Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اذان میں حی علی خیر العمل کے الفاظ

  محمد عثمان رشید

اذان میں حی علی خیر العمل کے الفاظ

 اس کا اضافہ سیدنا عبدالله ابنِ عمر رضی الله عنہ اور سیدنا زین عابدینؒ علی بن حسینؓ نے کیا
مصنف ابنِ ابی شیبہؒ کی روایت ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَمُسْلِمِ بْنِ أَبِی مَرْيَمَ، أَنَّ عَلِی بْنَ حُسَيْنٍ، كَانَ يُؤَذِّنُ، فَإِذَا بَلَغَ حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: حَیَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ، وَيَقُولُ: هُوَ الْأَذَانُ الْأَوَّلُ
ترجمہ: سیدنا جعفرؒ اپنے والد اور مسلم بن ابی مریم سے وہ سیدنا علی بن حسینؓ کہ انہوں نے اذان دی پس جب حَیَّ علی الفلاح پر پہنچے تو کہا حی علی خیر العمل اور کہا کہ یہ اذان اول ہے۔
اسی کتاب میں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِی أَذَانِهِ: الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ، وَ رُبَّمَا قَالَ: حَیَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ
سیدنا ابنِ عمرؓ جب اذان دیتے تو کہتے
الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ
اور کبھی کہتے
حَیَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ
لیکن تواتر سے یہ الفاظ نقل نہیں ہوئے صرف سیدنا ابنِ عمرؓ اور سیدنا علی بن حسین کے لیے ملتا ہے کہ انہوں نے ان الفاظ کو اذان میں ادا کیا لیکن وہ کہتے ہیں یہ اذان اول ہے۔ اس کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بدعات کی شروعات نہیں ہوئیں
بیہقی سنن الکبریٰ میں کہتے ہیں
قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذِهِ اللفظةُ لَمْ تَثْبُتْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا عَلَّمَ بِلَالًا وَأَبَا مَحْذُورَةَ وَنَحْنُ نَكْرَهُ الزِّيَادَةَ فِيهِ
ترجمہ: یہ الفاظ نبی کریمﷺ سےثابت نہیں جیسا کہ سیدنا بلالؓ اور سیدنا ابو مَحْذُورَةَؓ نے سکھائے اور ہم اس زیادت کا انکار کریں گے۔
علمِ حدیث کا اصول ہے کہ بعض اوقات زیادت ثقہ بھی قبول کی جاتی ہے لہٰذا بیہقی کا یہ کہنا مناسب نہیں صاف بات یہ ہے کہ یہ الفاظ تواتر سے نہیں ملے لہٰذا ان کو نہیں کہا جاتا
"عن ابی محذوره رضی الله عنه قال کنت غلاما فقال النبی صلی الله علیه وسلم: اجعل فی آخر اذانک حی علی خیر العمل."
علامه ذہبی ابوبکر احمد بن محمد بن السری بن ابی دارم الکوفی الرفضی کے ترجمہ
"عن الحمانی عن ابی بکر بن عیاش عن عبدالعزیز بن رفیع عن ابی محذوره رضی الله عنه قال کنت غلاما فقال النبیﷺ اجعل فی آخر اذانک حی علی خیر العمل."
(میزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 139)
اس کے مقابلے میں ایک صحیح روایت جس میں
"الصلاۃ خیر من النوم" کے الفاظ ذکر کیے ہیں
(التلخیص: جلد، 1 صفحہ، 363 معجم الکبیر: جلد، 7 صفحہ، 209 دارِقطنی فی السنن: جلد، 1 صفحہ، 237)
حی علی خیر العمل کا جو اضافہ ذہبی نے ذکر کیا ہے تو اس کو ابوبکر بن ابی دارم نے وضع کیا ہے۔
اسکے متعلق ائمہ محدثین کی تصراحات ملاحظہ فرمائیں:
حاکم: رافضی غیر ثقہ ابوبکر حاکم کے استاد ہیں۔
محمد بن احمد بن حماد الکوفی نے کہا ہے کہ اس نے متعدد روایات اپنے مذہب کی تائید میں وضع کی ہیں۔ اور علامہ ذہبی نے اس کو رافضی کذاب بتایا ہے۔ نیز اس کو شیخ ضال معثر کہتے ہیں۔
(میزان الاعتدال: جلد، 1 صفحہ، 139 سیر اعلام النبلاء: جلد، 15 صفحہ، 578)
اور لسان میں ابنِ حجرؒ نے اس کو کذاب خبیث اور حی علی خیر عمل کا اضافہ کرنے والا بتایا ہے۔
ایک روایت حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جس میں حی علی خیر العمل کا ذکر ہے۔
(الکبیر للطبرانی: جلد، 1 صفحہ، 237 رقم 1071 السنن لکبریٰ للبیہقی: جلد، 1 صفحہ، 425)
اس کی سند یوں بیان ہوئی:
"عن یعقوب بن حمید بن کاسب عن عبدالرحمٰن بن سعد المؤذن عن عبدالله بن محمد بن عمار و عمار و عمر ابنی حفص بن عمر بن سعد عن ابائھم عن اجدادھم عن بلال..."
اس کی سند سخت ضعیف ہے:
1: یعقوب بن حمید بن کاسب مختلف فیہ راوی ہے اس کے بارے میں ابنِ معین کے مختلف اقوال ملتے ہیں۔
ابنِ معین نے اس کو ثقہ مامون ثقہ لیس بثقہ کذاب خبیث وغیره بتایا ہے۔
(تاریخ الدوری: جلد، 1 صفحہ، 681 الکامل جلد، 7 صفحہ، 2608 میزان: جلد، 4 صفحہ، 450 تاریخ ابنِ ابی خیثمہ جلد، 1 صفحہ، 296، 297 معرفہ الرجال ابنِ محرز جلد، 1 صفحہ، 52 ت، 20)
نسائی نے لیس بشی بتایا ہے۔
(الضعفاء: صفحہ، 245)
ابو زرعہ قلبی لا یسکن علی ابنِ کاسب
(جرح و تعدیل: جلد، 9 صفحہ، 206 نیز تہذیب الکمال: جلد، 23 صفحہ، 321)
ابوداؤد "راینا فی مسنده احادیث انکرناها فطالبناه بالاصول فدافعنا ثم اخرجھا بعد فوجدنا الاحادیث فی الاصول مغیرۃ بخط طری کنت مراسیل فاسندها وزاد فیھا"
(تہذیب لابنِ حجر: جلد، 4 صفحہ، 441 نیز الضعفاء للعقیلی: جلد، 4 صفحہ، 1550 ت، 2079)
ابو حاتم ضعیف الحدیث
(جرح و تعدیل: جلد، 9 صفحہ، 206 ت، 861)
ذہبی ضعیف.
(تلخیص المستدرک: جلد، 3 صفحہ، 196)
نیز سیر اعلام النبلاء میں حافظ محدث الکبیر لکھتے ہیں۔
ابنِ حجر صدوق ربما وهم
(تقریب: صفحہ، 7815)
بہرحال اس راوی میں حفظ کی وجہ سے کلام ہوا ہے ابنِ عدی کہتے ہیں کہ یہ کثیر روایات راوی ہے اور اس کی کثیر تعداد میں غریب روایات بھی ہیں۔
عقیلی کہتے ہیں:
لا یتابع علیه بھرحال لا باس به کما ذکر ابنِ عدی
تفصیلی ترجمہ کے لیے دیکھیں
(الکبیر للبخاری: جلد، 8 صفحہ، 401 الصغیر: جلد، 2 صفحہ، 374 الضعفاء: صفحہ، 451 جرح و تعدیل: جلد، 9 صفحہ، 206 الکامل: صفحہ، 357 الکمال: صفحہ، 1548 تذکرۃ الحفاظ: جلد، 3 صفحہ، 466، 467 العبر: جلد، 1 صفحہ، 436 میزان: جلد، 4 صفحہ، 450، 451 تہذیب للذہبی جلد، 4 صفحہ، 184 العقد الثمین: جلد، 7 صفحہ، 474 تہذیب لابنِ حجر: جلد، 11 صفحہ، 383 طبقات الحفاظ: صفحہ، 202 خلاصہ تہذیب الکمال: صفحہ، 436 شذرات الذہب جلد، 2 صفحہ، 99)
بہرحال جب اس کی غریب روایات بھی ہیں تو پھر متابع نہ ہونے کی وجہ سے کلام ہو سکتا ہے والله اعلم
اس کا دوسرا راوی عبدالرحمٰن بن سعد بن عمار بن سعد القرظ الموذن ہے جس کو ابنِ معین نے ضعیف کہا ہے۔
(تاریخ ابنِ ابی خیثمہ جلد، 2 صفحہ، 352 ت، 3334)
بخاری فیہ نظر
(تاریخ الکبیر: جلد، 5 صفحہ، 287 ت، 933)
ابو احمد الحاکم حدیثہ لیس بالقائم
(تہذیب لابنِ حجر: جلد، 2 صفحہ، 510)
ذہبی فی حدیثہ نکارۃ
(المغنی: صفحہ، 3570)
ابنِ حجر ضعیف
(تقریب: صفحہ، 3873)
شوکانی ضعیف
(نیل الاوطار: جلد، 3 صفحہ، 346)
ابنِ ابی عاصم ضعیف
(الاحاد والمثانی: جلد، 1 صفحہ، 65)
ترکمانی حنفی نے اس کو منکر الحدیث بتایا ہے
(جواہر النقی: جلد، 3 صفحہ، 286)
اس میں تیسرا راوی ابنِ معین سے عبداللہ بن محمد بن عمار و عمار ابنا حفص بن عمر بن سعد و عمار و عمر ابنا حفص بن عمر بن سعد عن ابائھم عن اجدادهم کے متعلق پوچھا ہه ان کا کیا حال ہے۔ تو جواب دیا لیسوا بشیء۔
(تاریخ الدارمی: صفحہ، 606)
اور عمر و عمار ابنا حفص کو ابنِ حبان نے ثقات جلد، 7 صفحہ، 170 جلد، 8 صفحہ، 516 میں ذکر کیا ہے۔
ہیثمی کہتے ہیں:
"فیه عبدالرحمٰن بن عمار بن سعد وقد ضعفه ابن معین."
(مجمع الزوائد: جلد، 1 صفحہ، 330)
ابنِ قطان فاسی کہتے ہیں۔
لا یعرف حاله ولا حال ابیه وجده مجہول الحال
(الجواہر النقی: صفحہ، 394)
نیز ارواء الغلیل جلد، 3 صفحہ، 120
ان پر جرح کے لیے دیکھیے:
(الضعفاء للعقیلی: جلد، 2 صفحہ، 300 الجرح و تعدیل: جلد، 6 صفحہ، 103 الجواہر النقی: جلد، 3 صفحہ، 287 المغنی: جلد، 2 صفحہ، 464 تہذیب لابنِ حجر: جلد، 6 صفحہ، 183 تہذیب الکمال: جلد، 21 صفحہ، 302 تحریر تقریب التاریخ الکبیر للبخاری: جلد، 5 صفحہ، 287 لسان المیزان: جلد، 4 صفحہ، 271 الجرح و تعدیل جلد، 6 صفحہ، 392 معرفہ علوم الحدیث للحاکم صفحہ، 70 النوع الخامس عشر)
امام بیہقی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"قال الشیخ و هذه اللفظه لم تثبت عن النبی صلی الله علیه وسلم فیھا علم بلالا وابا محذور ونحن نکره الزیادۃ فیه بالله التوفیق."
کہتے ہیں کہ یہ الفاظ نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں جیسا کے حضرت بلالؓ اور حضرت ابو محذورهؓ نے سکھائے اور ہم اس زیادۃ کا انکار کریں گے۔
نیز اس میں عبداللہ بن محمد بھی ضعیف ہے۔
(الجوہر النقی: جلد، 1 صفحہ، 395 جلد، 3 صفحہ، 287)
ایک اثر سیدنا ابنِ عمر رضی الله عنہ سے ملتا ہے جس میں حی علی خیر العمل کا ذکر ہے۔
ان کا اثر متعدد طرق سے مروی ہے۔
جس میں آیا کہ آپؓ اذان میں حی علی خیر العمل کہتے۔
(ابنِ ابی شیبه جلد، 1 صفحہ، 215 عبدالرزاق جلد، 1 صفحہ، 460، 464 ح، 1786، 1797 البیہقی الکبریٰ جلد، 1 صفحہ، 434 425)
اب اس کی تفصیل دیکھیں:
ایک روایت میں آیا کہ
سیدنا ابنِ عمر رضی الله عنہ یکبر فی النداء ثلاثا و یشهد ثلاثا وکان احیانا اذا قال حی علی الفلاح قال علی اثرھا حی علی خیر العمل
(الکبریٰ للبیہقی: جلد، 1 صفحہ، 424)
کے تین بار آذان میں حی علی الفلاح کہتے اور بعض اوقات حی علی خیر العمل کہتے۔
اور بعض میں ہے جب سفر میں ہوتے تو کہتے ہیں۔
(ایضاً)
اور بعض میں ہے کہ
لا یوذن فی سفره وکان یقول حی علی الفلاح واحیانا یقول حی علی خیر العمل
(ایضاً)
ترجمہ: یعنی سفر میں وه اذان نہیں دیتے تھے وه صرف حی علی الفلاح اور کبھی حی علی خیر العمل کہتے۔
اور بعض میں ہے 
یقیم الصلاۃ فی السفر یقولھا مرتین او ثلاثا یقول حی علی الصلاۃ حی علی الصلاۃ حی علی خیر العمل
(عبدالرزاق ح، 1797 جلد، 1 صفحہ، 464)
جب وه سفر میں نماز پڑهتے تو تین یا دو بار حی علی الصلاۃ کہتے اور پھر حی علی خیر العمل کہتے۔
حبیب الرحمٰن الاعظمی نے اس اثر کے تحت کہا ہے کہ:
"معنی الاثر انه کان لا یوذن فی السفر بل یکتفی بالاقامه ویکتفی من الاقامه بقوله حی علی الصلاۃ مرتین او ثلاثا
ترجمہ: یعنی وه سفر میں اذان نہیں دیتے تھے وه صرف اقامت (کے ان الفاظ پر) اکتفا کرتے حی علی الصلاۃ۔
الشیخ بکر ابو زید کہتے ہیں:
"واما المروی عن ابنِ عمر رضی الله عنهما فان هذا کان منه بالسفر اذ کان لا یری الاذان فیه و یفعله علی سبیل الایذان والتنبیه لا علی انه لفظ مسنون اما وقد اصبح شعارا للرافضه فیجب هجره حتی ولو فی المباح من الکلام"
(تصحیح الدعاء: صفحہ، 379)
ترجمہ: ابو زید کہتے ہیں اور رہی وه عبارت جو حضرت ابنِ عمرؓ سے بیان کی گئی ہے تو بے شک وه سفر کے متعلق بیان کی گئی ہے اور اس میں اذان کو ذکر نہیں کرتے اور اس تنبیہ اذان کے قائم مقام میں سمجھتے یه بات نہیں کے بے شک وه الفاظ منسون نہیں ہیں جیسا کہ را‌فضہ نے سمجھ لیا۔
اس کے علاوه اس طرح کے الفاظ کا ذکر ابی امامہ بن سہل بن حنیف کی طرف بھی منسوب کیے جاتے ہیں محب طبری احکامہ میں کہتے ہیں اس کو سعید بن منصور نے سنن میں ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند پیش نہیں کی۔ نیز بیہقی نے بھی اشاره کیا ہے۔
(دیکھیے نیل الاوطار: جلد، 1 صفحہ، 531 السنن الکبریٰ ابنِ عمر کے اثر ذکر کرنے کے بعد)
یعنی اس کی سند موجود نہیں۔
ابنِ حزم کہتے ہیں:
"وقد صح عن ابنِ عمر و ابی امامه بن سھل بن حنیف انھم کانوا یقولون فی اذانھم حی علی خیر العمل, ولا نقول به لانه لم یصح عن النبی صلی الله علیه وسلم حجه فی احد دونه"
(المحلی: جلد، 3 صفحہ، 160)
شیخ السلام کہتے ہیں:
"کما یعلم ان حی علی خیر العمل لم یکن من الاذان الراتب وانما فعله بعض الصحابه لعارض تحضیضا للناس علی الصلاۃ"
(مجموع الفتاویٰ: جلد، 23 صفحہ، 103)
ابنِ ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ اذان الاول تھی۔
اہلِ علم نے اس زیادۃ حی علی خیر العمل کو اذان میں بدعت کہا ہے۔
(منہاج السنہ: جلد، 6 صفحہ، 293، 294 الدرر السنیہ لعبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب: جلد، 4 صفحہ، 206، 207 ابنِ باز نے مجموع الفتاویٰ و مقالات متنوعہ: جلد، 4 صفحہ، 260، 261جلد، 10 صفحہ، 353، 354 فتاویٰ الجنہ الدائمہ جلد، 6 صفحہ، 95، 96)
لہٰذا جب وه اذان میں اس کو کہتے ہی نہیں تھے تو پھر اس کو اذان میں اضافہ کی دلیل کیسے سمجھا جاتا ہے۔
اللہ سمجھنے کی توفیق دے۔
 حی علیٰ خیر العمل اذان كا جزء نہیں ہے، اس بارے میں اہلِ سنت كے دلائل
1: معتبر احادیث كے ذریعہ ثابت نہیں ہوتا كہ" حی علی خیر العمل" اذان كی فصل ہے، اور جن مصادر میں اس كا ذكر آیا ہے جیسے سنن الكبریٰ؛ للبیہقی اور المصنف لابی شیبہ، تو ان كی دوسرے درجہ كی حیثیت ہے۔
2: جن روایات سے اس جملہ كا جزءِ اذان ہونا ثابت ہوتا ہے وہ سب روایات ضعیف ہیں، لہٰذا یہ روایتیں درجۂ اعتبار سے ساقط ہیں۔
3: اگرچہ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے كہ صحابہ كرام رضی اللہ عنہم اپنے زمانہ میں اس فصل كو اذان میں كہتے تھے، لیكن ہمارے لیے رسول خداﷺ كا قول و فعل حجت ہے صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كا نہیں۔