Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نزاری پیر اور تقیہ

  سید تنظیم حسین

ان نزاری داعیوں پیروں کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ کبھی اپنے آپ کو سنی ظاہر کرتے تھے کبھی شیعی کبھی کسی صوفی سلسلہ سے وابستہ ظاہر کرتے تھے کبھی برسوں ہندو مندروں میں پوجا پاٹ کرتے تھے تاریخِ اوچ میں مولوی حفیظ الرحمٰن خوبوں کے متعلق لکھتے ہیں: اور اوچ کے اسماعیلی خوجے بالعموم اب اثنا عشری ہو گئے ہیں اس سلسلے کے بزرگ بطورِ تقیہ اپنے آپ کو سہروردی سلسلہ سے منسوب ہونے کے مدعی ہیں۔

(آبِ کوثر: صفحہ، 349)

ایک حیرت انگیز تقیہ جو 400 سال تک راز رہا:

اس سلسلے میں آغا خان اول کا انکشاف ناظرین کے لیے حیرت کا باعث ہوگا شیخ محمد اکرم آبِ کوثر میں لکھتے ہیں: اسلامی حکومت کے دوران میں نزاری عام مسلمانوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے تھے ان کی تجہیز و تکفین اور بیاہ شادی کی رسمیں سنی علماء ادا کرتے اگرچہ وہ اپنے دیوانی جھگڑے اپنی پنچائیت سے طے کراتے مغربی پنجاب میں کئی اسماعیلی سنی پیروں کے مرید تھےثبلکہ پیر صدر الدین کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ سنی مسلمان تھے لیکن جب انیسویں صدی کے وسط میں آغا خان ہندوستان آگئے تو جماعت کو زیادہ منظم اور جداگانہ طریقے پر ترتیب دیا گیا ایک تو وہ لوگ جو خوجوں سے باہر ہیں مثلاً پنجاب کے شمسی اور گجرات کے ست پنتھی انہیں بھی آغا خان کی قیادت میں منسلک کرنے کی کوشش کی گئی اور ہو رہی ہے دوسرے آغا خان اول نے حکم دیا کہ ان کے پیرو بیاہ شادی تجہیز و تکفین اور وضو طہارت میں اپنی جماعت کی پیروی کریں بعض لوگوں نے اس کی مخالفت کی بلکہ ممبئی ہائی کورٹ میں اس مسئلے پر 1864ء میں ایک اہم مقدمہ لڑا گیا جس میں ان لوگوں کی طرف سے کہا گیا پیر صدر الدین سنی تھے اور شروع میں سے ان کے پیرو بیاہ شادی وغیرہ میں سنی علماء کو بلاتے رہے آغا خان اول کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سب باتیں تقیہ میں داخل تھی اور پیر صدر الدین کو اسماعیلی نزاری امامِ وقت شاہ اسلام شاہ نے اس لئے داعی بنا کر بھیجا تھا کہ وہ اسماعیلی عقائد پھیلائیں عدالت نے آغا خان اول کا یہ دعویٰ قبول کر لیا جس پر بعض خوجے ان سے علیحدہ اور اعلانیہ طور پر سنی ہو گئے۔

 (آبِ کوثر: صفحہ، 351، 352)

اسماعیلی مذہب کی مندرجہ بالا انداز میں تبلیغ اور اس کے اثرات وہی ہوئے جو ہونے چاہئیں تھے یعنی ہندوستانی نزاریوں کے اعتقادات تضادات کا مجموعہ ہو کر رہ گئے جن کو کسی بھی ایک مذہب سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا آغا خان اول کی ہندوستان آمد کے بعد رفتہ رفتہ نزاری آغا خانی کہلائے جانے لگے ان میں وہ چند خاندان بھی شامل ہیں جو ایران سے آغا خان اول کے ساتھ آئے اور ہندوستان میں سکونت پذیر ہوگئے۔

آغا خانیوں نزاریوں کی مذہبی کتابیں:

1: جو گنان پیروں نے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے لکھے ان گنانوں کے مختلف مجموعے ممبئی میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے بھارت انڈیا نے شائع کئے ہیں۔

 2: پندیات جوانمردی اس کتاب کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اس کتاب میں نصحیتیں اور عالی ہمتی کے اصول درج ہیں۔

3: دس اوتار یہ ایک نقشہ (Chort) سا ہے جس میں اوتار گنائے گئے ہیں۔

4: حاضر امام آغا خان کے فرامین آغا خان یعنی حاضر امام جو فرمان جاری کرتے ہیں ان کا مجموعہ ان کتابوں سے نمونے پیش کیے جاتے ہیں: 

1: گنان کا نمونہ:

(دیکھئے آغا خانیت کیا ہے؟ شائع کردہ سواد اعظم اہلِ سنت پاکستان)

1: شاہ یعنی امام رام چندر کے روپ میں آیا کرشن کے روپ میں آیا۔

(گنان 173 مجموعہ گنان از پیر صدر الدین شائع کردہ

اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے بھارت ممبئی) 

2: اس کلجگ میں خداوندِ عالم کا مظہر ظہور انسانی جسم میں ہے اور وہ ساری روحوں کا شہنشاہ ہے یعنی حاضر امام۔

(گنان نے برہم پرکاش از پیر شمس الدین، مقدس گنان کا مجموعہ، شائع کردہ اسماعیلیہ ایسوسیی ایشن ممبئی) 

3: جو لوگ علی کو دل سے اللہ مانیں گے نعوذ باللہ

(گناہ مومن چینا منی امام شاہ گناہوں کا مجموعہ)

2: پندریات جوان مردی:

امام نے فرمایا مومن وہ ہے جس کا قول ایک ہو مومن وہ ہے جو حق اور ناحق کو پہچانتا ہو۔

2: دس اوتار (اول تا پنجم نقل کے لائق بھی نہیں)

6: چھٹا اوتار شاہ نے "رام" کے روپ میں لیا اور 10 سال والے راون کو ہلاک کیا۔

8: آٹھواں اوتار شاہ نے "کرشن" کے روپ میں لیا۔

9: نواں اوتار شاہ نے "بدھ" کے روپ میں لیا۔

10: آج کل دسویں اوتار میں "علی" کے روپ میں شاہ ظہور میں ہے۔

4: فرامین

اسماعیلیوں کے پاس رہبری کے لیے کوئی مخصوص کتاب نہیں مگر زندہ امام ہے ہم نے نمونے محض تعارف کے لیے دئیے ہیں سچ تو یہ ہے کہ اسماعیلیہ کے بنیادی عقائد معلوم ہونے کے بعد نا ان ذیلی تحریروں کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے اور نہ ان کے کسی بھی عمل کی۔

اسلامی شعار اور آغا خانی:

آغا خانیوں کے دو اصول ہیں:

1: جو معاملات خدا کے ہیں انہیں خدا سے اور جو قیصر کے ہیں انہیں قیصر سے متعلق رکھو۔

(اسلام میرے مورثوں کا مذہب: صفحہ، 41)

(Bible Mark 12: 17)

2: جہاں رہو یعنی جس ملک و ملت میں رہو اس کا شعار اختیار کرو۔

ہم اس سلسلے میں آغا خان سوم کی خود نوشت سوانحِ عمری سے اقتباسات پیش کریں گے:

1: میں نے عورتوں کی آزادی اور تعلیم کی ہمیشہ ہمت افزائی کی ہے میرے دادا اور والد کے زمانے پردہ ترک کرنے کے سلسلے میں اسماعیلی دوسرے فرقوں سے بہت اگے تھے حتیٰ کہ ان ممالک میں بھی بہت زیادہ رجعت پسند تھے میں نے بالکل پردہ ختم کر دیا ہے اب آپ کسی اسماعیلی عورت کو نقاب ڈالے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ (ایضاً)

2: جہاں تک میرے پیروؤں کے طرزِ زندگی کا تعلق ہے تو میری یہ کوشش رہی ہے کہ میں ان کو جو نصیحتیں کرتا ہوں جو مشورے دیتا ہوں انہیں اس ملک اور حکومت کے مطابق بدلتا رہتا ہوں جس میں وہ زندگی گزارتے ہیں چناچہ مشرقی افریقہ کی برطانوی نو آبادی میں انہیں میری یہ تاکید ہے کہ وہ انگریزی کو اپنی اولیں زبان بنائیں اپنے خاندان اور اپنے گھریلو زندگی کی بنیاد انگریزی طریقوں پر رکھیں اور شراب و تمباکو نوشی کو مستثنیٰ کر کے عام طور پر برطانوی اور مغربی رسم و رواج اختیار کریں۔

(اسلام میرے مورثوں کا مذہب: صفحہ، 46)

نزاریوں آغا خانیوں کے دیگر اعمال:

کافی عرصہ سے آغا خانیوں کی مذہبی کمیٹی ایک اشتہار بعنوان "آغا خانی مذہبی عبادات کا پیغام" کے ذریعے اپنی مذہبی عبادات سے روشناس کرا رہی ہیں اس اشتہار کے مندرجات بڑے دلچسپ ہے اس پیغام میں بعض اعمال شریعت کی تاویلات بتلا کر ان پر عمل نہ کرنے کا جواز پیش کیا گیا اور اس طرح حاضر امام کو رقومات کی ادائیگی سے عبادات معاف کرائی جا سکتی ہے ناظرین اس اشتہار کو ضمیمہ میں ملاحظ کر لیں ہم اس کے متعلق کچھ عرض کرنا کار عبث سمجھتے ہیں

حاضر امام کو رقومات کی ادائیگی:

آغا خانیوں کے لیے مقررہ رقومات کی ادائیگی کے لیے باقاعدہ جماعتی نظام ہے ان ادائیگیوں کے کئی نام ہیں جن میں زیادہ معروف دسوند آمدنی کا آٹھواں حصہ اور ناندی ہیں اس نوعیت کی ادائیگی کی کل رقم لاکھوں روپیہ تک جاتی ہے جس کو حاضر امام کا حق سمجھا جاتا ہے اس قسم کی ادائیگیوں کے خلاف آغا خانیوں میں کبھی آواز بھی اٹھائی جاتی ہے مگر بے سود اسی طرح ایک واقعہ سید امام الدین کے زمانے میں پیش آیا تھا سید امام الدین نے جن کا ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے امام وقت کے لیے دسوند لینے کی مذمت کی اس پر امام وقت الموتیٰ آغا عبد السلام نے انہیں جماعت سے خارج کر دیا اور ہندوستان کے لیے پیر یا نائب پیر نامزد کرنے کا سلسلہ بند کر دیا بہرحال موجودہ دور میں اس نوعیت کی ادائیگیاں باعثِ حیرت ہیں۔