Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اعمال کا فرق

  امام ابنِ تیمیہؒ

[اعمال کا فرق :]اب اللہ نے بندوں کو ان نیکیوں کا حکم دیا ہے جو نافع ہیں اور ان برائیوں سے روکا ہے جو مضر ہیں اور اللہ کو حسنات محبوب اور پسند ہیں جبکہ سیئات مبغوض اور ناپسند ہیں اور وہ ان کے مرتکبین پر ناراض ہے۔ چاہے یہ دونوں باتیں ہی اس کی مخلوق ہیں کہ اسی نے جبرائیل علیہ السلام اور ابلیس دونوں کو پیدا کیا ہے۔ جبکہ جبرائیل علیہ السلام اسے محبوب اور ابلیس اسے مبغوض ہے۔ اسی نے جنت و جہنم کو پیدا کیا ہے، اندھیرے اور روشنی بنائی ہے۔ سایہ اور گرمی پیدا کی ہے اور وہی موت و حیات کا خالق ہے۔ نر اور مادہ، اندھا اور بینا اسی کی مخلوق ہیں ۔اس کا ارشاد ہے:﴿لَا یَسْتَوِی اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَائِزُوْنَo﴾ (الحشر۲۰)’’آگ والے اور جنت والے برابر نہیں ہیں ، جوجنت والے ہیں ، وہی اصل کامیاب ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُo وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُo وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُo وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ﴾ (فاطر: ۱۹۔۲۲)
’’اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ۔ اور نہ اندھیرے اور نہ روشنی۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ۔ اور نہ زندے برابر ہیں اور نہ مردے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَo مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَo﴾ (القلم: ۳۵۔۳۶)’’تو کیا ہم فرماں برداروں کو مجرموں کی طرح کردیں گے؟ کیا ہے تمھیں ، تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِo﴾ (ص: ۲۸)’’کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، زمین میں فساد کرنے والوں کی طرح کر دیں گے؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے؟‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیَِّٔاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَo﴾ (الجاثیۃ: ۲۱)’’یا وہ لوگ جنھوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، انھوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم انھیں ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے؟ ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہو گا؟ برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں ۔‘‘طیب و خبیث چیزیں اسی اللہ نے پیدا کی ہیں حالانکہ دونوں ایک جیسی نہیں اور نہ پھل اور غلے بول و براز جیسے ہیں ، پاک کلمے اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور عمل صالح انھیں اوپر اٹھاتے ہیں ، وہ پاک ہے اور صرف پاک شے ہی قبول فرماتا ہے۔ وہ نظیف ہے اور نظافت کو پسند فرماتا ہے۔ جمیل ہے جمال کو محبوب رکھتا ہے ایسی بات نہیں کہ اس نے جو بھی پیدا کیا ہے، وہ اسی کی طرف چڑھتا بھی ہے۔ اسے صرف طیب ہی محبوب اور پسند ہے۔ جبکہ وہ اپنی جنت میں بھی انھیں ٹھہرائے گا جو جنت کے مناسب ہوں گے۔ اسی طرح جہنم بھی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَo﴾ (الزمر: ۷۳)’’تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ رہنے والے۔‘‘ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ :’’جب جنتی صراط عبور کر لیں گے تو جنت اور دوزخ کے درمیان (بچھے) ایک پل پر کھڑے ہو جائیں گے، وہاں ان کے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے ظلموں کا بدلہ لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان کی تہذیب و تنقیہ کر دیا جائے گا۔ پس وہ تہذیب و تنقیح کے بعد ہی جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘[1][1] صحیح البخاری: ۳؍۱۲۸۔ اس حدیث کی عبارت یہ ہے: ’’جب ایمان والے جہنم سے بچ جائیں گے تو انھیں جنت اور جہنم کے درمیان بچھے ایک پل پر روک دیا جائے گا، پس ان سے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے مظالم کا بدلہ لیا جائے گا، یہاں تک کہ جب ان کا تنقیہ و تہذیب ہو جائے گی تو انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! ان میں سے ہر ایک اپنے جنت کے ٹھکانے کو اپنے دنیا کے ٹھکانے سے زیادہ جاننے والے ہو گا۔‘‘ یہ حدیث ’’صحیح البخاری‘‘ (۸؍۱۱۱) میں بھی ہے۔ (دیکھیں : مسند احمد: ۳؍۱۳، ۵۷، ۶۳، ۷۴، طبعۃ الحلبی)جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَo﴾ (الزمر: ۷۳)’’تم پاکیزہ رہے، پس اس میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ رہنے والے۔‘‘جب ابلیس نے یہ کہا تھا:﴿اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍo قَالَ فَاہْبِطْ مِنْہَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْہَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَo﴾ (الاعراف: ۱۲۔۱۳)’’میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ فرمایا پھر اس سے اتر جا، تجھے روا نہیں کہ اس میں تکبر کرے۔ سو نکل جا، یقیناً تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے۔‘‘تو رب تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ جنت والوں کو تکبر زیبا نہیں ۔صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا، وہ جہنم میں داخل نہ ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی اچھی ہو، کیا یہ بھی تکبر میں سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں ! بے شک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر تو حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘[سبق تخریجہ]یعنی رب تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ رب تعالیٰ کے لیے خود کو سنوارے اور آراستہ کر لے، جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾ (الاعراف: ۳۱) ’’ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔‘‘لہٰذا بندے کا ننگا ہو کر نماز ادا کرنا رب تعالیٰ کو ناپسند ہو گا بلکہ اللہ کو تو عورت کا ننگے سر نماز پڑھنا بھی پسند نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’بالغہ کی نماز اوڑھنی اوڑھ کر ہی عنداللہ مقبول ہوتی ہے۔‘‘[2][2] جامع الترمذی: ۱؍۲۳۴۔ سنن ابن ماجہ: ۱؍۲۱۳۔ مسند احمد: ۶؍۲۱۸، ۲۵۹، ط: الحلبی۔ یہی وجہ ہے کہ ننگے ہو کر طواف کرنے والے مشرکوں نے جب یہ کہا تھا کہ یہ امر الٰہی ہے تو رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (الاعراف: ۲۸)’’بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔‘‘لہٰذا نماز اور عبادت کے لیے اچھے کپڑے اور جوتے پہننا، اس تجمل میں سے ہے جو رب تعالیٰ کو محبوب ہے۔ لیکن اگر یہی تزئین کسی معصیت کے لیے ہو تو رب تعالیٰ کو ہرگز بھی محبوب نہیں ۔ جس مومن کے دل کو رب تعالیٰ نے نورِ ایمان سے منور کر دیا ہوتا ہے، یہ نور اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے اور اس پر محبت و ہیبت کو ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ منافق کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔رہی نری صورت، چاہے وہ حسین اور شہوت انگیز ہی ہو، جیسے مردوں کی عورتوں کے لیے شہوت اور عورتوں کی مردوں کے لیے شہوت اور چاہے وہ صورت شہوت انگیز نہ ہو، پس ایک صحیح حدیث میں آتا ہے:’’بے شک اللہ تمھاری صورتوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا، البتہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘[1][1] صحیح مسلم: ۴؍۱۹۸۷۔ سنن ابن ماجہ: ۲؍۱۳۸۸۔ مسند احمد: ۱۴؍۲۷۷، رقم الحدیث: ۷۸۱۴، طبعۃ الحلبی۔لباس کی طرف نہ دیکھنا بھی اس حکم میں داخل ہے۔نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّاo وَکَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّ رِئْ یًاo﴾ (مریم: ۷۳۔۷۴)’’اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان لوگوں سے کہتے ہیں جو ایمان لائے کہ دونوں گروہوں میں سے کون مقام میں بہتر اور مجلس کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔ اور ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے جو سازوسامان میں اور دیکھنے میں کہیں اچھے تھے۔‘‘’’الاثاث‘‘ یہ لباس اور مال کو جبکہ ’’الرِّئي‘‘ صورت اور ظاہری حالت کو کہتے ہیں ۔