس کے فوراً بعد عبید اللہ المہدی کو احساس ہوا اور مذہبی آزادی کا اعلان کرادیا گیا مختصراً فاطمی دورِ خلافت میں کبھی بھی کھل کر اسماعیلی عقائد پیش نہیں کیے گئے اور جب کبھی ایسا کیا گیا تو شدید گڑبڑ ہو گئی جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے ظاہر ہے:
اگر ان کو اپنی رعایا کا خوف نہ ہوتا تو خلفاء اپنے عقیدوں کی حقیقت کو جن کی پیروی مصر کے خاص محلوں میں شریک ہونے والے کرتے تھے علانیہ عوام کے سامنے ظاہر کرتے اکثر ایسا ہوا کہ بعض اماموں کی رائے کی مخالفت میں پبلک نے ایسے احتجاج کیے جو دم کی حد تک پہنچ گئے۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 134)
513ھ، 1119ء میں ایک فرقہ نکلا جو بدیعیہ کہا جاتا ہے جنہوں نے اصلی اسماعیلی عقیدے ظاہر کیے ان کے نام حمید اور برکات تھے مامون نے حمید اور اس کے ماننے والوں کو قتل کر دیا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 16)
ہمارے اس خیال کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسماعیلیہ کے یہاں ایک عقیدہ یہ ہے کہ امام کی معرفت کے بعد ظاہری اعمالِ شریعت کی ضرورت نہیں رہتی لیکن عامتہ المسلمین جن میں اکثریت اہلِ سنت و الجماعت کی تھی اس صورتحال کو کب گوارا کر سکتے تھے ان کے سامنے سلف صالحین کی زندگیاں تھیں لہٰذا جب کبھی ایسا ہوا کہ اپنے عقیدے کے مطابق اسماعیلیوں نے ظاہری اعمالِ شریعت میں تعطل اختیار کیا تو شدید گڑبڑ ہوئی بلکہ یوں کہئے کہ فاطمی ائمہ اور داعیوں نے اگر ظاہر اعمالِ شریعت کی پابندی کی تو وہ عوام اہلِ سنت کے دباؤ سے کی اپنے عقائد کی بنیاد پر نہیں کی فاطمی خلافت کی پوری تاریخ کی گواہ ہے۔
اس تجزیہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسماعیلی عقائد اور فاطمی دعوت کا بھی عوام تک پہنچے ہی نہیں پہنچائے ہی نہیں گئی اور فاطمی خلافت کا مذہبی دور ابتداء ہی سے سیاسی دور میں بدل گیا لہٰذا ابتداء سے لے کر انتہاء تک اسماعیلی مذہب کبھی عام نہیں ہوا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 122)
اس صورتحال میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دولتِ فاطمیہ کے مسلمان عوام نے اسماعیلی دعوت کو مسترد کر دیا اور فاطمی خلافت "خلافت" نہ تھی بلکہ حکومت تھی جو دیگر حکومتوں کی طرح ظلم و ستم دادو دہش اور عسکری قوت کی بناء پر قائم رہی ہے Vatikiotis نے بھی کچھ ایسا ہی خیال ظاہر کیا ہے۔
فاطمی اسماعیلیت چونکہ خوشگوار و پرسکون مستقبل کا وعدہ پورا نہ کر سکے لہٰذا وہ ایک اسلامی تحریک کی حیثیت سے ناکام ہو گئی۔
(The Fatimid Theory of State: 172 ،صفحہ)
تقیہ اور اخفاء کی کار فرمائیاں: ہم نے اسماعیلیوں سے متعلق بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ان میں سے وہ بھی ہیں جو ہمارے ملک میں لکھی گئی ہیں اور وہ بھی جو مغربی مستشرقین نے لکھی ہیں ہم نے حتیٰ المقدور کوشش کی ہے کہ ان کتابوں کو خالی الذہن ہو کر پڑھیں لیکن ایک چیز جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسماعیلیہ کے یہاں سب سے اہم امور قطعی غیر یقینی کیفیت میں ہیں اور ان پر ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی بحث جاری ہے جن میں چند یہ ہیں:
1: سیدنا جعفر الصادقؒ نے کن حالات میں اپنی نص بدلی؟
2: سیدنا اسماعیل بن جعفر الصادقؒ کی 133ھ میں موت واقع ہوئی یا نہیں؟
3: اخوان الصفاء کہ رسائل کا مرتب کون تھا؟
4: عبید اللہ المہدی (عبداللہ) کا نسب کیا تھا؟
5: امام حاکم کا انتقال ہوا یا قتل کیا گیا یا غائب ہوا یا آسمان پر اٹھا لیا گیا؟
6: امام طیب کا انتقال ہوا یا غائب ہوئے؟
مندرجہ بالا امور سے متعلق روایات کا اختلاف ہم نے بابِ ہفتم میں بتلایا ہے (اس نوعیت کا اختلاف صرف امامیہ اثناء عشری کے یہاں ملتا ہے اور کہیں نہیں دیکھیئے مقالہ اثنا عشری Shorter Encyclopedia of Islam ) یہ دراصل بیچارے مؤرخوں کا قصور نہیں یہ کار فرمائی ہے تقیہ کی جس کے منہ میں جو آیا کہہ دیا نہ ڈر دنیا کا نہ آخرت کا نتیجہ اسماعیلی مذہب:
ایک معمہ بن گیا نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا:
معمہ کو تو کبھی نہ کبھی کوئی حل کر ہی لیتا ہے مگر ہم نے اسماعیلی مذہب کو جو ایک ایسا معمہ کہا ہے کہ جو نہ سمجھنے کا ہے اور نہ سمجھانے کا اس کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ سے ایسی صورت پیدا ہو چکی ہے کہ اسماعیلیہ سے متعلق بہت سے معموں کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی محققین مستشرقین شکست تسلیم کرچکے ہیں اور اس میں وہ حق بہ جانب ہیں اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
عبیداللہ المہدی پہلے فاطمی خلیفہ کے نسب کے سلسلہ میں عباسی خلیفہ القادر باللہ نے 402ھ، 5406ھ، 1011ء، 1015ء میں ایک محضر (تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، اول صفحہ، 82، 83) تیار کرایا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ عبید اللہ المہدی بانی خلافت فاطمی نصبی اعتبار سے فاطمی نہ تھا اس محضر کا جو حشر فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ 386ھ، 411ھ نے کیا وہ دوسری بات ہے لیکن اس محضر پر دستخط کرنے والوں میں امامیہ اثناء عشری کے دو صف اول کے اکابر بھی تھے یہ دونوں بھائی الشریف رضی مرتضیٰ تھے لیکن اول الذکر کے کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جن سے عبیداللہ المہدی کا صحیح النسب فاطمی ہونا ظاہر ہوتا ہے مگر یہ اشعار ان کے دیوان میں شامل نہ تھے (یہ اشعار آج کل مروجہ دیوان میں موجود ہیں ایضاً) اس سلسلہ میں اگر یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان اشعار کی موجودگی میں اس محضر پر دستخط کس طرح کیے گئے اور الشریف رضی کے دیوان میں وہ اشعار کیوں نہیں تو جواب ملتا ہے کہ عباسی خلیفہ کے دباؤ کے تحت ایسا کیا گیا تھا اب خیال فرمائیے کہ حقیقت کا تلاش کرنے والا جب تحقیق کے اس مرحلہ پر پہنچتا ہے تو سر پیٹ لیتا ہے وہ غریب کس کی تحریر کو حجت بنائے کس کے قول کو صحیح سمجھے نہ کسی کی تحریر کا اعتبار نہ کسی کی تقریر کا اعتبار اس صورت میں ہر دلیل بیکار ہر حجت لا حاصل بلکہ ذرا گہرائی سے عقیدہ امامت کو ذہن میں رکھ کر سوچیئے تو امامیہ اسماعیلیہ و اثناء عشریہ کے لیے تقیہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تقیہ ہی ہے جو ان کے لیے حکومت وقت سے وفاداری کے لیے عہد و پیمان کا دروازہ کھولتا ہے۔