آغا خانیوں کا حکومت برطانیہ سے خصوصی تعلق
سید تنظیم حسین1258، 1842ء میں نزاریوں کے امام حسن علی شاہ آغا خان اول نے ہندوستان منتقل ہونے کے بعد برطانوی حکومت کو سندھ میں اقتدار حاصل کرنے میں بہت مدد دی حکومتِ برطانیہ نے اس وفاداری کے صلہ میں ان کو ہزہائنس (His Highness) کا اعزاز عطا کیا حکومت برطانیہ سے وفاداری کا یہ سلسلہ قائم رہا اور آغا خان سوم سلطان محمد شاہ کو حکومت نے سر کا خطاب عطا کیا ان ائمہ نے حکومت سے وفاداری کا یہ فائدہ اٹھایا کہ وہ ہندوستان اور برطانیہ کے زیرِ اثر علاقوں میں اپنی جماعت کو اطمینان سے منظم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہی نہیں بلکہ سر زمینِ مصر سے بھی تعلق قائم کرنے میں کامیابی ہوئی کیونکہ نزاریوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مصر میں فاطمی خلافت کے جائز وارث ہیں حکومت برطانیہ کی وساطت سے وہ مصر میں خود کو دوبارہ روشناس کرا سکے وہ اس لئے کہ مصر بھی کچھ عرصہ قبل تک حکومت برطانیہ کے زیرِ اثر رہا ہے اس کے نتیجے میں سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کو 1959ء میں حکومت برطانیہ کے توسل سے اسوان مصر میں دفن کیا گیا۔
مستعلویہ بوہرے یا اسماعیلی طیبی:
جیسا کہ باب سوئم میں ذکر کیا گیا ہے امام المستنصر 427ھ 487ھ، 1035ء، 1095ء کے انتقال پر فاطمیوں میں ان کے جانشین پر اختلاف ہوا اور المستنصر کے بڑے بیٹے نزار کو جائز جانشین ماننے والے نزاریہ اور المستنصر کے دوسرے بیٹے المستعلی کو امام خلیفہ تسلیم کرنے والے مستعلویہ کہلائے اس اختلاف کی وہی نوعیت و صورت تھی جو سیدنا جعفر صادقؒ کے جانشین کے سلسلہ میں ان کے بڑے بیٹے اسماعیل اور ایک دوسرے بیٹے موسیٰ الکاظمؒ کے متعلق پیدا ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں اسماعیلیہ فرقہ وجود میں آیا تھا بہرحال مستعلویہ موسویوں اثناء عشریوں کی طرح خود کو اصل کہتے ہیں اور اسماعیلی مذہب کے صحیح عقائد کے مدعی ہیں ان کے آخری امام طیب تھے جنہوں نے کم سنی میں524ھ، 1130ء میں غیبت اختیار کرلی اس وقت سے ان کے یہاں دورِ ستر کا آغاز ہوا یعنی امام مستور ہے مگر دعوت کا سلسلہ داعیوں کے ذریعہ جاری ہے۔