Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فرق کی اصل بنیاد

  امام ابنِ تیمیہؒ

اس فرق کی بنیادیہ ہے کہ نماز کے واجبات میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ارکان کہا جاتا ہے؛ جن کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی۔ اور کچھ چیزوں کو واجب کہا جاتا ہے؛ جن کے بغیر بھی نماز مکمل ہو جاتی ہے؛ بھلے اس کا سبب بھول و نسیان ہو؛یا مطلق طور پر کوئی سبب ہو۔ یہ جمہور کا قول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان چیزوں کو بھی واجب کہتے ہیں جن کے ترک کرنے پر کسی بھی طرح نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوتا۔ پس جب اہل مدینہ اس میں ان امور کو واجب کہتے ہیں جن کے ترک کرنے اسی وقت اعادہ واجب ہوتا ہے؛ تو یہ شریعت کے زیادہ قریب تھا۔ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ ان چیزوں کو واجب کہتے ہیں جن کے رہ جانے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم آتا ہو؛ یا جن کا ازالہ سجدہ سہو سے ممکن ہو۔ پھر یہ واجب اگر جان بوجھ کر ترک کردیا جائے تو امام احمد رحمہ اللہ اپنے ظاہر مذہب میں اس کے اعادہ کو واجب کہتے ہیں ؛ جیسے اگر کوئی کسی رکن کو ترک کردے۔ جیسے اگر کوئی تشہد اول ترک کردے؛ یا دو یا دو سے زیادہ تکبیریں چھوڑ دے۔ یا سری کی جگہ جہری اور جہری کی جگہ سری قرأت کر دے۔تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ حج کے واجبات میں سے کچھ ایسی چیزیں جن کے ترک کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ اور کچھ ایسے اعمال ہیں جن کے ترک کرنے پر حج فوت ہو جاتا ہے۔ ان کا ترک پر ازالہ نہیں ہوسکتا۔ جیسے وقوف عرفہ ۔پس ایسے ہی معاملہ نماز کا بھی ہے۔تیسرے گروہ کا کہنا ہے: جس چیز کی ادائیگی کا حکم اللہ تعالیٰ نے متعین وقت میں دیا ہو؛اسے بلا عذر ترک کیا گیا حتی کہ اس کا وقت ختم ہوگیا تو اس کام کے بعد میں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جیسے جمعہ ؛ اور وقوف عرفہ ؛ اور رمی جمرات ۔پس بیشک کوئی فعل عبادت اپنے وقت کے بعد تب تک مشروع نہیں ہوتا جب تک شارع اسے مشروع قرار دنہ دے۔ اور نہ ہی شارع کے حکم کے بغیر کوئی چیز واجب ہوتی ہے۔ اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اگر کسی سے وقوف عرفہ رہ گیا؛ حتی کہ دوسرے دن کی فجر طلوع ہوگئی ؛ خواہ ایسا عذر کی وجہ سے ہوا ہو یا بلاعذر کے۔ تو وہ طلوع فجر کے بعد وقوف عرفہ نہیں کرے گا۔ اور ایسے ہی جو کوئی ایام منی میں جمرات کی رمی نہ کرسکے؛ تو وہ ایام منی کے بعد رمی نہیں کرے گا؛ بھلے اس کا عذر ہو یا نہ ہو۔ ایسے ہی جمعہ کی قضاء نہیں ہوتی؛ بھلے جمعہ عذر کی وجہ سے رہ گیا ہو یا بلاعذر۔اگر سارے کے سارے شہر والے جمعہ نہ پڑھیں تو ہفتہ والے دن وہ جمعہ نہیں پڑھ سکتے۔جب کہ پانچ نمازوں کے بارے میں ثابت ہے کہ معذور کے لیے جب بھی ممکن ہو؛ وہ پڑھ لے گا۔ جیسا کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:(( من نام عن صلاۃ أو نسِیہا فلیصلِہا إِذا ذکرہا فِإن ذلِک وقتہا ؛ لا کفارۃ لہا إلا ذلک۔))[1][1] البخارِیِ1؍118 ۔کتاب مواقِیتِ الصلاۃِ، باب من نسِی صلاۃ فلیصلِ ِإذا ذکرہا، مسلِم 1؍477 ِکتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاِۃ، باب قضاِء الصلاِۃ الفائِتِ، والحدِیث فِی سننِ بِی داود والنسائِیِ والتِرمِذِیِ وابنِ ماجہ والدِارِمِیِ والمسنِدِ والموطأِ، وانظر إِروا الغلِیلِ 1؍291 ۔ 293۔۔’’ جو کوئی نماز کے وقت سویا رہے؛ یا بھول جائے؛ تو جب اسے یاد آجائے؛ وہ نماز پڑھ لے؛ یہی اس کا وقت ہے؛ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔‘‘ایسے ہی رمضان کے روزے بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مسافر مریض اور حائض کو حکم دیا ہے کہ وہ اتنے ہی دن بعد میں دوسرے دنوں میں روزے رکھ لیں ۔ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کے مابین مشترک وقت ؛ عذر کی صورت میں ان نمازوں کے پڑہنے کے لیے جواز کا وقت ہے۔ اگر بغیر عذر کے انہیں اس وقت میں پڑھا گیا؛ تو ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا۔ لیکن پھر بھی یہ ایسے وقت میں پڑھی گئی ہیں ؛ جو جملہ طور پر ان نمازوں کا وقت شمار ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حکمرانوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے کا حکم دیاہے؛ جو نماز کو اپنے وقت سے تاخیر کرکے پڑھیں گے؛ اور ان سے جنگ کرنے سے منع کیا ہے؛ حالانکہ ان کی اور ان کے ظلم کی مذمت کی ہے۔ یہ حکمران ظہر میں عصر تک تاخیر کرتے تھے۔ تو شیعہ کا ایک گروہ آیا وہ پہلے وقت میں نمازیں جمع کرکے پڑھنے لگا۔اب بلا عذر بھی ہمیشہ کے لیے ان کا یہی طریقہ کار ہے۔ پس وقت مشترک میں عذر کی وجہ سے جواز داخل ہوتا ہے۔ خواہ یہ عذر حکمرانوں کی تاویل ہو۔ مگر یہ نماز اصل وقت چھوڑنے کے گناہ کے باوجود صحیح ہوگی؛ جب تک کہ مطلق طور پر وقت ختم نہ ہو جائے۔جیسے کوئی ماہ رمضان میں جان بوجھ کر روزے توڑ دے؛ اور کہے: میں شوال میں روزے رکھوں گا۔ یا پھر جان بوجھ کر نماز ظہر اورعصرمیں تاخیر کرے۔ اور کہے:میں انہیں مغرب کے بعد پڑھوں گا۔ یا مغرب اور عشاء میں تاخیر کرے اور کہے میں فجر کے بعد پڑھوں گا۔ یہ فجر میں سورج طلوع ہونے کے بعد تک تاخیر کرے۔ تو یہ درحقیقت بلا عذر نمازوں کا ترک کرنا ہے۔صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( من فاتتہ صلاۃ العصرِ فکأنما وتِر أہلہ ومالہ۔))[سبق تخریجہ ]’’جس کی نماز عصر رہ گئی گویاکہ اس کے اہل خانہ اور مال سب تباہ ہوگئے ۔‘‘
اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:(( من ترک صلاۃ العصرِ فقد حبِط عملہ ۔)) [سبق تخریجہ ]’’جس نے عصر کی نماز ترک کردی؛ اس کے اعمال تباہ ہوگئے ۔‘‘اگر انسان کے لیے اس کا استدراک ممکن ہوتا تو اس کے اعمال تباہ نہ ہوتے۔ اور آپ کا یہ فرمان گرامی کہ:(( وتِر أہلہ ومالہ۔))[سبق تخریجہ ]’’گویاکہ اس کے اہل خانہ اور مال سب تباہ ہوگئے ۔‘‘یعنی وہ آدمی اکیلا رہ گیا؛ نہ اس کے اہل خانہ رہے اور نہ ہی مال۔ اگر اس کا رات میں ادا کرنا ممکن ہوتا تو وہ اپنے مال و عیال سے تنہا نہ رہ جاتا۔ حدیث میں آتا ہے:((من أدرک رکعۃ مِن العصرِ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ))[سبق تخریجہ ]’’جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر کی ایک رکعت پالی ؛ تو اس نے عصر کی نماز پالی ۔‘‘اگر اس نماز کا مغرب کے بعد پڑھنا مطلق طور پر درست ہوتا ؛ تو وہ نماز کو پالینے والا ہوتا۔ بھلے وہ ایک رکعت پائے یا نہ پائے۔ بیشک ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو کوئی ایک رکعت پالے؛ تو اس کی نماز گناہ کے بغیر ہی درست ہو جائے گی۔بلکہ وہ عمدا تاخیر کرنے پر گنہگار ہوگا۔ اس پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ۔بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ کہ عصر کی نماز کو آسمان میں زردی چھاجانے کے بعد تک مؤخر نہ کیا جائے۔ زردی پھیلنے سے پہلے اس نماز کا پڑھنا واجب ہے۔ حدیث میں ہے:(( صلوا الصلاۃ لِوقتِہا ۔))’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرو۔‘‘[1][1] مسلِم1؍448 ۔کتاب المساجِدِ ومواضِع الصلاِۃ، باب کراہِیۃِ تأخِیرِ الصلاِۃ عن وقتِہا المختار۔سننِ أبِی داود 1؍173 کتاب الصلاۃِ، باب ِإذا أخر الإِمام الصلاۃ عنِ الوقتِ، سنن الترمذی 1؍113 ؛ کتاب مواقِیتِ الصلاِۃ، باب ما جا فِی تعجِیلِ الصلاِۃ ِإذا أخرہا الإِمام، سنن ابنِ ماجہ1؍398 ۔کتاب ِإقامۃِ الصلاۃِ، باب ما جا فِیما إِذا أخروا الصلاۃ عن وقتِہا۔تو معلوم ہوا کہ نماز کو پالینے سے اس میں بلا عذر دیر کرنے کا گناہ ختم نہیں ہوتا۔بلکہ یہ انسان گناہ کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے والا بھی شمار ہوتا ہے۔ اگریہ نماز مغرب کے بعد پڑھے تو بھی گناہ تو ہوگا؛اور آسمان پر زردی چھا جانے کے بعد اور مغرب کے بعد پڑھنے میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ: ان میں سے ایک کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں نماز میں جتنی دیر کی جائے گی؛ اس میں اتنا ہی زیادہ گناہ ہوگا۔ پس تقدیم کے وجوب کے ساتھ اس کی قضاء جائز ہے۔ او ر قضاء میں جتنی تاخیر کی جائے گی؛ اتنا ہی اس کا گناہ بھی زیادہ ہوتا جائے گا۔اور جو کوئی نماز کے وقت سویا رہے؛ یا بھول جائے تو جب وہ بیدار ہو؛ یا اسے یاد آئے تو وہ نماز پڑھ لے۔ اس کے لیے یہی وقت ہے۔ اب اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ جیسے وہ انسان گنہگار ہوگا جو فوری واجب حکم کی ادائیگی میں تاخیر کرے۔ لیکن بعد میں بھی اس کا یہ فعل درست ہوگا۔ اور اگر مغرب کے بعد نماز عصر پڑھنے کا یہی حکم ہوتا تو پھر غروب آفتاب کے ساتھ اس کے وقت کو مقید کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔یہ فرمان گرامی:((من أدرک رکعۃ مِن العصرِ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک )) [سبق تخریجہ ]’’جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر کی ایک رکعت پالی ؛ تو اس نے عصر کی نماز پالی ۔‘‘کوئی معنی یا فائدہ نہ دیتا۔ بلکہ یہ اس فوری واجب کی طرح ہوتی جس میں تاخیر کردی جائے۔ یا پھر مغرب کی نماز کی طرح ہوتی ؛ جب اس میں عشاء تک کی تاخیر کردی جائے۔ یہ بات معلوم ہے کہ ایسا کرنا کبھی کبھار جائز ہی نہیں بلکہ سنت بھی ہوتا ہے؛ جیسے مزدلفہ کی رات ۔ جیسے عرفہ کے دن عصر کی نماز میں تقدیم کرکے ظہر کے ساتھ پڑھنا سنت متواترہ او راجماع مسلمین سے ثابت ہے۔جب کہ عصر کی نماز مغرب کے بعد پڑھنے کی اجازت غیر معذور کو کبھی بھی نہیں دی گئی۔ جیسے مغرب کی نماز سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھنے کی اجازت ہر گز نہیں ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے: کوئی بھی حال ہو؛ تمام واجبات کو ترک کرکے نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔ اگر انسان کے لیے ممکن ہو کہ وہ تیمم کرکے مقررہ وقت میں بغیر قرأت کے نماز پڑھ سکتا ہو تو پڑھ لے؛ بھلے رکوع اور سجدہ بھی پوری طرح اطمینان سے ادا نہ کرسکے ۔یا قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ یا ننگے بدن ہی نماز پڑھنا پڑے۔اس کے لیے جیسے بھی ممکن ہو؛ اس کا ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اسے وقت کے بعد اتمام افعال کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں ۔ یہ امور کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور عام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔پس اس سے معلوم ہو اکہ وقت تمام واجبات پر مقدم ہے۔ پس درأیں صورت جس نے بغیر قرأت کے نماز پڑھ لی؛یا جانتے بوجھتے بغیر سترہ [پردہ ؍رکاوٹ]کے نماز پڑھ لی؛ یا اس طرح کی دیگر کسی بھی حالت میں ؛ اب اگر اسے وقت کے بعد کہا جائے کہ وہ قرأت کے ساتھ اور سترہ رکھ کر نماز پڑھے؛ تو اسے اس چیز سے ادنیٰ کا حکم دیا جارہا ہے جو اس نے کردی ہے۔ پس اسی لیے جب انسان کے لیے ان دونوں احوال میں سے صرف ایک حال ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ نماز کو اپنے وقت پر بغیر قرأت اور بغیر سترہ کے ہی پڑھ لے؛ اور اس کا وقت نکل جانے تک کا انتظار نہ کرے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ترک نماز کے استدراک کا امکان باقی نہیں رہا۔ رہا معذور انسان ؛ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے امکانی وقت تک کی وسعت کی ہوئی ہے۔ پس جو کوئی نماز بھول جائے؛ یا نماز کے بعض واجبات بھول جائے؛ تو اسے جب بھی یاد آئے؛ وہ نماز پڑھ لے۔ اس کے حق میں اس کی ادائیگی کا وقت یہی ہے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ : اس کی نماز مقررہ وقت پر زیادہ کامل تھی۔تو اس کا جواب یہ ہے: بالکل ؛ لیکن اس وقت نیند یا بھول کی معذوری کی وجہ سے اس پر واجب ہی نہیں ہوئی۔ اس پر نماز پڑھنا اسی وقت واجب ہوا ہے جب وہ بیدار ہو یا پھر اسے یاد آجائے۔ جیسے ہم حائض کے حق میں کہتے ہیں : اگر وہ عصر کے وقت میں پاک ہوجائے تو وہ عصر اور ظہر دونوں نمازیں پڑھنے کی مامور ہے۔ اوراس کا شمار ظہر او رعصر کو اپنے وقت پر ادا کرنے والوں میں ہوگا۔ ایسے ہی اگروہ رات کے آخری حصہ میں پاک ہو تو وہ مغرب او رعشاء دونوں نمازیں پڑھے گی۔ مغرب اس کے حق میں ادا ٹھہرے گی؛ قضاء نہیں ہوگی۔ جیسے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثلاً حضرت عبدالرحمن بن عوف؛ اور ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ؛ اس کا حکم دیا کرتے تھے؛ اور کسی ایک صحابی سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ہے۔
یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں معروف سنت یہی تھی۔ بیشک ایسے واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے خلفائے راشدین کے عہد مسعود میں بھی پیش آئے تھے۔اور کتاب و سنت اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے معذور کے حق میں تین اوقات بتائے ہیں ۔یہ بھی ایک عذر ہے ؛ اس میں امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ معذورکے حق میں وقت مشترک ہے۔ اسے جمع کی نیت کرنے کی کوئی حاجت نہیں ۔ اکثر علماء جیسے امام ابو حنیفہ ؛امام مالک اور امام اور ان کے پرانے اصحاب رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے ساتھیوں میں سے ایک گروہ جیسے خرقی رحمہما اللہ اور اس کے موافقین کا کہتے ہیں : قصر اور جمع میں نیت واجب ہے۔ جمہور علماء کہتے ہیں : نیت واجب نہیں ہے؛ نہ جمع کے لیے نہ انفراد کے لیے۔یہ امام مالک ‘ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے قدماء اصحاب کا مذہب ہے۔اور یہی بات درست بھی ہے۔ جیسا کہ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔لیکن حائض [حیض والی]کا معاملہ واضح کرتا ہے کہ اس کے لیے ماموربہ نماز کا اس کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں پڑھنا نا ممکن ہی نہیں تھا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اسے دوسری نمازوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا؛ بھلے وہ حکم ایجابی ہو یا استحبابی ہو۔اگر یہ کہا جائے کہ: بقیہ نمازیں تخفیفاً اس سے ساقط ہو جاتی ہیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اگروہ اس نظریہ سے فوت شدہ نمازیں پڑھنا شروع کردے کہ وہ اس طرح سے نماز کا ثواب پائے گی؛تو ایسا کرنا مشروع نہیں ہیں ؛ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اس کے لیے ممکن ہے کہ جتنا بھی ممکن ہوسکے نوافل پڑھ لے۔ کیونکہ اس کی جو فرض نمازیں [اس بیماری کے دوران] رہ گئی ہیں ؛ یہ ان کے وقت میں ان کی مامورہی نہیں تھی۔اور فرض نمازیں صرف ان کے مامور بہ وقت میں ہی ادا ہوسکتی ہے۔ ان کا وقت ختم ہو جانے کے بعد ان کی ادائیگی جائز نہیں ۔ ہر وہ انسان جو نیند یا نسیان کی وجہ سے معذور ہو؛ یا اس سے کوئی خطاء ہوگئی ہو؛ تو ان کو حکم ہے کہ دوسرے وقت میں یہ نمازیں پڑھ لیں ۔ تو گویا کہ انہوں نے ماموربہ وقت میں ہی نمازیں ادا کی ہیں ۔ جیسے مسافر اور مریض اور حائض کو رمضان کے روزے بعد میں رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔جب کہ [بلا عذر ] رمضان میں افطار کرنے والے کے متعلق کہا گیا ہے کہ اگر وہ سارا سال بھی روزے رکھے؛ تب بھی اسے کفایت نہیں کریں گے۔کہتے ہیں : اگر بھولے ہوئے انسان کو اسی وقت نماز پڑھنے کا حکم ہے جب اسے یاد آئے۔ اس سے پہلے اسے نماز پڑھنے کا حکم نہیں ۔ کیونکہ اس کے حق میں یاددھانی کا وقت ہی نماز کا وقت ہے۔ تو اس نے اپنے وقت پر ہی نماز پڑھی ہے۔ایسے ہی جب سویا ہوا انسان بیدار ہو تو وہ اپنے وقت پر ہی نماز پڑھتا ہے۔کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے کسی ایک کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ نماز کواس کے اوقات سے ہٹ کر ادا کرے ۔اور[بلا عذر] وقت سے ہٹ کر پڑھی ہوئی نماز بالکل قبول نہیں ہوتی۔ یہی حال رمضان کے روزوں کا بھی ہے ۔سنن میں صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی توڑ دیا؛ اگر وہ سارا سال بھی روزے رکھے؛ تب بھی اسے کفایت نہیں کریں گے۔‘‘[1][1] البخارِیِ3؍32 ِکتاب الصومِ، باب ِإذا جامع فِی رمضان، سنن أبِی داود 2؍422 ۔کتاب الصومِ باب التغلِیظِ فِیمن أفطر عمدا، سنن الترمذی 2؍113 ِکتاب الصومِ، باب ما جا فِی الإِفطارِ متعمِدا۔یہ حضرات کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ رمضان کے روزے غیر رمضان میں صرف معذور افراد سے قبول کرتے ہیں ۔ جیسے : مریض ؛ مسافر اور حائض۔ اور جس پر مہینہ مشتبہ ہو جائے؛ اور اس نے [سمجھنے کی]کوشش کے باوجود رمضان کے بعد روزہ رکھ لیا تو اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول فرمائیں گے؛ جان بوجھ کرروزہ چھوڑنے والے کا عمل قبول نہیں فرماتے۔کہتے ہیں : یہ انسان جس نے اپنی بیوی سے رمضان کے دنوں میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا تھا؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قضاء کا حکم نہیں دیا؛ بلکہ اسے صرف کفارہ اداکرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں قضاء کا حکم بھی آیاہے؛ مگر ثقہ علمائے کرام رحمہم اللہ جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔[2][2] انظر کلام ابنِ قدامۃ فِی المغنِی 3؍109 ؛ عن حکمِ من جامع أہلہ فِی رمضان، ورأی فقہائِ المذاہِبِ فِیہا، ورأی وجوبِ القضائِ لأِن النبِی صلی اللہ علیہِ وسلم قال لِلمجامِعِ وصم یوما مکانہ۔رواہ أبو داود بِإِسنادِہِ وابن ماجہ والأثرم، وأما الکفارۃ فتلزمہ لِلحدِیثِ المتفقِ علیہِ عن أبِی ہریرۃ ۔ وانظر ما ذکرہ الألبانِی فِی ِإرواِ الغلِیلِ 4؍88 ۔وکلامہ علی الحدِیثینِ ومخالفتہ لِابنِ تیمِیۃ فِی مسلۃِ القضائِ فإِنہ استشہد بِکلامِ ابنِ حجر فِی الفتحِ 4؍150 حیث قال: وبِمجموعِ ہذِہِ الطرقِ تعرِف أن لِہذِہِ الزِیادۃِ وہِی قول النبِیِ: وأمرہ أن یصوم یوما مکانہ أصلا۔ایسے ہی جس انسان نے جان بوجھ کر قے کی تھی؛ اس کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے اسے دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ مگر اس حدیث کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہونا ثابت ہے۔ اور اگر اس کا صحیح ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے؛ تو اس سے مراد وہ معذور ہوگا؛ جو عمداً قے کرنے کو جائز سمجھتا ہو۔ یا پھر وہ مریض مراد ہو جو جسے قے کرنے کی ضرورت ہو؛ تو اس نے ایسا کرلیا ہے۔ کیونکہ عادۃً عمداً قے صرف عذر کی بنا پرہی ہوتی ہے۔ ورنہ کوئی عاقل بلا ضرورت عمداً قے کو جائز نہیں سمجھتا۔ پس اس طرح قے کرنے والا اپنا ایسے ہی علاج کرنا چاہتا ہے جسے دوائی کھا کر علاج کیا جاتا ہے۔ اس انسان سے قضاء قبول ہوتی ہے؛ اور اسے اس کا حکم بھی دیا جاتا ہے۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؛ اگرچہ اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ بہرحال ہر صورت اس کا معنی یہی ہے۔[1][1] انظر کلام الألبانِیِ علی ہذا الحدِیثِ فِی ِإرواِ الغلِیلِ 4؍51 ۔وقد صححہ مرفوعاً ونصہ: عن أبِی ہریرۃ، قال رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ’’ من ذرعہ القیء فلیس علیہِ قضاء، ومِنِ استقاء فلیقضِ۔ علی أن لِلحدِیثِ وجہا آخر ضعِیف، انظر 4؍53بیشک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہی اعرابی والی وہ حدیث روایت کی ہے جس میں ہے:’’جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی توڑ دیا؛ اگر وہ سارا سال بھی روزے رکھے؛ تب بھی اسے کفایت نہیں کریں گے۔‘‘پس ان احادیث کو اتفاق پر محمول کیا جائے گا ؛اختلاف پر نہیں ۔ سلف صالحین اورمتأخرین میں سے ایک گروہ کا یہی مسلک ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھی ابو عبدالرحمن کا قول ہے۔ اور داؤد بن علی اور ابن حزم اور دیگر نے یہ قول اختیار کیا ہے۔وہ کہتے ہیں : ہمارے ساتھ اختلاف کرنے والوں کے پاس ہر گز کوئی ایسی حجت نہیں ہے کہ اختلاف کے وقت اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ان میں سے اکثر حضرات کہتے ہیں : دوسرے حکم کے بغیر قضاء واجب نہیں ہوتی۔ اور یہاں پر کوئی دوسرا حکم موجود نہیں ہے۔ہم صرف قضاء کے وجوب میں اختلاف نہیں کرتے؛بلکہ ہمارا اختلاف اس قضاء کی قبولیت اور بلا وقت نماز کے درست ہونے میں ہے۔ ہم کہتے ہیں : پانچوں نمازیں اپنے وقت سے ہٹ کر مختص بھی ہیں اور مشترک بھی ؛ موسع بھی ہیں ؛ مضیق [تنگ وقت والی]بھی ۔ جیسے جمعہ کو اس کے وقت سے ہٹ کر پڑھنا۔ اور جیسے حج کو وقت کے بغیر ادا کرنا۔اور بغیر وقت کے جمرات کی رمی کرنا۔وقت کسی عبادت کا وصف ہوتا ہے۔اور سب سے زیادہ تاکیدی واجب ہوتا ہے۔ کوئی عبادت اس کے واجب طریقہ [مواصفات] کے بغیر کیسے قبول کی جاسکتی ہے۔[2] [2] انظر ما ذکرہ ابن حزم فِی وجوبِ القضائِ علی منِ استقاء وعدمِ وجوبِ القضائِ علی المتعمِدِ لِلجِماعِ فِی رمضان فِی المحلی 6؍175 ۔اگر کوئی انسان بلا عذرغیر قبلہ کی طرف نماز پڑھے؛تو اس کی نماز محض باطل ہوگی۔ ایسے ہی اگربلا عذر مشترک وقت سے پہلے نماز پڑھ لے تووہ بھی باطل ہوگی۔ مثلاً کوئی انسان ظہر کی نماز زوال سے پہلے پڑھ لے۔ اور مغرب سورج غروب ہونے سے قبل پڑھ لے۔ اور اگر اس نے کسی تأویل کی بنا پر ایسے کیاہے؛ جیسے کوئی قیدی یہ خیال کرے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا ہے؛تو وہ روزہ رکھ لے؛ اور مسافر بادل کے دن یا کسی اور وجہ اجتہاد کرکے ظہر زوال سے پہلے نماز پڑھ لے؛ غروب آفتاب سے قبل مغرب پڑھ لے۔تو ان لوگوں پر اعادہ کے واجب ہونے کے بارے میں علمائے کرام رحمہم اللہ کے دو معروف قول ہیں ۔ اس میں اختلاف امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے مذہب میں ہے۔امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں معروف یہ ہے کہ : یہ نماز کفایت نہیں کرے گی۔ اگرچہ اس نے یہ نماز مشترکہ وقت میں پڑھی ہو؛ جیسے عصر کی نماز کو ظہر کے وقت میں پڑھا جائے۔ اور عشاء کی نماز شفق غائب ہونے سے قبل پڑھی جائے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب کا صحیح قیاس ہے کہ یہ نماز کفایت نہیں کرے گی۔ پس بیشک اگر کسی عذر کی وجہ سے نمازیں جمع کی گئی ہیں ؛ تو اس میں نیت شرط نہیں ہے۔ اوریہ واضح منصوص حکم موجود ہے کہ اگرمسافر نے غیاب شفق سے قبل عشاء کی نماز پڑھ لے تو اس کفایت کر جائے گی؛ کیونکہ اس کے حق میں نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ اگر اس نے عشاء مغرب کے ساتھ نہ پڑھی ہو۔ پس مسافر اور اس کے امثال کے لیے ظہر میں تاخیر او رعصر میں تقدیم جائز ہے؛ اور ایسے ہی مغرب میں تاخیر او رعشاء میں تقدیم جائز ہے۔ جیسا کہ سلف صالحین سے منقول ہے۔ پس یہاں پر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر دوسری نماز کو اس کے خاص وقت سے قبل ادا کیا گیا تو کفایت کر جائے گی۔وہ کہتے ہیں : یہاں پر اختلاف ایسی نماز کے درست ہونے کے متعلق ہے۔ جیسے رمی جمرات کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا وقت کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے؟ پہلے علماء کہتے ہیں : جو آپ نے تقسیم کی ہے؛ جمعہ ؛ رمی جمرات اور حج کی؛ تو شریعت میں ان اعمال کو ان کے متعین وقت کے بعد کسی بھی صورت میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی کوئی معذور او رنہ ہی غیر معذور۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ افعال زمانے کے ساتھ بھی ایسے ہی خاص ہیں جیسے وہ جگہ کے ساتھ خاص ہیں ۔