قاضی شریح رحمۃ اللہ کی طرف منسوب فتوی جعلی ہے
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓقاضی شریح رحمۃ اللہ کی طرف منسوب فتویٰ جعلی ہے
شیعہ عالم محمد علی طباطبائی کا تحقیقی مؤقف
آیت اللہ محمد علی قاضی طباطبائی، جو ایک محقق و مجتہد تھا اس نے اپنی معروف کتاب "تحقیق درباره اوّل اربعین حضرت سید الشہداء" میں (صفحہ 61 تا 64) اس بات کو تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ قاضی شریح سے منسوب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا فتویٰ نہ صرف قدیم و معتبر مصادر میں موجود نہیں بلکہ یہ ایک جعلی روایت ہے۔
وہ اپنی تحقیق کے ایک مخصوص عنوان "تحقیقات در فتوای شریح و ثمرات الانوار" کے تحت لکھتا ہے:
"فتوای شریح را که جعلی بودنش از عبارات آن نمایان است"
یعنی: شریح سے منسوب فتویٰ جعلی ہے، اور اس کے جعلی ہونے کے آثار خود اس کی عبارت سے نمایاں ہیں۔
(حوالہ: تحقیق درباره اوّل اربعین حضرت سید الشہداء، صفحات 61 تا 64)
یعنی شیعہ عالم طباطبائی نے نہ صرف اس فتوے کی تاریخی بنیادوں کو مسترد کیا، بلکہ اس کی زبان اور اندازِ بیان کو بھی جعلی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ فتوی قدیم معتبر مصادر میں موجود نہیں بلکہ بعد میں گھڑا گیا ہے۔
شیعہ کے دوسرے محقق عالم علامہ شیخ محمد المحمدی ری شھری نے بھی اپنی اس کتاب کی جلد، 1 صفحہ، 48 پر لکھا ہے کہ
"قاضی شریح کے قتل حسین کے فتوے کو ہم بعد کے زمانے کے مصادر میں ہی پاتے ہیں (یعنی پہلے زمانے کے مصادر میں یہ موجود نہیں) جیسا کہ چودھویں صدی میں لکھی گئی تذکرہ الشہداء میں فتوى شريح القاضي بقتل الإمام الحسين عليه السلام ولكن ما اشتهر من فتواه بقتل الإمام الحسين عليه السلام، لا نجده إلّا في المصادر المتأخّرة
(مثل: تذكرة الشهداء الذي اُلّف في القرن الرابع عشر)
"جو بات مشہور ہے کہ قاضی شریح نے امام حسین کے قتل کا فتویٰ دیا، وہ ہمیں صرف بعد کے دور کی کتابوں میں ملتی ہے، جیسے چودہویں صدی میں لکھی گئی تذکرہ الشہداء میں۔"