فاطمی ائمہ معصومین کا سیاسی کردار اور ان سے متعلق غیر یقینی معلومات
سید تنظیم حسینفاطمی ائمہ معصومین کا سیاسی کردار اور ان سے متعلق غیر یقینی معلومات
اس باب میں ہم مغربی اسماعیلیوں کے فاطمی خلفاء کا ذکر کریں گے جن کو مامور من اللہ اور امام معصوم کہا جاتا ہے دراصل دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کا کردار بہ حیثیت ایک حکمران کے دنیا کے عام حکمرانوں سے مختلف رہا؟
امام خلیفہ عبید الله المہدی سن 297ھ سن 322ھ، سن 909ء سن 934ء:
1: عبید اللہ المہدی نے سن 297ھ سن 909ء میں مغربِ اقصیٰ میں اقتدار سنبھالا جس کا صدر مقام رقاده مراکش اور برقہ کے درمیان تھا اقتدار کی اس سیاسی جدوجہد میں ابو عبداللہ شیعی نے اس کا ساتھ کچھ اس سے زیادہ دیا جتنا کہ ابو مسلم خراسانی نے عباسیوں کا دیا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ابو عبداللہ کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ابو مسلم خراسانی کے ساتھ ابو العباس السفاح نے کیا بلکہ امام عبید اللہ نے ابو عبداللہ ہی کو نہیں اس کے بھائی کو بھی قتل کرا دیا اور طرفہ تماشا یہ کہ عبید اللہ المہدی نے ابو عبداللہ کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی (اس کا نام عبداللہ تھا تقیہ کے تحت اس نے اپنا نام عبیداللہ رکھا اور یہی مشہور ہوا۔
نوٹ: اس باب میں جو کچھ لکھا ہے وہ تاریخِ فاطمیینِ مصر: جلد اول و دوم سے لیا گیا ہے)
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
2: اپنی حکومت کے چند سال بعد عبید اللہ نے حباسہ بن یوسف کو ایک زبردست بحری بیڑہ دے کر مصر کی فتح کے لئے بھیجا مگر وہ اس میں ناکام رہا ناکام واپسی پر مہدی نے اس کو قتل کروا دیا لیکن اپنے بیٹے کو جو دوسری بار مصر فتح کرنے گیا اور ناکام واپس آیا کچھ نہ کہا گیا یہ ایک امام معصوم کا انصاف تھا۔
ان دو واقعات کے بعد ہم مقریزی کا تجزیہ نقل کرتے ہیں:
مہدی خلفائے بنی عباس میں سفاح کی مانند تھا جس طرح سفاح حمیمہ شام سے بنوامیہ کی خلافت پر غلبہ حاصل کرتا ہوا نکلا جب کہ اس کی تلوار سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے اور ابو سلمہ خلال اس کی تائید میں مصروف تھا اس طرح عبید اللہ المہدی سلمیہ شام سے نکلا جب کہ جاسوس اس کی تاک میں تھے اور ابو عبداللہ شیعی اس کی دولت کی تمہید میں مشغول تھا ان میں سے ہر ایک نے اپنا مقصد حاصل کیا اور دولت قائم کرنے والے کو قتل کیا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: جلد اول، صفحہ، 135)
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فاطمی خلافت کے قیام کے لئے جو جدوجہد کی گئی اس کی نوعیت اس سے قطعاً مختلف نہ تھی جیسی کہ عام قسمت آزما
.Every thing is fair in love and war.
محبت اور جنگ میں ہر حرکت روا ہے کے تحت کرتے آئے ہیں اور اس کے بعد یہ کہہ کر سکون حاصل کر لیا جاتا ہے End Justifies the means انجام کار طریقہ کار کا جواز ہوا کرتا ہے۔
امام ابو القاسم محمد القائم بامر اللہ سن 322ھ، سن 334ھ، سن 934ء، سنہ 945ء وسٹفلڈ کا بیان ہے:
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ابو طاہر قرمطی سے ملا ہوا تھا اور اسی کے حکم سے بحرین اور ہجر کی مسجدیں اور کلامِ مجید کے نسخے جلائے گئے۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: جلد، اول صفحہ، 142)
امام ابو طاہر اسماعیل المنصور باللہ سن 334ھ، سن 341ھ، سن 945ء، سن 952ء:
ابو یزید خارجی کی بغاوت کا سلسلہ امام ابو القاسم مندرجہ بالا کے زمانہ سے چل رہا تھا امام ابو طاہر نے کامیابی کے بعد ابو یزید کے ساتھ جو کچھ کیا وہ عیون الاخبار کے حوالہ سے پیش کیا جاتا ہے:
دوسرے مخالفین کو عبرت دلانے کے لئے ابو یزید کے بیٹے کی کھال کھنچوائی اور اس میں گھاس بھروا کر اس کا ایک ڈھانچہ تیار کروایا یہ ڈھانچہ ایک پنجرے میں رکھا گیا جس میں دو بندر چھوڑے گئے تاکہ وہ اس ڈھانچہ سے کھیلیں۔
(تاریخِ فاطمین مصر، جلد اول، صفحہ، 145)
مؤرخین اس کا مقابلہ عباسی خلیفہ ابو منصور سے کرتے ہیں کیوں کہ دونوں کی حکومتوں میں بغاوت ہوئی اور ان کو سختی سے کچلا گیا۔
امام ابو تميم معد المعز الدین اللہ سن341ھ، سن 365ھ، سن 952ء، سن 976ء:
قیصر صقلی والی باغابہ بھی استبداد کے جرم میں قتل کر دیا گیا اس کے ساتھ مظفر والی طرابلس کا جو معز امام وقت کا معلم تھا یہی حشر ہوا کیونکہ اس نے ایک دفعہ معز کو برا بھلا کہا تھا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: جلد، اول صفحہ، 151)
(استاد کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ تو جاہل بھی نہیں کرتے)
امام ابو علی الحسین الحاكم بامر اللہ:
(الحاکم سے متعلق تمام واقعات تاریخِ فاطمیینِ مصر سے لئے گئے ہیں ڈاکٹر زاہد علی نے ان واقعات کو مختلف حوالوں سے پیش کیا ہے سند کے خواہشمند ناظرین اصل کتاب سے رجوع کر سکتے ہیں)
(سن 382ھ، سن 411ھ، سن 996ء، سن 1020ء)
ڈاکٹر زاہد علی تاریخِ فاطمیینِ مصر میں لکھتے ہیں:
جملہ تعداد وزیروں، قاضیوں، عہدہ داروں اور رئیسوں کی جن کی گردنیں ماری گئیں چھبیس ہے۔
وزیروں کی تعداد آٹھ ہے جن میں سے بعض کی مدتِ وزارت چند دن ہی تھی اس کے وزراء میں سے صرف ایک ہے جو اپنی موت سے مرا گردن ماری جانے والوں میں سے قائد القواد غین اور کاتب علی بن احمد جرجرائی کے واقعات عجیب و غریب ہیں جو اختصار سے پیش کئے جاتے ہیں:
حاکم نے جرجرائی کے ہاتھ کٹوا دئیے اور اس کے بعد قائد غین کا بھی ہاتھ کٹوا دیا اس کے تین سال بعد اس کا دوسرا ہاتھ بھی کٹوا دیا گیا تھا کہا جاتا ہے کہ جب حاکم کے پاس غین کا کٹا ہوا ہاتھ ایک طبق میں بھیجا گیا تو حاکم نے غین کے مکان پر اطباء بھیجے اور کئی ہزار دینار اور کپڑے صلے میں دیئے اور تمام اہلِ دولت نے اس کی عیادت کی دس دن بعد اس کی زبان کاٹی گئی یہ زبان بھی جب حاکم کے پاس پہنچی تو اس نے پھر غین کے پاس اطباء بھیجے اس کے بعد غین کا انتقال ہو گیا۔
ایک اور درد ناک واقعہ پیش کیا جاتا ہے:
مارہ جودریہ یہود کا ایک محلہ تھا جس میں یہ لوگ رہتے اور گایا بجایا کرتے تھے اور ایسے شعر گاتے تھے جن سے اسلام کی توہین اور مسلمانوں کی دل شکنی ہوتی تھی حاکم نے اس محلہ کو گانے والوں کے ساتھ جلوا دیا اسلام نے تو موذی جانوروں کو بھی جلانے سے منع کیا ہے۔
حسین بن علی بن نعمان چھ سال قضا کے عہدہ پر مامور رہا اس عہدہ پر مامور داعی الدعاة بھی ہوتا تھا سن 395ھ میں حاکم نے اسے قتل کرا کے اس کی لاش آگ میں ڈلوادی۔
ان واقعات کے بعد سودا کا شعر ذہن میں ابھرتا ہے:
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
تاریخ کے طالب علم کے لئے ان واقعات میں کوئی نئی بات نہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ واقعات اس شخص کے دورِ خلافت امامت کے ہیں جس کو (نعوذ باللہ) خدا مانا گیا اور اس کی وجہ سے فرقہ دروز وجود میں آیا۔
مشہور مؤرخ لین پول کا بیان بڑا دلچسپ ہے وہ لکھتا ہے:
حاکم کے آخری زمانے میں اس پر ایک نئے جنون کا دورہ پڑا اسے یہ خیال پیدا ہوا کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اس کے جسم میں حلول کر گیا ہے اس نے اپنے مریدوں پر جبر کیا کہ وہ اسے پوجیں جب اس کا نام لیا جاتا تو اس کے مرید راستے میں یا اس کے محل میں جہاں کہیں بھی ہوتے سجدے کے لئے جھک جاتے تھے یہ شیعی باطنی تصوف کا انتہائی نتیجہ ہے۔ (تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 250)
(یہ تاثر مشہور مؤرخ لین پول کا ہے)
ان واقعات کے پیش کرنے کے بعد ہم حاکم نے جو کچھ اہلِ سنت اور اہلِ کتاب کے ساتھ کیا اس کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے اس لئے کہ جس کا سلوک اپنوں کے ساتھ یہ تھا اس نے اغیار کے ساتھ کیا نہ کیا ہو گا البتہ اس سلسلہ میں ایک بات اور لکھتے ہیں اور وہ یہ کہ المستنصر باللہ کے بعد اس کے بیٹوں نزار اور مستعلی میں جانشینی کے لئے بالکل اسی طرح جنگ ہوئی جس طرح عام دنیاوی حکمرانوں کی اولاد میں ہوتی آئی ہے آخر کار اس تنازعہ میں فاطمی دو فرقوں میں بٹ گئے ایک نزار کے ماننے والوں کا نزاری اور دوسرا مستعلی کے ماننے والوں کا مستعلویہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ کچھ عرصہ بعد نزاریوں نے مستعلویہ کے امام المنصور الآمر باحکام اللہ کو قتل کر دیا ائمہ کی اس بے بسی کا یہ عالم تھا کہ ایک دوسرے امام المستنصر باللہ سن 427ھ، سن 497ھ، سنہ، 1035ء، سن 1095ء کو زہر دے دیا گیا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، اول صفحہ، 320)
یہ کام انجام دینے والے ان کے اپنے ہی تھے۔
فاطمی خلافت کے آخری دور کے حکمران الظافر الاعداء اللہ سن 543ھ، تا سن 549ھ کے زمانہ کے حالات کے متعلق کتب الاعتبار نصر کی سفاکی اور خون خواری اسامہ کی شرارت اور بدمعاشی یہ ایسے سیاہ کارنامے ہیں جن کی سیاہی کو زمانے کی زبردست صیقل بھی نہیں مٹا سکتی۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 40)
(کتاب الاعتبار: صفحہ، 16)
فاطمی خلفاء کی زندگی کے دیگر پہلو:
قتل و غارت گری اور ائمہ کی بے بسی کے بعد فاطمی خلفاء کی پر تکلف زندگی کی کیفیات پیش کی جاتی ہیں:
شاندار محل: ائمہ مستورین میں سے امام عبداللہ محمد بن اسماعیل نے سلمیہ میں ایک شاندار محل بنوایا۔
(تاریخِ فاطمین مصر: حصہ، دوم صفحہ، 297)
قصرِ شرقی کبیر میں سونے کا تخت اور سونے کا محل: اس قصر کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس میں تقریباً چار ہزار قطعے تھے جن میں ہر قطعہ قصر یا محل کہا جاتا تھا ان محلات کے مجموعے کا نام قصرِ کبیر تھا اس میں سونے کا ایک محل تھا جسے قصر الذہب کہتے تھے اس کا دروازہ بھی سونے کا تھا اس میں ایک شامیانے کے نیچے سونے کا تخت تھا جس پر خلفاء جلوہ نما ہوتے تھے تخت کے سونے کا وزن ایک لاکھ دس ہزار مثقال بتایا جاتا ہے مستنصر کے زمانے میں اس کے سامنے ایک پردے میں ایک ہزار پانچ سو ساٹھ مختلف رنگوں کے ہیرے جڑے گئے تقریباً تین لاکھ مثقال خالص سونا استعمال کیا گیا۔ (تاریخِ فاطمیینِ مصر: صفحہ، 126، 137 حوالہ مقریزی: حصہ، دوم)
ماہِ ربیع الآخر سن 527ھ، سنہ 1172ء میں جب دولتِ فاطمیہ کے مخصوص خزانے کھولے گئے تو درہم و دینار گھڑی ہوئی اشیاء جواہرات پوشاک اثاثہ کپڑا اور طرح طرح کے ہتھیار تھے اس کا حساب وہی کر سکتا ہے جو آخرت میں خلق کا حساب کرے۔ (مقریزی)
سبحان اللہ مقریزی کا جملہ کس قدر معنیٰ خیز ہے۔ المعز لدین اللہ کی بیٹیوں کا ترکہ: معز کی بیٹی عبدہ کے ترکہ میں پانچ زمرد کی تھیلیاں اور مختلف قسم کے قیمتی جواہرات کے علاوہ سو صندوق جن میں خالص چاندی کے کام کے تین ہزار برتن تھے تیس ہزار قطعے صقلی زر دوزی اور کار چوبی کے معز کی دوسری بیٹی کے مال و اسباب کی قیمت کا اندازہ 27 لاکھ دینار ہے اس کے علاوہ بارہ ہزار رنگ برنگ کے کپڑے کافور قیصری سے بھرے ہوئے سو صندوق سر پر ڈالنے کے جواہر روز کئی رومال برآمد ہوئے۔ (مقریزی) (تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 126، 137)
فاطمی وزرا کی دولت و ثروت: ابنِ میسر لکھتا ہے:
وزیر افضل کے گھر میں آٹھ سو لونڈیاں اور پچاس بیویاں تھیں ہر ایک کے لئے ایوان مخصوص تھا جس محل میں یہ شراب پیتا تھا اس میں آٹھ لڑکیوں کی مورتیں، چار سفید کافوری اور چار سیاہ عنبر میں ایک دوسرے کے سامنے نصب کی گئی تھیں ان کو نہایت عمدہ پوشاک پہنائی گئی تھی اور انہیں قیمتی زیوروں سے آراستہ کیا گیا تھا ان کے ہاتھوں میں بیش بہا جواہرات رکھے گئے تھے جب وزیر افضل اپنے محل میں داخل ہوتا تو یہ مورتیں اس کی تعظیم کے لئے سر جھکا دیتیں اور جب اپنی جگہ بیٹھتا تو پھر سیدھی کھڑی ہو جاتیں جب وہ شراب پینے کے لئے بیٹھتا تو اس کے سامنے جواہرات سے بھرے ہوئے سونے کے طبق رکھے جاتے پھر اس کے حکم دینے پر ان جواہرات کو خالی کر کے ان میں شراب بھر دی جاتی تھی۔
ائمہ کے لئے سجدے اور صلوٰة:
اس دولت و ثروت کے بعد ہم فاطمی خلفاء کی زندگی کا ایک اور رخ پیش کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تمام انسانوں سے اعلیٰ سمجھتے تھے اور بعض حقوقِ الہٰی سے نہیں بلکہ خدا کے اوصاف سے اپنے آپ کو موصوف کرتے تھے اس کا نتیجہ داعی ناصر خسرو علوی کے قلم سے سنیئے:
ورسم ایشان آن بود کہ ہر کجا سلطان بمردم رسیدے اور اسجدے کر دندے و صلوٰت دادندے
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 126، 137)
ائمہ سے ملاقات: حکیم ناصر خسرو علوی کو جو اسماعیلیہ کا ایک نامور داعی ہے امام ال مستنصر باللہ سے ملاقات کے لئے موئد شیرازی کی طرح ڈیڑھ سال انتظار کرنا پڑا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 126، 137)
مندرجہ بالا دولت و ثروت اور عیش کوشیوں نیز قتل و غارت گری کے واقعات ناظرین کے لئے نئے نہیں ہوں گے عباسی خلفاء کا بھی یہی حال تھا اندلس کے مسلمان فرماں رواؤں کی بھی یہی کیفیت تھی ہندوستاں کے بادشاہ بھی کچھ کم نہ تھے مگر ان میں کوئی بھی مامور من اللہ ہونے یا معصوم ہونے کا مدعی نہ تھا اور نہ ان کو معصوم بنا کر پیش کیا گیا۔
کاش: ان ائمہ معصومین کے مفتخر معتقدین اس برگزیدہ ہستی کی زندگی پر بھی غور کرتے جس کے نام نامی سے اس خلافت کو منسوب کیا گیا اور جس کی زندگی یہ تھی:
آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسی گردان و لب قرآں سرا اور دولت و ثروت کا یہ حال تھا:
بہر محتاجے دلش ایں گونہ سوخت با یہودے چادر خودرا فروخت اور اس برگذیدہ ہستی کے شوہر والا گہر امیر المئومنین سیدنا علیؓ کی زندگی کو بھی دیکھ سکتے جن کے لئے کہا گیا ہے:
پادشاه و کلبئہ احزان او یک حسام و یک ذره سامان او ہم اس تقابل پہ اس لئے زور دیتے ہیں کہ اسماعیلیہ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ کو بھی معصومین میں شمار کرتے ہیں تو معصومین کی زندگی میں یہ زمین اور آسمان کا فرق کیسا؟
الحاصل: اس تجزیہ سے ہمارا مقصد فاطمی حکمرانوں کا محاسبہ نہیں بائنہ یہ دکھلانا مقصود ہے کہ جن افراد نے مامور من اللہ اور معصوم ہونے کا دعویٰ کیا ان کی ذاتِ گرامی سے کیسے کیسے افعال سرزد ہوئے اس صورتِ حال سے متاثر ہو کر ایک عام انسان کے ذہن میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں:
1: اگر ائمہ معصومین کی حکمرانی اور تعیش کی زندگی کا یہ حال ہے تو شخصی حکمرانوں غیر معصومین خواہ کوئی بھی ہوں، کسی بھی دور میں ہوں اور ان کا تعلق کسی بھی ملک و ملت سے ہو کس لئے ہدف علامت بنایا جاتا ہے؟
2: ایک معصوم حکمران اور ایک غیر معصوم حکمران میں کس بنیاد پر امتیاز کیا جائے؟ اگر ان سوالات کا شافی جواب نہیں جو یقیناً نہیں ہے تو اہلِ فکر و نظر کو یہ کہنے کا حق ہے کہ:
ایک زنگی کا نام تھا کافور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا تو ذکر ہی کیا اللہ پاک کے وہ نیک بندے جو رشد و ہدایت کا فریضہ ادا کرتے ہیں وہ تو دنیا میں سراسر رحمت اور مجسم عفو و در گزر بن کر رہتے ہی ہیں بلکہ ایسے نیک افراد کی بھی کمی نہیں جن کو اگر اقتدار ملا ہے تو بنی نوع انسان نے چین کا سانس لیا ہے ہر طرف محبت و شفقت کا دور دورہ رہا ہے اسماعیلی حضرات میں سنجیدہ اور صاحبِ فہم افراد کی کمی نہیں یہ سوالات ان کو دعوت فکر دیتے ہیں اور حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے ایک موقع فراہم کرتے ہیں جن حضرات نے خود کو مامور من اللہ اور معصوم کہا اور اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی صف میں لاکھڑا کیا وہ تو اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں ہی وہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں جو فہم و فراست رکھنے اور فاطمی دعوت کی ناکامی کے باجود بالخصوص زمانہ جدید کی سیاسی فکر و نظر کی روشنی میں مامور من اللہ اور عصمتِ ائمہ کے نظریہ کے قائل ہیں۔
ائمہ معصومین سے متعلق دلچسپ روایات:
سیدنا اسماعیل بن جعفر الصادق رحمۃ اللہ علیہ:
سیدنا اسماعیل وہ ہیں جن کی امامت سے متعلق اختلاف پر شیعہ دو حصوں اسماعیلیہ و موسویہ میں تقسیم ہوئے آج تک ان کی موت یا حیات بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے:
1: ایک روایت ہے کہ ان کا انتقال سن 123ھ، سن 751ء میں ہوا اور اس وجہ سے سیدنا جعفر الصادقؒ کو ان پر کی ہوئی نص بدلنا پڑی۔
2: ایک روایت ہے کہ وہ سن 133ھ، سن 751ء میں موت سے ہمکنار نہیں ہوئے بلکہ سن 158ھ، سن 775ء تک بقید حیات رہے۔
3: ایک روایت ہے کہ وہ شراب پیتے تھے اس لئے ان کے والد بزرگوار نے ان پر کی ہوئی نص بدل دی۔
4: ایک روایت ہے کہ وہ بڑے نیک اطوار تھے اور امام معصوم کا بیٹا شراب خور نہیں ہو سکتا۔
5: ایک روایت ہے کہ ان کی موت کے ثبوت میں ان کے والد بزرگوار میت کا منہ کھول کھول کر دکھلاتے تھے حیرت ہے کہ پھر بھی کسی کو یقین نہیں آیا۔
6: ایک روایت ہے کہ ان کو عباسیوں کے ظلم و ستم کے خوف سے ان کے والد بزرگار نے شام بھیج دیا کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس کے نام پر ایک علیحدہ فرقہ وجود میں آیا اس کی حیات و ممات ہی ایک ہزار سال سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے یہ صورتِ حال امامیہ، اسماعیلیہ ہی میں نہیں امامیہ، اثناء عشری میں بھی اس سے کم نہیں دیکھئے: shorter Incyclopedia of Islam مقالہ اثناء عشریہ)
اسماعیلی ائمہ مستورین تاریکی میں:
سن 133ھ، تا سن 297ھ، سن 751ء، سنہ 909ء
سیدنا اسماعیل بن جعفر الصادقؒ کی وفات سے عبید اللہ المہدی کے ظہور تک کی مدت 164 سال ہے اس درمیان میں امامت سے متعلق جو باپ کے بعد بیٹے کو منتقل ہوتی ہے اتنی غیر یقینی کیفیت ہے کہ تاریخ میں اس دور میں ائمہ کے 9 سلسلہ ہیں عبید اللہ المہدی جو پہلا فاطمی خلیفہ امام ہے ان کا نسب اس حد تک مشتبہ ہے کہ اس سے متعلق مؤرخین بلکہ خود اسماعیلیہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے ڈاکٹر زاہد علی نے جو خود داؤدی بوہرے تھے اس موضوع پر طویل بحث کی ہے اور آخر میں لکھتے ہیں:
بحث نسب کا خلاصہ:
بحثِ نسب کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن اسماعیل بن جعفر الصادقؒ اور عبد اللہ بن میمون القداح دونوں کا وجود تاریخ سے ثابت ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے ثبوت طلبِ امر حسبِ شجرہ ذیل صرف اتنا ہے کہ دولتِ فاطمیہ کا پہلا امام مہدی محمد بن اسماعیل کی نسل سے ہے نہ کہ عبداللہ بن میمون القداح کی نسل سے جو دعوتِ اسماعیلیہ کا صدر تھا۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، اول صفحہ، 87)
عبید اللہ المہدی جو پہلا فاطمی خلیفہ ہوا اس کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھنے کے لئے ہے لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا نام عبداللہ تھا اس نے تقیہ کر کے اپنا نام عبید اللہ رکھا اور یہ راز ہی رہا حتیٰ کہ یہ خلافت خلافتِ عبیدیہ کہلائی اور اس خاندان والوں کو "عبیدیون" کہا گیا اس قسم کی باتیں تو دنیاوی غیر معصوم حکمرانوں کو بھی زیب نہیں دیتیں لیکن جو شخص دینِ حق کا داعی ہو اس کے شایانِ شان کیسے ہو سکتی ہیں اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کے پیرو جن بنیادوں پر اس کو مامور من اللہ اور معصوم سمجھ رہے ہیں وہ ہی ابھی تک زیرِ بحث ہیں۔
اسی نوعیت کی متضاد باتیں امام ال مستنصر باللہ کے بیٹے نزار جس کو امام ماننے والے نزاری کہلائے کے متعلق مؤرخین نے لکھی ہیں مستعلویہ کو تو اس سے ہی انکار ہے کہ ال مستنصر باللہ کے بیٹے نزار کا کوئی بیٹا زندہ بھی باقی بچا تھا امام نزار پر امام المستنصر کی نص سے متعلق ایک سخن گسترانہ بات ذہن میں آگئی جسے پیش کیا جاتا ہے:
اے اے فیضی صاحب ہمارے ملک کی ایک نامور شخصیت تھے وہ اسماعیلیہ نزاری تھے انہوں نے امام نزار پر امام ال مستنصر کی نص سے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا۔
(تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: صفحہ، 26، 27 حصہ، سوئم) اس میں ایک نکتہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ امام ال مستنصر باللہ کا اپنے دوسرے بیٹے احمد مستعلی پر اپنی عمر کے آخری حصہ میں نص کرنا سمجھ میں نہیں آتا جب کہ ان کا دورِ امامت 60 سال رہا آخر امام موصوف نے اس سے قبل ایسا کیوں نہیں کیا خیر یہ جھگڑا تو نزاریوں اور مستعلویوں کا ہے ہم تو نزاری حضرات سے صرف اتنا عرض کریں گے کہ اگر اسی دلیل کی روشنی میں رسولﷺ کی امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نامزدگی پر غور کر لیا جائے تو اگر تمام امامیہ برادری کے نہیں تو کم از کم اہلِ سنت اور نزاریوں کے درمیان اختلاف ختم ہو سکتا ہے۔