تاریخ میں اسماعیلیوں کا منفی کردار
سید تنظیم حسینقرامطہ مساجد کا جلانا اور حجاج کا مسلسل قتل:
گزشتہ باب میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ قرامطہ اسماعیلیہ ہی کی ایک شاخ ہیں لیکن ابتداء ہی میں انہوں نے اپنا تعلق اسماعیلی مرکز دعوتِ سلمیہ سے توڑ لیا تھا قرامطہ نے اپنی دعوت کا مرکز کوفہ رکھا عرب اور نبطی قبیلے کثرت سے اس دعوت میں داخل ہو گئے اس دعوت کی کامیابی میں حمدان قرمط اور عبدان پیش پیش تھے ان دونوں نے اپنے مریدوں پر مختلف قسم کے محاصل لگائے اور ایک قسم کا اشتراکی نظام نافذ کر دیا اپنی کامیابی سے متاثر ہو کر ان دونوں داعیوں نے اپنے مریدوں کو فرقہ ثنویہ (ثنویہ: نور و ظلمت کو عالم کا خالق مانتے ہیں) کی تعلیم دینا شروع کر دی جس کی وجہ سے وہ زہد و تقویٰ چھوڑ کر فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے انہوں نے اپنے متبعین کو یہ باور کرایا کہ صرف امام محمد بن اسماعیل کی معرفت کافی ہے اس طرح ان کو ظاہری اعمالِ شریعت کی ادائیگی یعنی نماز روزہ وغیرہ سے فارغ کر دیا مریدوں کو یہ بھی تعلیم دی گئی کہ تمہارے مخالفین کا خون تمہارے لئے حلال ہے ہتھیار جمع کرنے کی ترغیب دلائی گئی یوں سمجھیئے کہ ایک دہشت گردوں کی جماعت تشکیل پاگئی اب اس جماعت نے ایسی خونریزی شروع کی کہ ہم سایہ چیخ اٹھے 279ھ، 892ء میں انہوں نے قریہ مہما آباد قم اور اصفہان کے درمیان ایک گاؤں میں ایک دار الحجرت بنایا اور اسے مضبوط فصیل سے محفوظ کر کے اس کے گرد خندق کھو دی اب والیانِ حکومت بھی ان سے گھبرانے لگے ۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ 148 160)
قرامطہ کی دعوت کو بلادِ شام میں بھی کامیابی ہوئی عباسی خلفاء نے ان کی سرکوبی کے لئے فوجیں بھیجیں مگر ناکامی ہوئی ایک مقابلہ میں قرامطہ نے "رصافہ" کی مسجد جلا دی اور لوٹ مار کی قرامطہ کی طاقت اتنی بڑھی کہ انہوں نے دمشق کا محاصرہ کر لیا اور اس کے بعد بہت سے شہروں کو فتح کرتے ہوئے اسماعیلیوں کے پہلے مرکز سلمیہ پہنچے اور یہاں رہنے والے بہت سے بنو ہاشم کو موت کے گھاٹ اتارا۔ (ایضاً)
اس فتنہ کو فرد کرنے کے لئے عباسی خلیفہ المکتفی باللہ نے 290ھ، 903ء میں ایک بڑا لشکر بھیجا اور قرامطہ کو شکست ہوئی اس شکست کے بعد قرامطہ نے اپنی منتشر طاقت کو پھر اکٹھا کیا مگر اس مرتبہ عباسی خلیفہ کا لشکر ان کی تاب نہ لا سکا ان کی لوٹ مار کا سلسلہ بصرہ اور بغداد تک پہنچ گیا انہوں نے راستہ میں مکہ معظمہ سے واپس آنے والے حاجیوں کے تین قافلوں پر زبر دست حملے کئے ان معرکوں میں تقریباً تیس ہزار آدمی قتل ہوئے اور کئی لاکھ دینار قرامطہ کے ہاتھ لگے مرد تو مرد قرامطہ کی عور تیں بھی لڑائی میں حصہ لیتی تھیں بغداد میں ایسا کوئی گھر باقی نہ رہا جو مصیبت کدہ نہ ہوا ہو اور جہاں سے آہ و زاری کے نالے بلند نہ ہوئے ہوں۔
(تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 149، 160)
اس درمیان میں قرامطہ بحرین میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے نوجوانوں کو سپہ گری کی تعلیم دلانا ان کا خاص کام تھا عباسی خلفاء ان کا مقابلہ کرنے میں بار بار ناکام رہے اور 311ھ، 335ھ، 922ء، 937ء تک بحرین کے قرامطہ نے بصرہ کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں پہلے سے زیادہ شدید فساد برپا کیا اب قرامطہ اور سلمیہ کے اسماعیلیوں میں مفاہمت ہو گئی لہٰذا بحرین کے قرامطہ نے ابو طاہر سلیمان کی سر کردگی میں 315ھ، 927ء میں بصرہ پر رات کے وقت اچانک چڑھائی کی دس روز تک خون ریزی کی شہر کے بڑے حصہ کو جلا دیا اس سے قبل اور طاہر سلیمان کے باپ حسن بن بہرام ابو سعید جنابی نے احساء قطیف اور بحرین پر قبضہ کرتے وقت مسلمانوں کا قتل عام کیا اور مساجد کو آگ لگائی۔
بیت اللہ شریف کی بے حرمتی اور حجر اسود کی منتقلی:
قرامطہ نے حاجیوں کے قافلوں کو لوٹنا تو معمول بنا رکھا تھا لیکن 317ھ، 929ء میں قرامطہ ابو طاہر سلیمان کی قیادت میں مکہ معظمہ پہنچے اور عین ترویہ کے روز حاجیوں پر حملہ کر کے ان کا مال و اسباب لوٹ لیا حاجیوں کو بیتُ الحرام میں قتل کیا حجرِ اسود کو اس جگہ سے نکال کر اپنے مستقر ہجر (Hajar) جو بحرین کا دارالخلافہ تھا لے گئے تاکہ اپنے شہر میں حج مقرر کریں بیتُ اللہ کا دروازہ اور محراب اکھاڑے گئے مقتولین کے چند لاشے زم زم کے کنویں میں پھینک دیئے گئے اور کچھ بغیر غسل و کفن کے مسجدِ حرام میں دفن کئے گئے اہلِ مکہ پر (تاریخِ فاطمیینِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 149، 160) بھی مصیبتیں ڈھائی گئیں ابو طاہر نے 22 سال بعد 339ھ، 951ء میں حجرِ اسود واپس کیا۔
(تاریخِ فاطمییّنِ مصر: حصہ، دوم صفحہ، 160)
حجرِ اسود سے متعلق یہ واقعہ ہر مؤرخ نے لکھا ہے اور متفق علیہ ہے اس واقعہ کا بیان ایک دوسرے مؤرخ کے قلم (ابنُ الاثیر تاریخِ اسلام میں شیعیت و باطنیت کا منفی کردار الحق: ماہ جولائی 85ء) سے سنئے: طاہر نے بیتُ اللہ کا دروازہ بھی کھود دیا اور ایک آدمی کو میزابِ رحمت اکھیڑنے کے لئے اوپر چڑھایا جہاں سے وہ گر کر مرا قرامطہ کا یہ امیر ابو طاہر اس موقع پر بابِ کعبہ پر بیٹھا ہوا تھا اور آس پاس کے حاجی قتل کئے جارہے تھے مسجدِ حرام اور شہرِ حرام اور یومُ الترویہ (8 ذی الحجہ جس دن سے حج کے ارکان کی ادائیگی شروع ہوتی ہے) جو اشرفُ الایام ہے میں معصوم حاجیوں پر تلواریں چل رہی تھیں اور وہ یہ بیت پڑھ رہا تھا۔
ترجمہ: میں اللہ کا ہوں اور اللہ کے ذریعہ ہوں وہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور میں انہیں فنا کرتا ہوں لوگ ان قاتلوں سے بھاگ بھاگ کر کعبہ کے پردوں سے چمٹتے تھے مگر اس کا بھی لحاظ کئے بغیر شہید کئے جاتے رہے اس دن ایک بزرگ طواف کر رہے تھے ختمِ طواف پر ان پر بھی تلوار پڑی انہوں نے مرتے وقت شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے:
تم ان کے دیار میں اصحابِ کہف کی طرح محبین کو بے ہوش پڑا دیکھو گے کہ نہیں جانتے کتنی مدت گزر گئی۔
ایک قرمطی مطاف میں داخل ہوا جو سوار تھا اور شراب پنے تھا اس کے گھوڑے نے بیتُ اللہ کے پاس پیشاب کیا اس نے حجرِ اسود کو ایک کلہاڑی مار کر توڑ دیا اور پھر اکھاڑ لیا یہ قرمطی مکہ میں گیارہ دن رہا اور جب اپنے وطن لوٹا تو اللہ نے اس کے بدن پر ایک طویل عرصہ تک عذاب نازل کیا جس سے اس کے اعضاء کٹ کٹ کر گرتے تھے اور اس کے گوشت سے کیڑے ٹپکتے تھے۔
الصلہ کا مصنف لکھتا ہے کہ: ابو طاہر نے خلفاء کے وہ آثار لوٹ لئے جو انہوں نے وہاں بطورِ زینت رکھے تھے مثلاً حضرت ماریہ قبطیہؓ کے کانوں کے بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مینڈھے کے سینگ اور عصائے موسیٰ علیہ السلام جو سونے اور جواہرات سے جڑے ہوئے تھے۔ (تاریخ الکامل)
(تاریخِ اسلام میں شیعیت و باطنیت کا منفی کردار ماہنامہ الحق: ماہ جولائی، 85)
احمد امین حرم میں قتلِ عام کے سلسلہ میں لکھتے ہیں طاہر گھوم پھر کر اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر قتل پر ابھارتا تھا کہ ان کفار اور بت پرستوں پر خوب حملے کرو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے وہاں بارہ دن قیام کیا اور قتل و غارت کا ایسا اقدام کیا جس سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ (ظہر الاسلام)
(تاریخِ اسلام میں شیعیت و باطنیت کا منفی کردار ماہنامہ الحق: ماہ جولائی، 85)
قرامطہ کی سر گر میاں ہندوستان میں:
قرامطہ جو بنیادی طور پر اسماعیلی تھے ہندوستان میں بھی سر گرم عمل رہے اسماعیلی داعی سندھ میں تیسری صدی ہجری میں آنے شروع ہوئے رفتہ رفتہ انہوں نے سندھ اور پنجاب کے وسیع علاقوں پر اقتدار حاصل کر لیا محمود غزنوی نے ان کی سرکوبی میں نمایاں حصہ لیا اور 396ھ 1006ء میں ملتان قرامطہ واپس لے لیا مگر اسماعیلی فوراً اس پر دوبارہ قابض ہو گئے پھر اس کے بعد سلطان شہاب الدین غوری نے اس علاقہ کے ملاحدہ سے جنگ کی اور ان کو گجرات کی طرف دھکیل دیا لیکن خود سلطان شہاب الدین غوری کی شہادت ایک اسماعیل کے ہاتھوں ہوئی۔ 634ھ، 1237ء میں قرامطہ و ملاحدہ کی ایک جماعت اطرافِ ہند سے اکھٹے ہو کر ایک عالم نما شخص نور ترک نامی کے ایمان تلواروں ڈھالوں اور کلہاڑوں سے مسلح ہو کر جامع مسجد دہلی کو گھیرے میں لیا یہ ایک فوج کی صورت میں جامع مسجد اور مدرسہ معزی میں گھس گئے اور مسلمانوں کو تہ تیغ کرنا شروع کر دیا چنانچہ بہت سے لوگ ان ملاحدہ کی تلواروں کا شکار ہوئے اور کئی ہجوم میں کچلے گئے یہ واقعہ سلطانہ رضیہ کے دورِ حکومت میں ہوا اور قاضی منہاج سراج نے طبقات ناصری میں بالتصریح لکھا ہے۔
(آبِ کوثر: صفحہ 340، 341)