Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اسماعیلیہ کی شاخیں

  سید تنظیم حسین

قرامطہ: اسماعیلیوں نے قریباً سو سال تک (133ھ تا 2423ھ 751ء، 856ء) محمد بن اسماعیل کے نام پر اپنی خفیہ دعوت (یعنی دینی و دنیاوی رہنمائی و حکومت کا حق بنی فاطمہ میں صرف محمد بن اسماعیل کا ہے ) کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی دعوت کا مرکز شام میں سلمیہ اور ایران میں نہاوند رہا۔ ان کے ائمہ موسویوں کے بر خلاف قطعی طور پر مستور رہتے تھے تھوڑے وقفہ کے بعد اپنی جائے قیام بدلتے رہتے تھے ان کا عوام سے رابطہ صرف داعیوں کے ذریعہ ہوتا تھا براہِ راست کوئی ان سے نہ مل سکتا تھا اس لئے ان کو ائمہ مستورین کہا جاتا ہے ان کے عقیدت مندوں میں پہلا اختلاف سیدنا احمد بن عبد اللہ بن محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کے 242ھ 856ء میں انتقال کے بعد ہوا ایک گروہ نے یہ عقیدہ اختیار کیا کہ سیدنا محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ ساتویں اور آخری امام ہیں (Shorter Encyclopedia Of Islam میں ایوانو Ivanow نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سیدنا محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد ہی یہ عقیدہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ ساتویں اور آخری امام ہیں جو روزِ آخرت ظاہر ہںوں گے یہی لوگ تیسری صدی کے اواخر میں قرامطہ کہلائے) جو قیامت سے قبل ظاہر ہوں گے جب کہ دوسرا گروہ ائمہ مستورین کا سلسلہ سیدنا محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں جاری رہنے کا قائل تھا پہلے گروہ کا قائد داعی حسین اہوازی تھا یا حمدان قرمط حمدان قرمط پستہ قد تھا اور چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا تھا وجہ سے یہ قرمط کہلایا جانے لگا حمدان قرمط کی آنکھیں سرخ تھیں ایسے شخص کو نبطی زبان میں کرمینہ کہتے ہیں جو رفتہ رفتہ قروط ہو گیا بہر حال حمددائی کے لقب کی بنیاد پر اس سے اتفاق کرنے والے "قرمطی" کہلائے قرامطہ جمع ہے قرمطی کی اس عقیدے میں اختلاف کے بعد حمدان قرمط ایک دوسرے داعی عبدان کے ساتھ 268ھ881ء میں کوفہ سے علیحدہ دعوت کا آغاز کیا اس طرح قرمطیوں کا سلسلہ اسماعیلیوں کے مرکز سے کٹ گیا اور یہ ایک علیحدہ گروپ کی حیثیت سے کچھ عرصہ تک

رہے (بعض مؤرخوں کو دھوکہ ہوا ہے کہ قرامطہ سے اسماعیلی نکلے واقعہ یہ ہے کہ اسماعیلی کی کئی شاخیں ہوئیں جن میں پہلی اہم قرامطہ ہے ڈاکٹر زاہد علی تاریخ فاطمین مصر: صفحہ، 42)

فاطمی مغربی اسماعیلی:

اسماعیلیہ کا دوسرا گروہ جو سیدنا محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں امارت جاری رہے قائل تھا اور جس کا مرکز سلمیہ تھا رفتہ رفتہ زور پکڑتا گیا ان کے داعی دور تک اسلامی ممالک میں خفیہ طریقوں سے فاطمی دعوت کے لئے کام کر رہے ابتداء میں ان کو یمن میں کامیابی ہوئی لیکن پہلی سیاسی کامیابی افریقہ مراکش اور برکہ کے درمیان میں ہوئی جہاں وہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ان کا پہلا حکمران ابو محمد عبداللہ المہدی بااللہ ہوا (مہدی کا اصل نام عبد اللہ تھا مگر یہ عبیداللہ کے نام سے مشہور ہوا حتیٰ کہ اس سلسلہ کے حکمران عن یوں کہلائے اور اصل نام کا انکشاف بعد میں ہوا اس کے تقیہ کے طور پر اپنا نام عبیداللہ رکھ لیا تھا تاریخِ فاطمین مصر: جلد، اوّل صفحہ، 28)

فاطمیوں کی شاخیں دروزیہ، حاکمیہ:

فاطمیوں میں ائمہ ظاہر کا جو سلسلہ 297ھ 909 ء سے شروع ہوا تھا وہ چلتا رہا ان میں پہلا اختلاف قریباً سو سال بعد 311ھ 1820ء میں امام و خلیفہ الحاکم بامر اللہ کے انتقال کے بعد ہوا فاطمیوں کے ایک گروہ نے حاکم کو (نعوذ بااللہ) خدا مانا ان کے قائد مشہور نجمی داعی حسین بن حیدره فرغانی حمزہ بن زوزنی اور محمد بن اسماعیل درازی تھے محمد بن اسماعیل ایران میں ایک مقام "دراز" میں رہنے والا تھا اگرچہ اس فرقہ کا حقیقی بانی حمزہ بن زوزنی تھا لیکن محمد بن اسماعیل درازی کی نسبت سے یہ لوگ درازی کہلائے جو رفتہ رفتہ دروزی ہو گیا اختلاف عقائد کے بعد یہ لوگ مصر سے لبنان چلے گئے اور وہی ان کا صدرِ مقام ہوا اور ان کا تعلق اس زمانہ میں ہی مرکزی اسماعیلی دعوت سے کٹ گیا دروزی آگے چل کر دو حصوں میں بٹ گئے عقال اور جہال جہاں مذہبی پابندیوں سے آزاد ہیں موجودہ کیفیات علیحدہ باب میں بیان کی گئی ہیں۔

نزاریہ یا نزاری مشرقی اسماعیلی:

(ان کو حشیشین بھی کہا گیا ہے جس سے انگریزی لفظ Assasins نکلا دیکھیئے ڈکشنری Twentieth Century Chamber جس کے مختصر معنیٰ یہ ہیں "قتل کرنے والا" دیکھیئے The History of the Concise Oxford Assasins ازفان ہیمر ترجمہ چارلس)

فاطمیوں میں دوسرا اور شدید اختلاف ان کے امام المستنصر بااللہ کے انتقال کے وقت487ھ میں ہوا المستنصر کے بیٹوں اور مستعلی میں حقِ امامت سے متعلق اختلاف ہوال اس کشمکش میں نزار اور ان کا ایک بیٹا قتل ہوئے جب کہ نزار کے ایک بیٹے الہادی یا المبتدی کو مشہور حسن بن صباح پوشیدہ طریقہ سے ایران لے آیا ایران میں اس کی پرورش ہوئی نزار اور اس کے بیٹے کے متعلق بہت سی روایات ہیں اور اختلاف کی نوعیت یا ایسی ہی ہے جیسی کہ سیدنا جعفر صادقؒ کے زمانہ میں حضرات اسماعیل موسیٰ کاظمؒ میں ہوئی تھی بہرحال نزار اور اس کے بعد اس کی اولاد میں امامہ سلسلہ جاری رہنے کا ل "نزاری" کہلائے اور ان کا مرکز ابر قلعہ الموت (یہ قلعہ قزوین کے شمالی میں ضلع ردوہار میں واقع تھا اس کو "شکرے کا گھونسلہ کہا جاتا تھا بعض نے اس کو گدھ کا گھونسلہ بھی کہا ہے) ہو گیا ایران سے شام میں بھی اسماعیلی نزاری دعوت سلسلہ جاری رہا اور شام میں بھی نزاریوں کی خاصی تعداد رہی اگرچہ وہ آگے چل کر ایرانی مرکز سے علیحدہ ہو گئے ایرانی نزاریوں میں بھی کچھ عرصہ کے بعد اختلاف ہوا ساتویں صدی ہجری تیرہویں صدی عیسوی میں نزاری امام شمس الدین محمد کے زمانہ امامت میں نزاری دو حصوں میں بٹ گئے کچھ نزاریوں نے امام شمس الدین کے بیٹے قاسم شاہ کو امام تسلیم کیا اور باقی نزاریوں نے قاسم شاہ کے بھائی مؤمن شاہ کی اولاد میں محمد شاہ کو امام مانا پہلا گروہ قاسم شاہی کہلایا اور دوسرا محمد شاہی ناری امامت قاسم شاہی کا سلسلہ ایران میں جاری رہا ان کی دعوت کے مراکز آذربائیجان بابک، کہک، الجدان، کرمان، یزد اور محلات رہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں اس سلسلہ کے امام حسن علی خان المعروف بہ آغا خان اول 1258ھ 1842ء (تاریخِ ائمہ اسماعیلیہ: جلد، چہارم صفحہ، 25 آغا خان کا خطاب امام حسن علی خان کو ایران کے حکمراں فتح علی شاہ قاچار نے دیا تھا) میں افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان آئے ان کا حلقہِ اثر ممبئی و نواحی علاقوں میں رہا۔ آج کل اس سلسلہ کے 49 ویں امام کریم الحسینی المعروف به آغا خاں چہارم ہیں نزاریوں کے حاضر امام صاحب الزماں کہلاتے ہیں۔

خوجے:

ایران کی نزار امامت کے داعیوں نے ایران و شام کے علاؤہ شمالی ہندوستان کے صوبوں کشمیر پنجاب نیز گجرات میں بھی سرگرمی دکھلائی اس سلسلہ میں کئی نام آتے ہیں مثلاً نور الدین شاہ جو "نورست گردو" کے نام سے مشہور ہوئے پیر شمس سبزواری (جن کا مزار ملتان میں ہے) اور پیر صدر الدین اور ان کے بیٹے جنہوں نے ہندوؤں کے اصول اختیار کئے ان داعیوں کی کوششوں سے جو لوگ اسماعیلی ہو گئے ان کو خواجہ کیا گیا جو بجا کر "خوجہ" یا "کھوجہ" ہو گیا ان لوگوں میں سے بیشتر نے آگے چل کر یا تو اہلِ سنت کے عقائد اختیار کر لئے یا اثناء عشریوں میں شامل ہو گئے جو باقی رہ گئے ان میں سے اکثر پنجاب سندھ اور شمالی پاکستان میں موجود ہیں مگر یہ لوگ ممبئی و نواح کے خوجوں سے بالکل مختلف ہیں 

(آبِ کوثر شیخ محمد اکرام: صفحہ، 350، 351 ایضاً)

مستعلویہ یا اسماعیلیہ طیّبی:

فاطمیوں کے وہ افراد جنہوں نے 487ھ 1095ء میں نزار کی بجائے المنتصر بااللہ کے دوسرے بیٹے احمد المستعلی بااللہ کو امام و خلیفہ تسلیم کیا وہ نزاریہ کے مقابل مستعلویہ کہلائے آگے چل کر مستعلویوں کے آخری امام خلیفہ ابو علی منصور الآمر باحکام اللہ کو اس اختلاف کی بنا پر جو چلا آرہا تھا نزاریوں نے قتل کر دیا اور اس کے کمسن بیٹے کو غائب کر دیا گیا یا مستعلی اصطلاح میں اس نے غیبت اختیار کر لی اس طرح مستعلویہ میں دوبارہ دور ستر شروع ہو گیا جو تاحال جاری ہے مستعلویہ میں بھی انتشار پیدا ہوا اور فاطمی خلافتِ مصر کے خاتمہ سے قبل ہی ان کو اپنی دعوت کا مرکز یمن منتقل کرنا پڑا ان میں اگر چہ امام غیبت (امام کی غیبت میں مصر میں نائبین نے 524ھ سے 527ھ 1130ء سے 1172ء تک حکومت بھی کی) میں ہے لیکن دعوت کا سلسلہ داعیوں کے ذریعہ جاری ہے ان کا اعتقاد ہے کہ اگرچہ امام طیب غائب ہو گئے ہیں لیکن ان کی اولاد میں امامت کا سلسلہ برابر جاری ہے اگرچہ وہ امام وقت ہم کو نظر نہیں آتے مستعلویہ کو یمن میں مختصر مدت کے لئے اقتدار بھی ملا لیکن وہ قریباً پانچ سو سال تک یمن میں خاموش زندگی گزارتے رہے ان کی دعوت کو اس درمیان میں ہندوستان میں کامیابی ہوئی اور ان کا مرکز 946ھ 1540ء میں احمد آباد گجرات منتقل ہو گیا ہندوستان میں پہلا داعی یوسف بن سلیمان ہے احمد آباد میں 26 ویں داعی داؤد بن عجب شاہ کے انتقال کے وقت 999ھ 1591ء میں مستعلویہ دو حصوں میں بٹ گئے ان کی اکثریت نے داؤد من قطب شاہ کو 27 واں داعی مانا داؤد بن قطب شاہ کو داعی تسلیم کرنے والے "داؤدی" کہلائے جب کہ سلیمان بن حسن کو داعی تسلیم کرنے والے سلیمانی کہلائے یمن میں سلیمانی داعی موجود ہے اسی طرح برصغیرِ ہند و پاک میں 52ویں داؤدی داعی سیدنا ہرہان الدین ہیں یہ لوگ کلیتہ تجارت سے متعلق ہیں اس لئے بوہرے کہلاتے ہیں بوہرہ کے معنیٰ تاجر کے ہیں ان میں داؤدی و سلیمانی بوہروں کے علاوہ علیہّ اور مہدی باغ والے بھی ہیں ان کی زبان گجراتی ہے اس باب کا زیادہ تر حصہ تاریخِ فاطمینِ مصر: حصہ، دوم فصل، 31 سے لیا گیا ہے۔

نزاریوں آغا خانیوں میں حالیہ اختلاف:

1957ء میں نزاریوں کے 48 ویں امام سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کے انتقال کے بعد ان کے جانشین کے سلسلہ میں اختلاف ہو گیا ایک طبقہ نے جو باپ کے بعد بیٹے کی امامت کے قائل ہیں کریم الحسینی کو جو آغا خان سوئم کے پوتے ہیں 49 واں امام تسلیم کرنے سے انکار کر دیا یہ گروہ آغا خان سوئم کے بعد ان کے بیٹے علی سلمان خان کو جو شہزادہ علی خان کے نام سے مشہور تھے 49 واں امام مانتا ہے اور ان کے انتقال کے بعد ان کے دوسرے بیٹے امین احسینی کو پچاس واں امام مانتا ہے واضح رہے کہ اس اصول کو قائم رکھنے کے لئے نزاری حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو امام مانتے ہیں۔