اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی﴾ (البقرۃ: ۲۶۴)’’اپنے صدقے احسان رکھنے اور تکلیف پہنچانے سے برباد مت کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo﴾ (الحجرات: ۲)’’اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہوکہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ﴾ (محمد: ۲۸)’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘یہ اور ان کے علاوہ دیگر نصوص بتلاتی ہیں کہ گزشتہ اعمال سیئات کی وجہ سے برباد اور اکارت ہو جاتے ہیں اور عمل صرف تقویٰ کے ساتھ ہی مقبول ہوتا ہے اور وعدہ صرف مومن کے لیے ہے جبکہ یہ لوگ مومن ہی نہیں جس کی دلیل یہ ارشاداتِ باری تعالیٰ ہیں :﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ﴾ (الانفال: ۲)’’(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَo﴾ (الحجرات: ۱۵)’’مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایما ن لائے، پھر انھوں نے شک نہیں کیا اور انھوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہا د کیا۔ یہی لوگ سچے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَo﴾ (السجدۃ: ۱۸)’’تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔‘‘پس فاسق مومن نہیں ۔ لہٰذا وعدہ کی نصوص اسے شامل نہیں ۔اس کی دلیل یہ صحیح حدیث بھی ہے۔ چنانچہ نبی کیرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’کوئی زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اور کوئی شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں ہوتا اور کوئی چور چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا۔‘‘ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:’’جس نے ہمارے ساتھ ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘[1][1] صحیح مسلم: ۱؍۹۹۔ مسند احمد: ۱۸؍۱۰۰ طبعۃ المعارف۔ اور دوسری حدیث حضرت ابن عمر، حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور یہ حدیث ’’صحیح البخاری‘‘ (۹؍۴) میں مروی ہے۔ اس کے علاوہ ’’صحیح مسلم‘‘ (۱؍۹۸) میں بھی مروی ہے۔ جبکہ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا اور لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث ’’سنن ابی داود‘‘ (۳؍۳۷۰)، ’’جامع ترمذی‘‘ (۲؍۳۸۹) اور ’’مسند احمد‘‘ میں متعدد مقامات پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حسن اور صحیح ہے۔ اہل علم کے ہاں اسی حدیث پر علم ہے۔ ان کے نزدیک ملاوٹ کرنا مکروہ ہے اور بعض نے اسے حرام بھی کہا ہے۔