Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مؤقف خوارج کے متعلق

  امام ابنِ تیمیہؒ

[حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مؤقف خوارج کے متعلق]رہی اس بات کی دلیل کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوارج کی تکفیر کے قائل نہ تھے، تو وہ یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوارج کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نجدہ حروری کے پیچھے نماز ادا کر لیا کرتے تھے اور انھیں حدیث بھی بیان کرتے، انھیں فتویٰ بھی دیتے اور ان سے ایک مسلمان کی طرح بات چیت بھی کرتے تھے۔ چنانچہ نجدہ حروری نے جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے چند مسائل پچھوا بھیجے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کا جواب عنایت فرمایا۔ یہ پوری حدیث صحیح بخاری میں مندرج ہے۔[1][1] یہ حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ (۳؍۱۴۴۴۔۱۴۴۵) کتاب الجہاد و السیر، باب النساء الغازیات یرضع لہن، میں یزید بن ہرمز کی روایت سے موجود ہے کہ نجدہ حروری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پانچ باتوں کی بابت لکھ بھیجا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر میں اسے کتمانِ علم نہ سمجھتا تو اسے کوئی جواب نہ لکھ بھیجتا۔ الحدیث ’مسند احمد‘‘ طبع ’’المعارف‘‘ میں یہ حدیث ارقام (۱۹۶۷، ۲۲۳۵، ۶۸۵، ۲۸۱۲ اور ۲۹۱۴) میں موجود ہے۔ احمد شاکر نے ذکر کیا ہے کہ یہ حدیث سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن بیہقی اور سنن شوکانی میں بھی ہے۔ بہرحال مجھے یہ حدیث صحیح بخاری میں نہیں ملی۔ جیسا کہ آپ نے نافع بن ازرق کے چند مشہور سوالات کے جوابات دئیے تھے۔[1][1] نجدہ بن عامر حروری المتوفی ۶۹ھ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھ کر چند فقہی مسائل پوچھے تھے۔ سزکین نے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ ’’الانساب للبلاذری‘‘ (۱؍۷۱۵) اور ’’لسان المیزان‘‘ لابن حجر (۶؍۱۴۸) میں مذکور ہے۔ ہمیں ان مراسلات کا بعض حصہ ’’المدونۃ‘‘ (۳؍۶) میں مذکور کلا ہے۔ اس طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نافع کو بھی اس کے پوچھے گئے چند سوالات کے جوابات لکھ بھیجے تھے۔ (دیکھیں : العلل لابن حاتم الرازی: ۱؍۳۰۷) نافع آپ کے ساتھ قرآن کے ذریعے یوں مناظرہ کیا کرتا تھا جیسے دو مسلمان ایک دوسرے سے کسی بات پر مناظرہ کرتے ہیں ۔غرض خوارج کے بارے میں مسلمانوں کا طرز یہی رہا، مسلمانوں نے انھیں ان مرتدین کے جیسا باور نہ کیا تھا جن کے ساتھ جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قتال کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ صحیح احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قتال کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ’’خوارج آسمان کے نیچے قتل ہونے والوں میں سب سے بدترین ہیں (اور) سب سے بہتر قتل ہونے والا وہ جسے یہ خوارج قتل کر دیں ۔‘‘یہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جسے امام ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔[2] [2] سنن الترمذی، کتاب التفسیر من سورۃ آل عمران: ۴؍۲۹۴۔ یہ حدیث حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کی عبارت یہ ہے: ابوغالب سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے دمشق کے راستوں اور سیڑھیوں میں چند سروں کو لٹکتے دیکھا تو فرمایا: یہ دوزخ کے کتے ہیں ۔ آسمان کی چھت تلے قتل ہونے والے یہ بدترین لوگ ہیں (اور) جنھیں یہ قتل کر دیں وہ سب سے بہتر قتل وہنے والے ہیں ۔ پھر حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت آخر تک تلاوت کی:﴿یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ﴾ (آل عمران: ۱۰۶) ’’جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘ میں نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے خود سنی ہے؟ انھوں نے فرمایا: اگر میں یہ حدیث ایک بار، یا دو بار، یہاں تک کہ سات بار فرمایا کہ اگر میں نے یہ حدیث سات بار تک نہ سنی ہوتی تو میں تم لوگوں کو یہ حدیث نہ سناتا۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔ یہ حدیث ’’سنن ابن ماجہ‘‘ (۱؍۶۲) المقدمۃ، باب فی ذکر الخوارج اور ’’مسند احمد‘‘ (۵؍۲۵۳، ۲۵۶) طبع حلبی میں مطولاً ذکر ہے۔ یعنی خوارج مسلمانوں کے حق میں دوسروں سے زیادہ بدتر اور شریر ہیں ۔ حتیٰ کہ اتنے شریر اور بدتر نہ یہود ہیں اور نہ نصاری ہیں ۔ کیونکہ ان کا یہ بدترین اجتہاد تھا کہ جو مسلمان بھی ان کی رائے کا ہم نوا نہ ہو، اسے قتل کر دینا جائز ہے۔ چنانچہ یہ مسلمانوں کو اس تاویل سے کافر قرار دے کر انھیں اور ان کے بیوی بچوں کو قتل کر دینا اور ان کے اموال لوٹ لینا حلال سمجھتے تھے۔ ان لوگوں نے اس بدتر گناہ کو اپنی عظیم ترین جہالت اور گمراہ کن بدعت کی بنا پر اپنا دین سمجھ رکھا تھا۔لیکن اس سب کے باوجود بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ نہ انھیں کافر سمجھتے تھے نہ مرتد قرار دیتے تھے، اور نہ کسی قول و فعل سے ان پر ظلم و اعتدا ہی کرتے تھے۔ بلکہ ان خوارج کی بابت رب تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور ان کے ساتھ عادلانہ رویہ اپنائے رکھتے تھے اور شیعہ اور معتزلہ وغیرہ کے باقی بدعتی فرقوں اور اہل ہواء کے بارے میں بھی یہی مسلک ہے کہ جو بھی بہتر فرقوں کی تکفیر کا قائل ہو گا وہ کتاب و سنت کا مخالف اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ کے اجماع کا مخالف ہو گا۔ اس میں مستزاد یہ کہ بہتر فرقوں والی حدیث صحیحین میں مروی نہیں ۔ ابن حزم وغیرہ نے تو اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، گو کہ دوسرے حضرات نے اس حدیث کو حسن یا صحیح بھی کہا ہے، جیسا کہ حاکم وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کو اہل سنن نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے۔[1][1] یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ سنن ابی داود (۴؍۲۷۶) کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ اور ’’سنن الترمذی‘‘(۴؍۱۳۴۔۱۳۵) کتاب الایمان، باب افتراق ہذہ الامۃ میں مروی ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : حدیث ابی ہریرہ صحیح اور حسن حدیث اور دیکھیں : ’’سنن ابن ماجہ‘‘ (۲؍۱۳۲۱) کتاب الفتن، باب افتراق الامم، ’’مسند احمد‘‘ طبع المعارف (۱۶؍۱۶۹) احمد شاکر نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ امام سیوطی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ’’المستدرک للحاکم‘‘ (۱؍۱۲۸) حاکم کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح اور مسلم کی شرط پر ہے اور علامہ ذہبی نے اس تصحیح کی موافقت کی ہے۔ ’’السلسلۃ الصحیحۃ‘‘ المجلد الاول، رقم الحدیث: ۲۰۴، سنن ابی داود: ۴؍۲۷۶، سنن الترمذی: ۴؍۱۳۵، سنن ابن ماجہ: ۲؍۱۳۲۲، سنن الدارمی: ۲؍۲۴۱، کتاب السیر، باب فی افتراق ہذہ الامۃ۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’بہتر فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں ہو گا‘‘ رب تعالیٰ کے ارشادات سے بڑا نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْبَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا﴾ (النساء: ۱۰)’’بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ ‘‘اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا o﴾ (النساء: ۳۰)’’اور جو زیادتی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ پر ہمیشہ سے بہت آسان ہے۔‘‘ایسے افعال کے مرتکبین کے دخولِ نار کی بابت قرآن کریم کی اور بھی متعدد صریح نصوص موجود ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہم کسی متعین شخص کے جہنمی ہونے کی گواہی نہیں دے سکتے کیونکہ اس کے توبہ تائب ہونے کا امکان ہے۔ یا ممکن ہے کہ اس کی ایسی نیکیاں ہوں جو اس کی برائیوں کو مٹا دیں یا رب تعالیٰ آفتوں اور مصیبتوں کے بدلے اس کی برائیوں کو مٹا دے وغیرہ وغیرہ کہ جس کی تفصیل گزشتہ میں مذکور ہو چکی ہے۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر ظاہر اور باطن کے اعتبار سے ایمان رکھنے والا، جس کا ارادہ حق کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی تعلیمات کی اتباع کا ہو، اگر وہ غلطی کر بیٹھے جبکہ اسے حق کا عرفان نہ ہو، وہ اس بات کا کہ رب تعالیٰ اسے آخرت میں معاف رفمائے اس شخص سے زیادہ مستحق ہے، جو خطا کا جان بوجھ کر اور اس کے گناہ ہونے کو جاننے کے باوجود ارتکاب کرے۔ بے شک ایسا شخص نافرمان اور مستحق عذاب ہے۔ جبکہ پہلا شخص گناہ کے باب میں متعمد نہیں بلکہ خطاکار ہے اور رب تعالیٰ اس امت کے خطا اور نسیان سے درگزر کرنے والے ہیں ۔دنیا میں عقوبت مسلمان سے گناہ کے ضرر کو دور کرنے کے لیے ہے اگرچہ وہ آخرت میں اس سے بہتر ہو جسے دنیا میں عقوبت نہیں دی گئی۔ جیسا کہ حدود کے مرتکب مسلمان کو دنیا میں عقوبت دی جاتی ہے جبکہ ذمی یہود و نصاریٰ کو عقوبت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ مسلمان بلاشبہ آخرت میں ان ذمیوں سے بہتر ہوں گے۔اسی طرح وہ بدعتی بھی ہے جو اپنی خواہش کی خاطر بدعت پر چلتا ہے ناکہ اسے دین سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ہے اور اپنی خواہش کے خلاف حق سے منہ موڑ لیتا ہے، رب تعالیٰ اسے اس کی خواہش نفس پر سزا دے گا۔ ایسا شخص دنیا و آخرت میں عقوبت کا مستحق ہوتا ہے۔ رہے وہ اسلاف جنھوں نے خوارج وغیرہ کو فاسق کہا ہے جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے خوارج کے بارے میں یہ آیت پڑھی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ مَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنo الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۶۔۲۷)’’اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں ، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔‘‘تو اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو قصداً گناہ اور فسق و فجور کا اور بدعت اور خواہش نفس کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ بالخصوص جب لوگوں میں تفرقہ پڑ جائے اور یہ آدمی اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ریاست، سرداری اور بڑائی کا طلب گار ہو۔جب کفار سے قتال کرنے والا مسلمان تین قسم کا ہو سکتا ہے: (۱) ایک وہ جو بہادر کہلوانے کے لیے لڑے (۲) دوسرا وہ جو قومی حمیت ے لیے لڑے اور (۳) تیسرا وہ جو ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے لڑے اور ان تینوں میں سے کوئی بھی اللہ کا مجاہد نہیں ۔ تو پھر ان بدعتیوں کا کیا حال ہو گا جو ان بدعات کی خاطر لڑتے اور جھگڑتے ہیں ؟ (بھلا وہ مجاہد فی سبیل اللہ کیونکر ہو سکتے ہیں )۔ کہ یہ لوگ ان بدعات کا اظہار شجاعت اور غیرت و حمیت کے لیے ارتکاب کرتے ہیں اور بسا اوقات رب تعالیٰ کی ہدایت سے ہٹی ان خواہشات کی پیروی میں انھیں عقوبت بھی سہنی پڑتی ہے۔ جو صرف ان بدعات کے ارتکاب میں اجتہادی خطا کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتا کرتے تھے کہ ’’میں ایک ایسے علم میں کلام کروں جس کی بابت مجھے یہ کہا جائے کہ تم نے خطا کی، یہ مجھے ایسے علم میں کلام کرنے سے زیادہ محبوب ہے کہ جس کی بابت مجھے یہ کہا جائے کہ تم نے کفر کیا۔‘‘اہل بدعت کا ایک عیب یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہنے میں لگے رہتے ہیں اور اہل علم کی قابل تعریف باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خطاوار تو ٹھہراتے ہیں البتہ وہ ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک اس بات کو کفر سمجھتا ہے جو کفر ہوتی نہیں اور بسا اوقات وہ بات کفر بھی ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایک پر تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس میں اللہ کے رسول کی تکذیب اور خالق باری تعالیٰ کو سب و شتم ہے جبکہ دوسرے پر یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی ہوتی۔ اس لیے ضروری نہیں کہ جس پر کفر کی دلیل واضح ہو، اس کے کافر کہنے سے دوسرا بھی ضرور ہی کافر کہے جسے ابھی تک کفر کی دلیل واضح نہیں ہوئی۔جن باتوں کو لوگ ٹھہراتے ہیں ، ان میں ان کے متعدد طرق ہیں ، چنانچہ کوئی یہ کہتا ہے کہ کفر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جانی گئی ضروریاتِ دین کی تکذیب کا نام ہے۔ پھر ضروریات دین اور علم ضروری کی تعیین میں بھی لوگ باہم مختلف و متفرق ہیں ۔پھر کسی کے نزدیک کفر یہ رب تعالیٰ سے جہل کا نام ہے۔ پھر کبھی صفت سے جہالت کو موصوف سے جہالت کے جیسا قرار دیا جاتا ہے اور کبھی ان دونوں باتوں کو جدا جدا بھی رکھتے ہیں ۔ پھر خود صفات کی نفی اور اثبات کے اعتبار سے بھی لوگ باہم مختلف ہیں ۔پھر بعض کے نزدیک کفر کی کوئی حد نہیں ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی کسی بھی بات کی تکذیب ان کے نزدیک کفر ہے جیسے اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان لانے کا انکار اور تکذیب کفر ہے۔ کیونکہ ان دونوں باتوں پر ایمان لانے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ ان کے علاوہ تکفیر کے اور بھی متعدد طرق ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کفر کا تعلق رسالت سے بھی ہے۔ لہٰذا رسول کی تکذیب کفر ہے۔ اسی طرح حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے نزدیک بلکہ جملہ ائمۂ دین کے نزدیک باطن میں رسول کے سچا ہونے کا علم و اعتقاد رکھنے کے باوجود ظاہر میں اس پر سب و شتم کرنا، اس کے ساتھ بغض و عداوت رکھنا بھی کفر ہے۔ سوائے جہمیہ اور اس کے ہم نواؤں کے جیسے صالحی اور اشعری وغیرہ کہ ان کے نزدیک یہ ظاہر میں تو کفر ہے لیکن باطن میں کفر نہیں سوائے اس صورت کے جو جہل کو مستلزم ہو۔ وہ یوں کہ دل میں رب تعالیٰ کی تصدیق کا ایک ذرہ بھی باقی نہ رہا ہو اور یہ قول بھی اس اعتقاد پر مبنی ہے کہ ایمان فی القلب میں تفاضل نہیں اور دل میں ایمان کا بعض نہیں ہوتا۔ بے شک یہ قول نصوصِ صریحہ کے اور واقع کے بھی خلاف ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔