عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو
سید تنظیم حسینانصاف کا تقاضہ ہے کہ خامیوں کے ستھ ساتھ خوبیاں بھی بیان کی جائیں لہٰذا ہم اسماعیلیوں کے اس پہلو پر بھی نظر ڈالنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اسماعیلیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور فاطمی دورِ خلافت میں علم و حکمت کی ترقی کو خامیوں کا کفارہ سمجھتے ہیں اس میں شک نہیں ہے کہ فاطمی دورِ حکومت میں معروف ریاضی دان سائنس دان اور طبیب ہوئے اور ان کی ہمت افزائی کی گئی لیکن یہ فیصلہ بڑا مشکل ہے کہ اس کا خصوصی تعلق فاطمی دعوت سے تھا اسلام نے تو بنیادی طور پر حصولِ علم پر انتہائی زور دیا ہے یہ بات کسی تشریح کی محتاج نہیں یہی وجہ تھی کہ عباسی دورِ خلافت میں اور اندلس میں علم و حکمت کی ترقی ہوئی اس سلسلہ میں ایک دوسرا مکتبہ فکر بھی ہے وہ کہتا ہے کہ اس نوعیت کے کام امن و سکون کے دور میں ہوا کرتے ہیں یونان میں علم و حکمت کی ترقی کے دور کو بھلایا نہیں جا سکتا ارسطو کو معلمِ اول کہا جاتا ہے اس کا تسلط اب تک قائم ہے اس کا تعلق کس مذہب سے تھا؟ اس وقت تو وہاں عیسائیت بھی نہ تھی یہ صورت ہی ہندوستان کی ہے اور آج کل جاپان چین روس اور مغربی ممالک کی ہے جہاں اگر مذہب ہے تو اس کو ثانوی حیثیت حاصل ہے تاریخ تو یوں ہی بتاتی ہے کہ عموماً امن کے دور میں تہذیب و تمدن نے ترقی کی مختصراً اگر یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اگر فاطمی دورِ حکومت میں علم و حکمت کی ترقی نہ ہوتی تو حیرت کی بات تھی۔
اس تمہید کے بعد ہم فاطمی دورِ خلافت کے چند اہم کارناموں اور ان کی خدمات کا ذکر کریں گے
جامع ازہر:
فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ کے عہد میں جوہر نے قاہرہ کی تعمیر کے بعد ایک مسجد بنائی جس کا نام جامع ازہر رکھا اس کو جامع کبیر بھی کہا جاتا تھا المعز لدین اللہ کے جانشین عزیز کے حکم سے جوہر نے اس میں ایک نفیس کتب خانہ اور مدر سہ بھی کھولا جس کی شہرت آفاق میں پھیلی بڑی غرض اس کے قائم کرنے سے یہ تھی کہ اس میں دینی خصوصاً مذہبِ شیعہ کی تعلیم دی جائے گویا یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاہرہ کی تعمیر دولتِ فاطمیہ کی سیاسی بنیاد کو مضبوط کرنے اور جامع ازہر کی تعمیر اس کی مذہبی بنیاد کو پختہ کرنے کے لیے عمل میں آئی جامع ازہر تقریباً دو سو سال تک شیعی مدرسہ رہا لیکن اس کا مقصد ناکام رہا جس کے لیے قائم کیا گیا تھا کیونکہ مصر میں اسماعیلیت کو فروغ نہ ہو سکا بلکہ شیعوں ہی کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہ ہو سکی ظاہر ہے کہ اس مدرسہ کی شاندار عمارات کہ باوجود طلبہ کی تعداد محدود رہی ہوگی صلاح الدین نے اقتدار کے حصول کے بعد چاروں مذاہب اہلِ سنت کی تعلیم جاری کر دی تاکہ ہر مذہب کے پیرو اس میں تعلیم حاصل کریں اسماعیلی تو اس وقت تک مصر سے قریب قریب ختم ہو چکے تھے اس سبب سے اس مدرسہ کی بڑی شہرت ہوئی جس میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا گیا ظاہر ہے کہ فاطمی دورِ خلافت میں اس مدرسہ کا فیض اسماعیلیہ یا زیادہ سے زیادہ شیعوں تک محدود رہا ہوگا
دار الحکمت: 395ھ میں الحاکم قصر غربی کے قریب ایک دار الحکمتہ قائم کیا اس کی اصل غرض و غایت شیعی علوم کی اشاعت تھی یہ صحیح ہے کہ اس میں قاری نجوم ادیب منجم اور طبیب مقرر کیے گئے لیکن کچھ عرصہ بعد اہلِ سنت کی تعلیم موقف کر دی گئی اور کئی اساتذہ جن میں فقیہہ ابوبکر الانطاکی وغیرہ شامل تھے قتل کر دیئے گئے تقریباً دس سال بعد اس مدرسے کے دینی شعبہ کی حالت بھی خراب ہو گئی جیسا کہ داعی احمد حمید الدین الکرمانی کے قول سے واضح ہے کہ جب میں ہجرت کر کے حضرت بنویہ و علویہ میں پہنچا تو دیکھا کہ لوگ بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں رسومِ دعوت میں خلل پڑ گیا ہے مجالس الحکمتہ کی پابندی چھوٹ گئی ہے اعلیٰ اسفل اور اسفل اعلیٰ ہو گئے ہیں اولیاءِ دعوتِ ہادیہ ایسی ہولناک پریشانیوں میں مبتلا ہیں کہ ان کے سر کے بال سفید ہو جاتے ہیں ایک دوسرے کو فاسق کہتا ہے بعض غلو کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں بعض اس قدر پستی میں گر پڑے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے دین کا دامن چھوٹ گیا ہے آخر کار اس کو وزیر افضل نے 516ھ، 1123ء میں الآمر باحکام اللہ کے عہد میں مذہبی جھگڑوں کے خوف سے بند کر دیا۔خوف کی بنیاد ظاہر ہے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ مصر میں اسماعیلیت فروغ نہ پا سکی لہٰذا شیعی تعلیم کو عوام کیسے قبول کرتے اس مدرسہ کو کچھ عرصہ بعد دوسری جگہ جاری کیا گیا۔
رسائل اخوان الصفاء:
یہ وہ رسائل ہیں جن کے فلسفہ پر بہت سے حضرات سر دھندتے ہیں ان رسائل سے متعلق ڈاکٹر زاہد علی نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے ان کی تعداد (52) ہے اور ان تمام رسالوں کا خلاصہ ایک رسالے میں لکھا گیا ہے جو 53 ہے جس کا نام جامعہ ہے اخوان الصفاء کون تھے اور یہ رسائل کیوں لکھے گئے اب تک متعین نہ ہو سکا
(اسماعیلیہ کی فطرت میں اخفاء کس حد تک تھا اور اب تک ہے اس کی ایک مثال گزشتہ صدی میں بھی موجود ہے مستشرق سلو سڑوی ساسی نے 1809ء میں فرانس میں ایک مقالہ حشیشین نزاریوں سے متعلق پڑھا اس کا جواب اسماعیلیہ کی طرف سے اخبار میں ایک خط کے ذریعہ سے دیا گیا ڈی ساسی نے جواب الجواب اسی اخبار میں چھپوایا وہ لکھتا ہے: اس خط پر دستخطوں سے شبہ گزرتا ہے کہ اس کے پسِ منظر میں ایک معروف شخصیت ہے اگر وہ صاحب اپنا نام ظاہر کر دیتے تو شاید اس سے اعتراضات کا وزن بڑھ جاتا۔ فان ہمیر: صفحہ، 299)
بہر حال سب اس بات پر متفق ہیں کہ انہوں نے اسماعیلی عقائد اور دعوت کا خوب کردار ادا کیا ہے ہم تعارف کے طور پر تاریخِ فاطمییّنِ مصر سے اقتباس پیش کرتے ہیں:
اخوان الصفاء کی حقیقت خود ان کی زبان سے:
اخوان الصفاء کہتے ہیں کہ ہم اہلِ عدل و ابنائے احمد ہیں ہم اہلِ بیت رسول ہیں ہم علمِ خدا کے خازن ہیں اور علمِ نبوت کے وارث ہیں ہمارا جوہر سماوی ہمارا عالم علوی ہے لوگوں نے شریعت کو ناپاک کردیا ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم اسے پاک کریں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ شریعت حقیقت میں حکمت اور فلسفے پر مبنی ہے ہمارے علوم چار قسم کی کتابوں سے ماخوذ ہیں پہلی قسم کتبِ حکماء اور فلاسفہ ہیں اور دوسری قسم کتبِ انبیاء تیسری قسم کتبِ طبیعت اور چوتھی قسم کتبِ الہٰیہ ہیں۔
ڈاکٹر زاہد علی نے اخوان الصفاء کے مسائل کا یونانی فلسفہ سے مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ورنہ اکثر مسائل میں حکماء یونان کی تقلید کی ہے جیسا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے۔
ڈاکٹر زاہد علی نے اخوان الصفاء کے رسائل سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے اسی طرح دیگر کتابوں میں بھی اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے مگر سب کا نچوڑ یہ ہے جو بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے اخوان الصفاء کے رسائل مرتب کرنے والوں کے دل و دماغ پر جملہ قدیم فلسفوں کا غلبہ تھا ان کا مقصد اسلام میں ان فلسفوں کو کس طرح داخل کرنا تھا جس میں وہ الحمدللہ کامیاب نہ ہوسکے۔
اب ہم اخوان الصفاء سے متعلق ابوحیان توحیدی کے جواب سے اقتباس پیش کرتے ہیں جو اس نے 373ھ، 983ھ میں عباسیوں کے وزیرِ صمصام الدولہ بن عضد الدولہ کے سوال پر دیا تھا: میں نے یہ رسالے دیکھے ان میں ہر فن کے مسائل بیان کیے گئے لیکن اس قدر اختصار سے کہ پڑھنے والے کو تشفی نہیں ہوتی ان میں خرافات کنایات اور تلفیقات ہیں میں نے متعدد رسالے اپنے شیخ ابو سلیمان محمد بن بہرام المصطفیٰ الجستانی کو دکھلائے شیخ نے بڑی مدت تک ان کا مطالعہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں نے بہت مشقت کی مگر کوئی بات پیدا نہ کر سکے بڑی تکلیف اٹھائی مگر کچھ نتیجہ نہ نکال سکے پانی کی تلاش میں بہت گھومے مگر چشمے پر پہنچ نہ سکے بہت کچھ راگ الاپے مگر طرب نہ پیدا کر سکے ناممکنات کو وجود میں لانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔(مقدمہ احمد زکی پاشا)
فلسفہ کی اہمیت کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو لیکن مذہب کے ساتھ فلسفہ نے مل کر جو اثرات پیدا کیے وہ کیفیت اسماعیلیوں کے اعتقادات سے ظاہر ہے یعنی آگے چل کر ان کے بیشتر حصہ ہے اعمالِ ظاہری سے فراغت حاصل کر لی اور ایک عام انسان کو معصوم قرار دے کر سیدھے سادے دین کو فلسفیانہ موشگافیوں کا گورکھ دھندا بنا کر رکھ دیا اس کو دین و مذہب سمجھنا ہی دین و مذہب کے صحیح تصور سے ناواقفیت کی دلیل ہے علامہ اقبال جنہوں نے قدیم و جدید جملہ فلسفوں کا مطالعہ کیا تھا اور خود فلسفہ میں ڈاکٹر تھےکہتے ہیں:
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
جن حضرات نے دین کو کلیتہ عقل کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی انہوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی اخوان الصفاء کے فلسفہ کے پرستار حضرت امام غزالیؒ پر تنقید کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ غزالیؒ کا آفتاب الحمدللہ چمک رہا ہے اخوان الصفاء کے مرتب کرنے والوں کے چراغ ذرا دیر کے بعد بھڑک کر کب کے بجھ چکے۔
فاعتبروا یا اولی الابصار