Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

معذور اورغیر معذور کا فرق

  امام ابنِ تیمیہؒ

[معذور او رغیر معذور کا فرق]جبکہ پانچ نمازوں کا معذور کے لیے وقت گزرنے کے بعد قضاء کرنا جائز ہے۔ تو اس سے معلوم ہو ا کہ غیر وقت میں بھی ان نمازوں کا پڑھنا درست ہے۔اور وقت نماز کے لیے شرط نہیں ہے۔ جیسے یہ دوسری عبادات میں شرط ہے۔ جبکہ دوسرے حضرات کہتے ہیں : اس کے جواب میں دو توجیہات ہیں ؛اول: یہ کہا جائے کہ: تصور کیجیے معذ ور کے لیے وقت گزرنے کے بعد بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسعت اور رحمت ہے۔ اور نیند میں پڑے انسان اور بھو ل جانے والے کا کوئی گناہ نہیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بیداری یا یاد آنے تک کی وسعت کردی ۔ کیونکہ اس وقت سے پہلے ان کے لیے نماز کا ادا کرنا ممکن ہی نہیں ۔ تو اس میں کون سی ایسی چیز ہے جو اس کبیرہ گناہ کے مرتکب جان بوجھ کر نماز میں تاخیر کرنے والے کے لیے جواز پر دلالت کرتی ہے؛ جس کا کوئی عذر ہی نہیں ۔ اگرحج ایک سال فوت ہوجائے تو اگلے سال میں اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اگر رمی جمرات رہ جائے تو اس کا بدل موجود ہے؛ اور وہ جانور ذبح کرکے تقسیم کرنا۔اور جب جمعہ رہ جائے تو اس کے بدلہ میں ظہر کی نماز پڑھی جائے۔ پس ایسے یہ معذور انسان اگر اس سے مقررہ وقت کی عبادات رہ جائیں تواس کے لیے بھی اس کے متبادل امور مشروع ہیں جنہیں بجا لایا جاسکتا ہے۔ اور اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ یہ اس کے حق اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جب کہ غیرمعذور کے لیے حج میں بدل موجود ہیں ۔ اس لیے کہ حج میں نیابت جائز ہے۔ جب کوئی انسان مر جائے تو اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔ بھلے یہ اس کی تقصیر او رکوتاہی کی وجہ سے رہ گیا ہو۔ کسی دوسرے کا اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔ تو پھر اگروہ خود اس کا کوئی جائز بدل تلاش کرے؛ یہ زیادہ اولی ہے۔ اس لیے کہ جو خون وہ خود بہائے گا؛ وہ کسی دوسرے کے خون بہانے سے زیادہ اولی ہے۔ جہاں تک جمعہ کا تعلق ہے؛ جب جمعہ رہ جائے تو بیشک وہ ظہر کی نماز پڑھ لے گا۔ کیونکہ ظہر ہر روز کا معتاد فریضہ ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ جمعہ کا متبادل ہے۔ بلکہ ہر ایک پر ظہر کی نماز ادا کرنا یا جمعہ پڑھنا فرض ؍ واجب ہے۔ پس جب انسان کے لیے جمعہ ادا کرنا ممکن ہو تو جمعہ کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔ اگر اس نے ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو۔ اگر جمعہ چھوٹ جائے تو پھر اس کے لیے ظہر کا پڑھنا ممکن رہتا ہے۔تو اس پر نماز ظہر کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔ پس درایں صورت اکثر علماء کے نزدیک اس کے لیے جائز نہیں ؛ ہاں اگرجمعہ کی نماز رہ جائے تو۔جہاں تک فرض نمازوں کا تعلق ہے؛ تو ان میں کسی بھی حال میں نیابت ممکن نہیں ہوسکتی۔ ایسے ہی اگر رمضان کے روزوں پر انسان قادر ہو تو؛ ان میں نیابت ممکن نہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو اس سے روزے ساقط ہو جاتے ہیں ۔ او راکثر علماء کے نزدیک وہ ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا۔ جبکہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک اس پر کچھ بھی نہیں ہے۔ اور جو سنت میں وارد ہوا ہے کہ؛ اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔تو یہ نذر وغیرہ میں ہے۔ جیسے خود ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی تفسیر کی ہے؛جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے۔ جیساکہ اس حدیث کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو آدمی انتقال کر جائے اور اس پر کچھ روزے لازم ہوں تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘[1][1] البخارِیِ3؍35 ِکتاب الصومِ، باب من مات وعلیہِ صوم؛ مسلِم 2؍803 ِکتاب الصِیامِ، باب قضائِ الصِیامِ عنِ المیِتِ، سنن أبِی داود 2؍423؛ کتاب الصومِ، باب فِیمن مات وعلیہِ صِیام، وقال أبو داود: ہذا فِی النذرِ، وہو قول أحمد بنِ حنبل۔نذر اس کے ذمہ پر ہوتی ہے؛ اور وہی اس پر واجب بھی ہے۔ جبکہ رمضان کے روزے اس کے ذمہ میں نہیں ؛ اور نہ ہی اس پر واجب باقی رہے ہیں ؛ کیونکہ اس کی عاجز[اور معذوری کی وجہ سے ]اس سے ساقط ہوگئے ہیں ۔جب اصل میں کسی ایک کی طرف سے نہ ہی کوئی رمضان کے روزے رکھ سکتا ہے؛ اور نہ ہی پانچ فرض نمازیں پڑھ سکتا ہے؛ تو پھر ان کا کوئی بدل بھی نہیں ۔ بخلاف حج اور دوسرے اعمال کے۔ اسی لیے شارع نے ان کی قضاء میں معذور کے لیے اس کی حاجت کے پیش نظر اس پر رحمت اور وسعت کرتے ہوئے توسیع کی ہے۔ جبکہ ان دو کے علاوہ کسی اور کے لیے کوئی وسعت نہیں دی گئی۔ کیونکہ اس کے لیے اس کی قضاء کی ضرورت ہی نہیں ؛کیونکہ اس کے لیے اس کا مشروع بدل موجود ہے۔یاتو ظہر کے بدلے میں جمعہ ہے۔یا پھر حج کے واجبات کی جگہ دمِ جبران ہے۔ یا پھر کسی دوسرے کا ادا کرنا ہے۔ جیسے میت کی طرف سے حج کرنا۔پس اس سے نماز اورروزہ اور دیگر عبادات کے مابین ؛ او رمعذور او رغیر معذور کے مابین فرق واضح ہوتا ہے ۔اور اس سے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ جوکوئی اس میں غیر معذور کے لیے بھی ویسے ہی وسعت سمجھتا ہے؛ جیسے معذور کے لیے وسعت ہے؛ تو وہ اپنے قیاس میں غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
دوسرا جواب : بیشک ہم نے ایسا قیاس نہیں کیا جس میں فرع کے حکم کو اصل سے نکال لایا ہو۔ بیشک جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے؛ وہ شرعی ادلہ سے ثابت ہے جن کی موجودگی میں کسی قیاس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے۔ لیکن ہم نے قیاس اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ انسان کے تصور میں وہ صورت آجائے جو اس سلسلہ میں شریعت میں موجود ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ مسئلہ کو سمجھانے اور اس کا تصور بیان کرنے کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں ۔ یہ بیان اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ کوئی شرعی دلیل ہے۔اس قیاس سے مراد یہ ہے کہ نماز کو اس کے وقت کے بعد ادا کرنا؛ جب کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاخیر کو حرام ٹھہرایا ہے؛ وہ ان عبادات کی ادائیگی کی منزلت پر ہے۔یہاں پر مقصود ایک حکم کی تمثیل سے دوسرا حکم بیان کرنا ہے۔ تو اس سے پتہ چلا یہاں مقصود یہ ہے کہ:نماز اب باقی نہیں رہی جو قبول تو مگر صحیح نہ ہو۔ جیسے یہ عبادت نہ ہی قبول ہوتی ہے اور نہ ہی صحیح ہوتی ہے۔ بیشک جہلاء میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں : اس سے مراد نماز کے معاملہ کی توہین ؍یا اس میں نرمی ہے۔ اور یہ کہ جس کی نماز رہ جائے اس سے قضاء ساقط ہو جاتی ہے۔ تو ایسے بیوقوف لوگ نماز چھوڑنے کے داعی بن جاتے ہیں ۔یہ بات کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ بلکہ جس کسی نے یہ کہا ہے کہ: جس نے نماز چھوڑ دی اس پر کوئی گناہ نہیں ہے؛ وہ کافر اور مرتد ہے؛ اس سے توبہ کروائی جائے گی۔ اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ؛ ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ لیکن جان بوجھ نماز چھوڑنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے جان بوجھ رمضان کے روزے چھوڑنا۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اور مسلمانوں کے تمام گروہوں کا اجماع ہے: جو کوئی یہ کہے کہ میں دن کی نماز رات کو پڑھوں گا؛ وہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے میں رمضان کے روزے شوال میں رکھوں گا۔ اگروہ اپنے لیے ایسا کرنے کو جائز سمجھتا ہے ؛ تو وہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی رمضان کے روزوں کو شوال تک مؤخر کرنا جائز سمجھتا ہے۔ اور دونوں سے باتفاق علماء توبہ کروائی جائے گی۔ اگروہ توبہ کرلیں ؛اورنماز و روزہ کی بروقت ادائیگی کے واجب ہونے کا عقیدہ رکھیں توٹھیک ؛ ورنہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے گا۔