Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مستعلویہ آخری امام طیب کے متعلق روایات

  سید تنظیم حسین

1: ابنِ خلدون کے بیان کے مطابق امام آمر کے انتقال کے بعد اس کے جانشین الحافظ لدین اللہ نے یہ ظاہر کیا کہ آمر نے یہ وصیت کی ہے کہ میری فلاں زوجہ سے حمل ہے. میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اس کے بیٹا ہوگا وہ میرا خلیفہ ہو گا۔

2: ابن الاثیر کا قول ہے کہ آمر جب قتل کیا گیا تو اس کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا جو اس کا قائم مقام بن سکے لوگوں کو حمل کا نتیجہ معلوم کرنے کا انتظار تھا کہ اگر بیٹا ہو تو وہ اس کا امام ہو لیکن اس حمل سے آمر کے یہاں لڑکی ہوئی۔ 

3: مقریزی کے مطابق آمر کے قتل کے بعد اس کا بیٹا گوشت اور ترکاری کی زنبیل کے نیچے کے حصے میں خفیہ طور پر قصر سے مسجد الرحمتہ میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کی پرورش خفیہ طریقے سے ہوئی اور جب حافظ لدین اللہ کو اس راز کی اطلاع ہوئی تو اس نے اس کی فصل کھلوا دی جس سے وہ مر گیا۔

4: داعی ادریس کی روایت ہے کہآمر نے اپنے ایک لڑکے طیب نامی پر نص کی اور اس کا اعلان کیا آگے چل کر ناموافق حالات میں ابو علی داعی بلاغ کو اپنے ساتھ لے کر مصر سے غائب ہو گیا۔

یہ ہے اس مامور من اللہ امام معصوم سے متعلق روایت جس کو مستعولیہ امام غائب کہتے ہیں اور جس سے دورِ ستر کی ابتداء ہوتی ہے ان کا ایمان ہے کہ آمر کے اس بیٹے طیب کی نسل سے یکے بعد دیگرے امام ہوتے رہیں گے چاہے اس کا علم کسی کو ہو یا نہ ہو اس صورتحال کے باوجود امام طیب کے نام پر فاطمی دعوت کا سلسہ داعیوں کے ذریعہ برابر جاری ہے یہ باب ہماری توقع کے خلاف کافی طویل ہوگیا لیکن کچھ اور واقعات ایسے ہیں کہ ان کی نوعیت مجبور کر رہی ہے کہ ان کو بھی بیان کیا جائے: 

ائمہ معصومین سے متعلق مزید دلچسپ حالات:

1: متعدد امام ایسے ہیں جن کو سنِ بلوغت سے پہلے امام تسلیم کیا گیا۔

2: کم از کم دو امام ایسے ہیں جن کی امامت کا اعلان اس وقت کیا گیا جب وہ شکم مادر میں تھے۔

3: متعدد ائمہ کی وفات کو پوشیدہ رکھا گیا۔

ا: عبیداللہ المہدی کو اس کے داعی ابو عبداللہ شیعی نے دعوت کی کامیابی سے قبل دیکھا تک نہ تھا۔ 

ب: ابو طاہر اسماعیل ال منصور اللہ کے انتقال کی خبر حسبِ روایت داعی ادریس ابنِ خلکان تقریباً ڈھائی مہینہ چھپائی گئی۔

ج: المعز لدین اللہ کے انتقال کی خبر آٹھ مہینے تک چھپائی گئی۔ 

د: الحاکم بامر اللہ کے انتقال قتل غیبت کی خبروں کو تین ماہ تک راز میں رکھا گیا۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹر زاہد علی کا بیان معنیٰ خیز ہے وہ کہتے ہیں:

حکومت فاطمیہ ائمہ معصومین کی حکومت کا یہ دستور تھا کہ امام کے انتقال کا اعلان اس وقت تک نہیں کیا جاتا تھا جب تک کہ اس کے ولی عہد کی بیعت تکمیل کو نہ پہنچے اسی وجہ سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کا تخت خوف پر مبنی تھا۔

(نوٹ: اسماعیلی دعوت کے ابتدائی دور سے لے کر مصر میں ان کے خلفاء کے حالات سے متعلق روایات میں اس قدر اختلاف اور تضاد ہے کہ ہم اس سے متعلق بہت سی باتیں اس مختصر کتاب میں شامل نہیں کر سکے ہم خود مشورہ دیتے ہیں کہ فاطمییّنِ مصر مؤلف ڈاکٹر زاہد علی کا جو خود اسماعیلی تھے بہ غور مطالعہ کیا جائے ہم کو یقین ہے کہ اس کے پڑھنے والے بلا شک و شبہ اسی نتیجے پر پہنچیں گے جس پر ہم پہنچے ہیں)

ائمہ معصومین کے تخت کا خوف پر مبنی ہونا حیرت انگیز ہے اس کے علاوہ یہ اصول کہ ولی عہد کے بیعت کی تکمیل تک امام کی موت ہی کو چھپایا جائے چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگ جائے اور بھی حیرت انگیز ہے ہم تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ کاش امامیہ حضرات اسماعیلیہ اپنے اس اصول کی روشنی میں حضور اکرمﷺ کی تدفین سے متعلق واقعات پر غور کر سکتے تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتیں توفیقِ خداوندی سے یہ اب بھی ہو سکتا ہے۔

معذرت:

ہم نے اس باب میں حتیٰ المقدور اختصار سے کام لیتے ہوئے فاطمی ائمہ معصومین کا سیاسی کردار پیش کیا ہے اور ان سے متعلق روایات کا اختلاف بتلایا ہے جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے اس کا مدعا یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے جن بندوں کو عصمت سے سرفراز فرمایا ان کے روز و شب کے معمولات ان کا دوستوں سے برتاؤ ان کا دشمنوں سے سلوک تاریخِ عالم کے صفحات پرانمٹ حروف میں ثبت ہے انہوں نے زندگی کا ایسا معیار قائم کیا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کی عصمت کی گواہی دے رہا ہے۔جب ہم اس معیار کی روشنی میں فاطمی ائمہ معصومین کا سیاسی کردار دیکھتے ہیں تو عصمت تو بہت عظیم چیز ہے وہ ایک عام دنیاوی حکمران کی سطح سے بھی نیچے نظر آتے ہیں یہ صحیح ہے کہ چشمِ فلک نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب انسان خود بت بنا کر پوجا کرتا تھا مگر ایک وقت آیا جب کہہ دیا گیا:

جَآءَ الۡحَـقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُ‌ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا ۞ 

(سورۃ بنی اسرائیل: آیت 81)

ترجمہ: حق آیا اور باطل گیا گزرا ہوا اور واقعی باطل چیز تو یونہی آتی جاتی رہتی ہے۔ 

یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فکر و نظر کے لیے تاریک راہیں مسدود کردی گئیں اب بھی اگر کسی کو روشنی نظر نہیں آتی تو:

چشمہ آفتاب راچہ گناہ 

اس انسانی فطرت کو کیا کہے کہ اس نے خالق کائنات کے مبعوث کیے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی تو نافرمانی کی لیکن اس کی جبیں سائی کے ذوق و شوق نے خود اپنی مرضی کہ معبود بنا لیئے اور جس کو چاہا مامور من اللہ کہہ دیا اور معصوم قرار دے دیا نا نسب کی پرواہ نہ حسب کا خیال نہ کردار پر نظر نہ افکار کی فکر۔