تکفیر کے اصول
امام ابنِ تیمیہؒ[تکفیر کے اصول]اس کی بنیاد دو مسئلوں پر ہے:پہلا مسئلہ : گناہ کی وجہ سے گنہگار کا کفر لازم نہیں آتا ۔ جیسا کہ خوارج کہتے ہیں ۔ بلکہ ایسا انسان ہمیشہ جہنم میں بھی نہیں رہے گا ؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم بھی نہیں ہوگا۔ جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں ۔دوسرا مسئلہ : وہ متأول جس کی نیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو؛ اسے کافر نہیں کہا جائے گا؛ بلکہ اگر وہ اجتہاد کرنے میں خطاء کا مرتکب ہوا ہوتو اسے فاسق بھی نہیں کہا جائے گا۔ لوگوں کے ہاں علمی مسائل میں یہ مشہور بات ہے ۔ جب کہ اعتقادی مسائل میں بہت سارے لوگوں نے خطاء کرنے والوں کو کافر کہا ہے ۔ اس قول کا قائل صحابہ کرام اور تابعین میں سے کوئی ایک بھی معلوم نہیں ہوسکا؛ اور نہ ہی مسلمان ائمہ میں سے کسی ایک نے ایسی بات کہی ہے۔ اصل میں یہ ان اہل بدعت کا قول ہے جو خودکوئی بدعت ایجاد کرلیتے ہیں ‘ اور پھر جو کوئی اس بدعت میں ان کی مخالفت کرے اسے کافر کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ جیسے کہ خوارج اور معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ ۔ ائمہ کے متبعین میں بھی یہ بات کافی حد تک واقع ہوئی ہے۔جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے بعض ساتھیوں سے منقول ہے۔٭ یہ لوگ تکفیر میں اس مسلک پر عمل کرتے ہیں ۔ بسا اوقات مطلق طور پر اہل بدعت کی تکفیر کرتے ہیں ۔پھر جو بھی ان کی راہ سے ہٹ جائے اسے اہل بدعت قراردیتے ہیں ۔ یہ بالکل خوارج ؛ معتزلہ اور جہمیہ کے قول کی طرح ہے۔ یہ قول بھی اصحاب مذاہب اربعہ کے کچھ گروہوں میں پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ نہ تو ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کا قول ہے اور نہ ہی مذاہب اربعہ میں سے کسی قابل اعتماد امام کاقول ۔ اس لیے کہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ہر بدعتی کو کافر کہتا ہو۔بلکہ ان ائمہ سے منقول صریح روایات اس کے متناقض ہیں ۔لیکن کبھی کبھار بعض ائمہ سے بعض مخصوص عقائد و اقوال والوں کی تکفیر نقل کی جاتی ہے اس تکفیر سے مقصود ان کو ڈرانا ہوتا ہے۔ لیکن کفریہ قول صادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس نے بھی یہ قول کہہ دیا وہ کافر ہوگیا ؛ خصوصاً جب وہ انسان جہالت یا تأویل کا شکار بھی ہو۔ اس لیے کہ کسی متعین شخص کے حق میں کفر کا ثابت کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کے حق میں آخرت میں عذاب اوروعیدثابت کرنا۔ اس کی کئی شروط اور موانع ہیں ؛ ہم اپنی جگہ پر اس موضوع کو تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔٭ جب کوئی نفسِ امر میں کافر نہ ہو تو وہ منافق بھی نہ ہوگا۔توپھر اس کا شمار مؤمنین میں ہوگا ؛ اس کے لیے استغفار کیا جائے گا اور رحم کی دعا بھی کی جائے گی۔ جیسا کہ ایک مسلم دعا کے دوران جب کہتا ہے:﴿رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ (الحشر:۱۰)’’اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے؛ او رہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کو بھی ۔‘‘تو اس سے مراد وہ مومن ہوتا ہے جوگزشتہ زمانہ میں گزر چکا ہو۔ قطع ِنظر اس سے کہ غلط تاویل کرکے وہ سنت کی خلاف ورزی کر چکا ہو یا کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہو۔ بہر کیف گناہ کا مرتکب ہونے کے باوجود وہ آیت کے عموم میں داخل رہے گا اور اس سے خارج نہ ہو گا؛ اور اس کا شمار ایمان میں سبقت لے جانے والے مؤمن بھائیوں میں ہوگا۔ اگرچہ اس کا شمار بہتر فرقوں میں ہی کیوں نہ ہوتا ہو، اس لیے کہ ہر فرقہ میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کافر نہیں ہوتے، بلکہ وہ مومن ہوتے ہیں ، اگرچہ گمراہی و گناہ گاری کے باعث عاصی مومنین کی طرح وعید کے مستحق ہوا کرتے ہیں ۔