Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اشاعت اسلام میں اسماعیلیوں کا حصہ ہندوستان میں

  سید تنظیم حسین

اسماعیلیہ سے متعلق بعض مصنفین نے ہندوستان میں نزاری داعیوں کی تبلیغی کوششوں کو نظرِ استحسان سے دیکھا ہے اگرچہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان داعیوں نے ہنود کے عقائد سے مفاہمت کر کے ان کو اسلام کی طرف راغب کیا اور اس طرح یہ لوگ ان کو آدھے راستہ تک لانے میں کامیاب ہو گئے جب کہ باقی کام دوسرے بزرگوں نے کیا اس سلسلہ میں پر شمس الدین سبزواری 642ھ، 757ھ، 1241ء، 1356ء) اور پیر صدر الدين 700ھ، 819ھ، 1300ء، 1416ء، کے نام خاص طور پر لئے جاتے ہیں ایک اور نام نورست گروہ کا آتا ہے جن کا اصلی نام غالباً نور الدین یا نور شاہ تھا جنہیں بارہویں صدی میں قلعہ "الموت" سے بھیجا گیا تھا انہوں نے ایک ہندو راجےکی بیٹی سے شادی کی اور اپنا نام ہندوانہ رکھا یہ وہی بزرگ ہیں جن کے اکسانے پر سلطانہ رضیہ کے عہد میں دہلی پر قرامطہ و ملاحدہ کا حملہ ہوا دیکھیئے باب "خوجے"  

(آبِ کوثر: صفحہ، 243، 356) پیر شمس الدین سبزواری کا حلقہ اثر ملتان میں رہا شیخ محمد اکرام نے آبِ کوثر میں لکھا ہے کہ پنجاب میں ایک جماعت جو بظاہر ہندوؤں میں شامل ہے اور موجودہ امام آغا خان کو دیوتا تسلیم کرتی ہے اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر شمسی کہتی ہے صفحہ: 343، 344)

پیر صدر الدین نے نزاری فرقہ کے طریق تبلیغ کے مطابق اپنا نام ہندوؤں کا سا رکھا اور ہندو مذہب کے بعض عقائد کو صحیح تسلیم کیا۔ 

(آبِ کوثر: صفحہ، 344، 346)

نوٹ: ان داعیوں کا تفصیلی ذکر تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: جلد، سوم میں موجود ہے۔

تاکہ اسماعیلیہ مذہب کی اشاعت میں آسانی ہو انہوں نے ایک کتاب دس اوتار کے نام سے لکھی جس میں رسولِ اکرمﷺ کو برہما حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو وشنو اور حضرت آدم علیہ السلام کو شو سے تعبیر کیا ہے یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب ہے اور مذہبی تقریبوں اور نزع کی وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے پیر صدر الدین کو بارگر سودیو ہر شنچندر کے القاب سے بھی پکارا جاتا تھا انہوں نے بہت سے گنان روحانی علم لکھے ہندوانی عقائد کو تسلیم کر کے اسلام کی تبلیغ کے جو اثرات ہوئے وہ نزاری سلسلہ کے ایک اور داعی سید امام الدین متوفی 918ھ، 1512ء کے عقید تمندوں کیفیات سے ظاہر ہیں:

نزاری سلسلہ کے ایک اور مبلغ سید امام الدین تھے انہوں نے عام اسماعیلی طریقہ تبلیغ کی پیروی میں مقامی باشندوں کی کئی باتیں قبول کر لیں ہیں لیکن ان کا امام شاہی ریاست پنتھی طریقہ اسماعیلی خوجوں کی نسبت کبیر پنتھی اور نانک پنتھی طریقوں سے زیادہ ملتا جلتا ہے ان میں ابھی ہندوانہ رسمیں موجود ہیں اس جماعت کا نظام سید امام الدین کے ایک جانشین کے ہاتھ میں ہے جسے کاکا کہتے ہیں اور جو تجرد کی زندگی بسر کرتا ہے عرصے سے کاکا کوئی ہندو ہوتا ہے اس طریقہ کے لوگ جو بظاہر ہندو رہتے ہیں انہیں گپتی پوشیدہ کہتے ہیں اور جو ظاہر طور پر بھی مسلمان ہوتے ہیں انہیں مومنہ کا لقب دیا جاتا ہے۔ (آبِ کوثر: صفحہ، 350)

ہمارے خیال میں تبلیغ کا جو انداز مندرجہ بالا داعیوں کے رویہ سے نظر آتا ہے وہ تقیہ اور کتمان کے تحت ہی اختیار کیا جا سکتا تھا اس کے مہلک اثرات نمایاں ہیں اگر غور سے دیکھا جائے تو اس مفاہمت کا نتیجہ ہے جو آج دین کا چشمہ صافی مشرکانہ اور ہندوانہ رسومات سے آلودہ ہے اور بعض کج فہم تو ان رسومات کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں۔

دین کے کسی بنیادی حتیٰ کہ فروعی عقیدہ تک میں کسی دوسرے مذہب سے مفاہمت تو بری چیز ہے ہمارے اکابر نے تو معمولی سی بات میں بھی شدید ترین حالات میں بھی مفاہمت نہیں کی اس نوعیت کے ہزاروں واقعات ہیں ہم زمانہ حال کے ایک بزرگ کا ایک واقعہ پیش کرتے ہیں:

حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ کے مرتبہ تعلیم الاسلام میں ایک سوال اور جواب اس طرح سے ہیں:

سوال: جو لوگ خدا تعالیٰ کے سوا اور چیزوں کی پوجا کرتے ہیں جیسے ہندو جو بتوں کو پوجتے ہیں انہیں کیا کہتے ہیں ؟

جواب: ایسے لوگوں کو کافر اور مشرک کہتے ہیں۔

بھارت میں 1947ء میں ہندوراج قائم ہونے کے بعد یہ تجویز پیش کی گئی کہ سوال میں سے نشان زدہ عبارت نکال دی جائے کیوں کہ مصلحت وقت کا تقاضا یہی ہے نیز اس سے سوال کی نوعیت اثر انداز نہیں ہوتی حضرت مفتی صاحبؒ اس وقت شدید علیل تھے مگر آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی رہے گا بھارت میں تعلیم الاسلام میں یہ اسی طرح چھپ رہا ہے یہ ہے وہ استقامت جس کے ستون پر دین قائم ہے اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کے درجات بلند فرمائے۔

بہر حال اسماعیلی داعیوں کے اس تبلیغی انداز سے اتفاق کرنے والے شاید متذکرہ بالا تجویز سے بھی اتفاق کرتے لیکن ایک صحیح الفکر مسلمان تو اس کو مہنگا سودا ہی تصور کرے گا اور حقیقت بھی میں ہے اس لئے کہ آج کی فروعات پر مفاہمت کل کو اصول پر مفاہمت کے لئے راستہ ہموار ہموار کرتی ہے۔