Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

متکلمین کی حالت

  امام ابنِ تیمیہؒ

[متکلمین کی حالت:]غرض یہ ہے وہ علم جو ان لوگوں کی کتابوں میں لکھا ہے۔ یہ لوگ باطل سے باطل کا ردّ کرتے ہیں اور وہ دونوں ڈ اقوال ہی باطل ہوتے ہیں ۔ اسی لیے اکثر ائمہ سلف و خلف کے نزدیک یہ علم باطل اور مذموم ہے کیونکہ اس علم کے اکثر قائلین کو اپنے اقوال کا باطل ہونا معلوم ہی نہیں ہوتا۔لیکن بہرحال یہ لوگ ایک دوسرے کے باطل کے عیوب کو بیان کرتے اور اس کی مذمت بیان کرتے ہیں جس سے کسی کا بھلا ہو جاتا ہے۔جیسے ان لوگوں کا رب تعالیٰ کے اسماء اور احکام کے مسائل میں اور وعد و وعید میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنا، چنانچہ خوارج اور معتزلہ کہتے ہیں : کبیرہ کا وہ مرتکب جس نے اس سے توبہ نہ کی ہو وہ مخلد فی النار ہو گا۔ اور اس کے پاس ذرہ برابر بھی ایمان نہیں ہوتا۔ پھر خوارج مرتکب کبیرہ کو کافر بھی کہتے ہیں ، جبکہ معتزلہ حکم میں تو ان کے موافق ہیں البتہ مرتکب کبیرہ کا نام کافر رکھنے میں ان کے خلاف ہیں ۔ ادھر مرجئہ مرتکب کبیرہ کو کامل الایمان مومن باور کرتے ہیں کہ اس کے ایمان میں کوئی کمی نہیں بلکہ اس کا ایمان نبیوں اور ولیوں کے ایمان جیسا ہے۔ یہ ’’نام‘‘ میں اختلاف کا بیان ہے۔ پھر مرتکبین کبیرہ کے بارے میں ان کے فقہاء وہ کہتے ہیں جو اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں ۔ چنانچہ ان میں سے بعض جہنم میں داخل ہوں گے اور بعض داخل نہیں ہوں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں ؛ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کا اس بات پر اتفاق ہے۔یہ لوگ مرتکبین کبائر کے اخروی حکم کی بابت اہل سنت و الحدیث سے کوئی اختلاف نہیں کرتے، ان کا اختلاف صرف ان کا نام رکھنے کے بارے میں ہے اور اس کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ جو کہتا تو ہے مگر مرتکب نہیں ہوتا۔ اکثر مرجئہ کا قول ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اہل قبلہ میں سے کوئی مرتکب کبیرہ جہنم میں داخل ہو گا اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں داخل ہو گا۔ بلکہ دیگر فساق و فجار کے ساتھ اس کا جہنم میں داخل ہونا بھی ممکن ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہ ہو، جبکہ بعض داخل بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان لوگوں کا یہ بھی قول ہے کہ گناہ کر کے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہونا قطعی امر نہیں ۔ بلکہ ایسا شخص بھی جہنم میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ ان سب باتوں میں توقف کا شکار ہیں ۔ اسی لیے انھیں ’’الواقفۃ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ اشعریہ میں سے قاضی ابوبکر وغیرہ کا قول ہے۔ یہ لوگ وعید کی نصوص اور ان کے عموم سے استدلال کرتے ہیں اور دوسرے لوگ وعید کی نصوص اور ان کے عموم سے ان کا معارضہ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فساق وعدہ کی نصوص میں داخل نہیں کیونکہ ان کی کوئی نیکی نہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ متقین میں سے نہیں ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo﴾ (المائدۃ: ۲۷)’’اس نے کہا بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی﴾ (البقرۃ: ۲۶۴)’’اپنے صدقے احسان رکھنے اور تکلیف پہنچانے سے برباد مت کرو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo﴾ (الحجرات: ۲)’’اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہوکہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ﴾ (محمد: ۲۸)’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘یہ اور ان کے علاوہ دیگر نصوص بتلاتی ہیں کہ گزشتہ اعمال سیئات کی وجہ سے برباد اور اکارت ہو جاتے ہیں اور عمل صرف تقویٰ کے ساتھ ہی مقبول ہوتا ہے اور وعدہ صرف مومن کے لیے ہے جبکہ یہ لوگ مومن ہی نہیں جس کی دلیل یہ ارشاداتِ باری تعالیٰ ہیں :﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ﴾ (الانفال: ۲)’’(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَo﴾ (الحجرات: ۱۵)’’مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایما ن لائے، پھر انھوں نے شک نہیں کیا اور انھوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہا د کیا۔ یہی لوگ سچے ہیں ۔‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَo﴾ (السجدۃ: ۱۸)’’تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔‘‘
پس فاسق مومن نہیں ۔ لہٰذا وعدہ کی نصوص اسے شامل نہیں ۔اس کی دلیل یہ صحیح حدیث بھی ہے۔ چنانچہ نبی کیرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’کوئی زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا اور کوئی شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں ہوتا اور کوئی چور چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا۔‘‘ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:’’جس نے ہمارے ساتھ ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘[1][1] صحیح مسلم: ۱؍۹۹۔ مسند احمد: ۱۸؍۱۰۰ طبعۃ المعارف۔ اور دوسری حدیث حضرت ابن عمر، حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور یہ حدیث ’’صحیح البخاری‘‘ (۹؍۴) میں مروی ہے۔ اس کے علاوہ ’’صحیح مسلم‘‘ (۱؍۹۸) میں بھی مروی ہے۔ جبکہ مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا اور لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث ’’سنن ابی داود‘‘ (۳؍۳۷۰)، ’’جامع ترمذی‘‘ (۲؍۳۸۹) اور ’’مسند احمد‘‘ میں متعدد مقامات پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ حسن اور صحیح ہے۔ اہل علم کے ہاں اسی حدیث پر علم ہے۔ ان کے نزدیک ملاوٹ کرنا مکروہ ہے اور بعض نے اسے حرام بھی کہا ہے۔