Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نمازوں میں تاخیر

  امام ابنِ تیمیہؒ

[نمازوں میں تاخیر]یہ وہ لوگ تھے جو ظہر کی نماز میں عصر تک تاخیر کرتے اور عصر کو آسمان میں زردی چھا جانے تک تاخیر کرتے۔ اس تاخیر پر تو ان کی مذمت کی گئی ہے؛ مگر یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو نماز کو بالکل ہی ترک کردیتے ہیں ؛ یا سورج کے ڈوب جانے کے بعد پڑھتے ہیں ۔ بیشک ان لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ لڑنے کا حکم دیا ہے۔جب کہ نماز میں تاخیر کرنے والوں سے جنگ لڑنے سے منع فرمایا ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حکمرانوں کا تذکرہ کیا جو بری بری حرکتیں کریں گے؛ تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم تلواریں لیکر ان پر ٹوٹ نہ پڑیں ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک وہ نماز کی پابندی کریں تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ [تخریج گزرچکی ہے]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ وہ نمازوں کے اوقات میں تاخیر کریں گے؛اور حکم دے رہیں کہ تم اپنے وقت پر نماز پڑھ لیا کرو؛ او ران کے ساتھ نمازیں دھرا لیا کرو۔ تویہ حدیث ان کی نماز کے درست ہونے کی دلیل ہے۔ اگر ان کی نماز بالکل ہی نہ ہوئی ہوتی تو ان سے لڑنے کا حکم دیا جاتا۔صحیحین میں ثابت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( من أدرک رکعۃ مِن العصرِ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک العصر)) [2][2] البخارِیِ1؍116 ِکتاب مواقِیتِ الصلاِۃ وفضلِہا باب من أدرک مِن الفجرِ رکعۃ، مسلِم1؍424 ِکتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاۃِ، باب من أدرک رکعۃ مِن الصلاِۃ فقد أدرک الصلاۃ۔’’جو کوئی سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے ؛ تو اس نے نماز عصر پالی ۔‘‘حالانکہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نماز کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا :(( تِلک صلاۃ المنافِقِ، تِلک صلاۃ المنافِقِ، یرقب الشمس حتی ِإذا کانت بین قرنی شیطان قام فنقر اربعا لا یذکر اللّٰہ فِیہا إِلا قلِیلا ۔)) [3][3] مسلِم1؍434 ِکتاب المساجِدِ، باب استِحبابِ التبکِیرِ بِالعصرِ، سنن الترمذی1؍107 ِکتاب مواقِیتِ الصلاِۃ، باب ما جاء فِی تعجِیلِ العصرِ، سنن النسائِیِ 1؍203 ِکتاب المواقِیتِ، باب التشدِیدِ فِی تأخِیرِ العصرِ، وقد سبق الحدِیث 4؍31۔

’’ وہ منافق کی نماز ہے؛ وہ منافق کی نماز ہے وہ انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان میں ہوتا ہے اٹھ کر چار ٹھونگیں مارتاہے ان میں اللہ تعالیٰ کو بہت کم یاد کرتا ہے۔‘‘اور صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( من فاتتہ صلاۃ العصرِ فکأنما وتِر أہلہ ومالہ۔))[1][1] البخارِیِ1؍111 ِکتاب المواقِیتِ، باب إِثمِ من فاتتہ العصر، مسلِم1؍435 ِکتاب المساجِدِ، باب التغلِیظِ فِی تفوِیتِ صلاِۃ العصرِ، 1؍436’’جس کی نماز عصر رہ گئی گویاکہ اس کے اہل خانہ اور مال سب تباہ ہوگئے ۔‘‘اور صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( من ترک صلاۃ العصرِ فقد حبِط عملہ ۔))[2] [2] البخارِیِ1؍111 ِکتاب مواقِیتِ الصلاِۃ، باب من ترک العصر، سنن النسائِیِ 1؍191، ِکتاب الصلاِۃ، باب من ترک صلاۃ العصرِ۔ وتکلم الألبانِی علی الحدِیثِ فِی إِرواِ الغلِیلِ رقم 255۔’’جس نے عصر کی نماز ترک کردی؛ اس کے اعمال تباہ ہوگئے ۔‘‘اور صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:(( إِن ہذِہِ الصلاۃ عرِضت علی من کان قبلکم فضیعوہا، فمن حافظ علیہا کان لہ الأجر مرتینِ ۔))[3] [3] مسلِم1؍568 کتاب صلاِۃ المسافِرِین، باب الوقاتِ التِی نہِی عنِ الصلاِۃ وفِی سننِ النسائِیِ1؍208 ِکتاب المواقِیتِ، باب تأخِیرِ المغرِبِ، المسند ط۔ الحلبِیِ 6؍396۔’’بیشک یہ نماز تم سے پہلے لوگوں پر پیش کی گئی ؛ مگر انہوں نے اسے ضائع کردیا؛ پس جو کوئی اس کی حفاظت کرے گا؛ تو اس کے لیے دوہرا اجر ہوگا ۔‘‘اورعلمائے کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:(( من نام عن صلاۃ أو نسِیہا فلیصلِہا إِذا ذکرہا فِإن ذلِک وقتہا ۔))[4] [4] البخارِیِ1؍118 ۔کتاب مواقِیتِ الصلاۃِ، باب من نسِی صلاۃ فلیصلِ ِإذا ذکرہا، مسلِم 1؍477 ِکتاب المساجِدِ ومواضِعِ الصلاِۃ، باب قضاِء الصلاِۃ الفائِتِ، والحدِیث فِی سننِ بِی داود والنسائِیِ والتِرمِذِیِ وابنِ ماجہ والدِارِمِیِ والمسنِدِ والموطأِ، وانظر إِروا الغلِیلِ 1؍291۔ 293۔’’ جو کوئی نماز کے وقت سویا رہے؛ یا بھول جائے؛ تو جب اسے یاد آجائے؛ وہ نماز پڑھ لے؛ یہی اس کا وقت ہے ۔‘‘پس سویا ہوا انسان جب بیدار ہو ؛ وہ نماز پڑھ لے؛ اور بھولے ہوئے کو جب یاد آجائے تو وہ نماز پڑھ لے؛ جمہور جیسے امام مالک؛ احمد بن حنبل اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور دیگر کے نزدیک اس پرفوری طور پر فوت شدہ نماز قضاء ہے؛ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سویا ہوا بھول جانے والا اس میں تاخیر بھی کرسکتاہے۔ اور جو کوئی نماز کے بعض واجبات بھول جائے؛ وہ ویسے ہی ہے جیسے ساری نماز بھول جانے والا۔ اگر اس نے نماز پڑھ لی؛ اورپھر اسے وقت نکل جانے کے بعد یاد آیا کہ اس نے بغیر وضوء کے نماز پڑھی ہے؛ تو وہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے گا۔ جیسے حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہمانے لوگوں کو نماز پڑھائی؛ او رپھر انہیں یاد آیا کہ وہ حالت جنابت میں تھے؛ تو انہوں نے اپنی نماز دوبارہ پڑھ لی؛ مگر مقتدیوں کو نماز دوبارہ پڑھنے کا نہیں کہا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو سورج طلوع ہونے کے بعد یاد آیا۔[1][1] وانظر إِروا الغلِیلِ1؍293 وجاء الحدِیث مختصراً فِی سننِ أبِی داود1؍179 کتاب الصلاِۃ باب من نام عنِ الصلاِۃ أو نسِیہاایسے ہی اگر کوئی انسان نماز میں تاخیر کرتا ہے؛ اوروہ اس تأخیرکو جائز سمجھتاہے؛ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر کیا تھا۔ آپ نے سورخ غائب ہو جانے کے بعد یہ نمازیں پڑھی تھیں ۔ تو اس تاخیر کی کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ یا تو آپ بھو ل گئے تھے۔ یا پھر آپ کے حق میں اتنی تاخیر کرنا اس لیے جائز تھا کہ آپ دشمن کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے۔اس مسئلہ میں علمائے کرام رحمہم اللہ کے تین اقوال ہیں : یہ بھی کہا گیا ہے کہ: حالت جنگ میں ہی نماز پڑھی جائے گی؛ اس میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔ اور خندق میں جو تأخیر کی گئی تھی؛ وہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔ یہ امام مالک امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مشہور مذہب ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے تقدیم اور تاخیر کا اختیار ہے ۔اس لیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ وہ عصر کی نماز بنو قریظہ میں پہنچ کر پڑھیں ؛ تو ان میں سے ایک گروہ نے تاخیر کی؛ حتی کہ عصر کی نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھی۔ اوران میں سے ایک گروہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کامطلب یہ تھا کہ ہم دشمن کی طرف جلدی سے نکل پڑیں ؛ نماز کو اس کے وقت سے فوت کرنا مقصد نہیں تھا۔ تو انہوں نے راستے میں نماز پڑھ لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک گروہ پر بھی تنقید یا سختی نہیں کی۔ یہ حدیث صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے؛ اور اہل شام کے ایک گروہ کا مسلک ہے؛ اور امام احمد سے ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ: وہ نماز میں تأخیر کرے گا؛جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقعہ پر کیا تھا۔ یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے۔ پس فی الجملہ جو کوئی بھی نماز میں تاخیر کرے؛ تو اسے معذور سمجھا جائے گا؛ یا تو اس کی بھول کی وجہ سے؛ یا پھر اجتہاد میں خطا کی وجہ سے۔ تو اس صورت میں وہ وقت کے بعد یہ نماز پڑھے گا۔ جیسے وہ انسان جو خیال کرتا ہو کہ سورج ابھی تک طلوع نہیں ہوا؛ اوروہ طلوع آفتاب تک نماز کو مؤخر کرتا ہے۔ یا جو خیال کرتا ہے کہ عصر کا وقت ابھی باقی ہے؛ اوروہ عصر کو مؤخر کرتا ہے حتی کہ سورج غروب ہو جاتا ہے۔ یہ انسان اب اسی وقت میں نماز پڑھ لے گا۔اکثر علماء کا قول ہے کہ اب سورج غروب ہونے تک نماز میں تاخیر کرنے کا جواز باقی نہیں رہا۔ اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ تاخیر کرنا جائز ہے؛ تو وہ پھربھی نماز پڑھے گا؛ بھلے وہ اپنے اجتہاد سے تاخیر بھی کردے۔ اور پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ : چونکہ اس نے اپنے اجتہاد سے تاخیر کی ہے؛ اس لیے اس کا شماران اہل وعید میں نہیں ہوگا جو اس حدیث میں مذکور ہیں :(( من ترک صلاۃ العصرِ فقد حبِط عملہ ۔))[سبق تخریجہ ]’’جس نے عصر کی نماز ترک کردی؛ اس کے اعمال تباہ ہوگئے ۔‘‘پس بیشک بنا بر تأویل ایسا کرنے والا مجتہد خطا کار ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:(( إِن اللہ تجاوز لِی عن أمتِی الخطأ والنِسیان۔))[سبق تخریجہ ]’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے خطا و نسیان کو معاف کردیا ہے ۔‘‘یہ حدیث حسن ہے۔ نیز اس پر قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں ۔ہاں جو کوئی انسان کو اس کے واجب ہونے کا حکم جانتے ہوئے جان بوجھ کر فوت کردے؛ یا اس کے بعض واجبات کو ترک کردے؛ او روہ ان کے واجب ہونے کا حکم جانتا بھی ہو۔ تو اس مسئلہ میں علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔ لیکن ان تمام اقوال میں یہی کہا گیا ہے کہ : وقت کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کا ادا کرنا صحیح ہوگا۔ اور ایسا کرنا اس کے پر واجب ہے۔ اورجو کچھ وہ کرے گا؛ اس پر اسے ثواب ملے گا؛ اور اس کے ترک کرنے پر اسے سزا جھیلنا پڑے گی۔ جیسے کوئی نماز ظہر میں عصر کے وقت تک تأخیر کرے؛ اور مغرب اور عشاء میں بلا عذر رات کے آخری حصہ تک تاخیر کرے۔یہ قول امام احمد ؛ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہم اللہ کا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے: ہر نماز کو اس کے وقت میں دوہرانا واجب ہے۔ پس اگر وقت گزر گیا تب بھی اس کا اعادہ واجب ہوگا۔ جب کہ امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر اہل مدینہ فرق کرتے ہیں ؛ جو نماز وقت میں دوہرائی جائے گی؛ اور جو وقت گزرنے کے بعد دوہرائی جائے گی ۔ پس جو چیز فرض نہ ہو؛ بلکہ واجب ہو؛ اسے وہ سنت کا نام دیتے ہیں ۔ اور جب نماز کو اس وقت پر چھوڑ دیا جائے تو اس کے دوہرانے کا حکم دیتے ہیں ؛ جیسے کوئی نجاست کے ساتھ نماز پڑھ لے۔ اور جو چیز فرض ہو؛ جیسے رکوع؛ اور سجدہ؛ اور طہارت ؛تو ان کا تارک ایسے ہی ہے جیسے کسی نے نماز پڑھی ہی نہ ہو؛ اسے وقت کے بعد بھی دوہرایا جائے گا۔بہت سارے لوگوں نے وقت میں اور وقت کے بعد اعادہ کی اس تقسیم کا انکار کیا ہے۔ علامہ مزنی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ پر تیس مسائل کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے؛ ان میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے۔ اور ایسے ہی مزنی رحمہ اللہ نے شیخ ابوبکر الابہری اور ان کے ساتھی قاضی عبدالوہاب رحمہما اللہ پر بھی رد کیا ہے۔ ان کا سارا سرمایہ ہے کہ : بیشک اگر نماز کو اس کے وقت میں ایسے ادا کردیا جائے؛ جیسے حکم دیا گیا ہے؛ تو پھر اس پر کوئی اعادہ نہیں ؛ نہ ہی وقت میں ؛اور نہ ہی وقت کے بعد۔ اور اگر ویسے نہ ادا کرے جیسے انسان کو حکم دیا گیا ہے؛ تو یہ نماز اس کے ذمہ میں باقی ہے۔ وہ اس کا اعادہ کرے گا؛ بھلے وہ وقت میں ہو یا وقت کے بعد۔اور اہل مدینہ کہتے ہیں : اس کا وقت میں ادا کرنا واجب ہے؛ کسی ایک کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے وقت سے تاخیر کرے۔ اگر متروک عمل کا وقت مؤکد ہو؛ تو پھر اس کے بعد اس کی ادائیگی نہیں ہوگی۔کیونکہ وقت کے بعد اس کی تلافی ممکن نہیں رہی۔ پس بیشک نجاست کے ساتھ نماز پڑھنا؛ یا ننگے نماز پڑھنا؛ اس نماز سے بہتر ہے؛ جو وقت گزرنے کے بعد بلا نجاست پڑھی جائے۔اگر ہم وقت کے بعد اسے نماز دہرانے کا حکم دیں گے ؛تو حقیقت میں ہم اسے اس کی پڑھی ہوئی نماز سے ناقص چیز کے بجالانے کا حکم دینے والے ہوں گے۔ جبکہ شارع اس بات کا حکم نہیں دیتا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی ارکان؍فرائض میں سے کوئی رکن؍ فرض ترک کردے؛ تو وہ ویسے ہی ہے جس نے نماز پڑھی ہی نہ ہو؛ اسے وقت کے بعد بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔