[فلاسفہ کی دھوکہ بازی کی اقسام ]
امام ابنِ تیمیہؒ[فلاسفہ کی دھوکہ بازی کی اقسام ]یاد رہے کہ مغالطہ بازی کی تین قسمیں ہیں :۱۔حقائق اور ان کے متعلق علم کا انکار کرنا۔اس میں سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ کوئی انسان واجب الوجود خالق اور قدیم اور موجود کے متعلق یہ کہہ دے : وہ نہ ہی موجود نہ ہی معدوم ہے۔ بیشک اس صورت میں وہ جزم کے ساتھ اپنے عدم جزم کو ثابت کررہے ہیں ۔۲۔ حقائق میں توقف کرنااور کوئی فیصلہ صادر نہ کرنا۔وہ جو ہر بات پر کہتے ہیں : میں نہیں جانتا۔ جو کہتے ہیں : ہمیں پتہ نہیں اس کی کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں ؟ ان میں سب سے گئے گزرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں : ہم نہیں جانتے اور ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ موجود ہے یا معدوم یاوہ زندہ ہے یا مردہ؟۳۔ تیسری قسم : وہ لوگ ہیں جو حقائق کو اپنے پہلے سے طے شدہ عقائد کے تابع کرتے ہیں ۔پس پہلا گروہ منکرین کا ہے۔ دوسرا گروہ اہل توقف کا ہے ۔ اور تیسرا گروہ حقائق کو ظنون و اوہام کے تابع کر نے والوں کا ہے۔بعض علماء کے نزدیک سفسطہ کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ :۴۔ یہ کائنات ارضی جاری و ساری ہے اور اسے کہیں قراراور ثبات نہیں ۔یہ لوگ پہلی قسم میں شمار ہوتے ہیں ؛ لیکن اس کا یہ قول اس کو واجب کرتا ہے۔ [1][1] ابن حزم اپنی کتاب :الفِصل (1؍9 ) میں سوفسطائیہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں : متکلمین کے اسلاف کے تین گروہ ذکر کئے گئے ہیں : ایک گروہ وہ ہے جو جملہ طور پر حقائق کی نفی کرتا ہے۔دوسرا گروہ اس میں شکوک و شبہات کا شکار رہتا ہے۔ تیسرا گروہ: کہتے ہیں : جن کے پاس حق ہے ان کے لیے یہ حق ہیں اور جن کے پاس باطل ہے ان کے لیے یہ باطل ہیں ۔ علامہ جرجانی نے انہیں تین گروہوں میں تقسیم کیاہے : لا أدریہ : جو توقف کرتے ہیں ۔ عنادیہ : جو معاند ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ اصل میں کوئی چیز موجود ہی نہیں ۔ اور عندیہ : جو حقائق کو اپنے اعتقادات کے تابع بناتے ہیں ۔شرح المواقف للایجی 1؍117۔یہاں پر مقصود ہے کہ انسان کا نقیضین سے رک جانا؛ ان دونوں کے ختم ہونے تقاضا نہیں کرتا۔ اور اس عقیدہ کا حاصل کلام یہ ہے کہ دلوں اور زبانوں اور جوارح کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے ذکر اور عبادت سے روکا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ : یہ وقف اور امساک کے طرز پرکفر اور تعطیل ہے نہ کہ نفی اور انکار کے طور پر ۔باطنیہ کی بے راہ روی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ لفظ تشبیہ میں اجمال و ابہام پایا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر دو اشیاء کے مابین ایک قدر مشترک موجود ہے، جس کی بنا پر ذہن میں وہ دونوں چیزیں ہم آہنگ نظر آتی ہیں ؛خارج میں ایسے نہیں ہوتا ۔ تاہم یہ ضروی نہیں کہ وہ دونوں اس قدرمشترک میں برابر ہوں ۔ بخلاف ازیں اکثر اوقات اشیاء کے درمیان قدر مشترک میں تفاضل پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب دو چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ:’’ فلاں فلاں زندہ ہیں اور فلاں فلاں صاحب علم ہیں ۔اور فلاں اور فلاں صاحب قدرت ہیں ۔‘‘ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ علم و حیات اورقدرت میں ایک دوسرے کی مثل ہوں ۔ اور نہ یہ کہ ایک شخص کی حیات و علم اور قدرت بعینہٖ دوسرے کی حیات وعلم اور قدرت ہے۔ مزید برآں اس سے یہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوتا کہ وہ دونوں کسی موجود فی الخارج میں باہم سہیم و شریک ہیں ۔یہاں سے ان جہال کی گمراہی کہ ابتداء ہوتی ہے کہ وہ مسمیٰ تشبیہ جس کی اللہ تعالیٰ سے نفی کرنا واجب تھی؛اسے انہوں نے تعطیل محض کا ذریعہ بنالیا۔تعطیل کا عقیدہ تجسیم کے عقیدہ سے بھی زیادہ برا ہے۔ مشبہہ صنم پرستی کرتے ہیں ۔ اور معطلہ عدم پرستی کرتے ہیں جب کہ ممثلہ اور معطلہ دونوں اندھے بہرے اور گونگے ہیں۔[1][1] علامہ اشعری نے اپنی کتاب المقالات ۱؍۳۱ پر اس سے حکایت نقل کی ہے؛ کہتا ہے: میں اللہ تعالیٰ کو شے نہیں کہتا؛ اس لیے کہ اس سے اشیاء سے مشابہت لازم آتی ہے۔ اور ایک دوسرے موقع پر کہا ہے: میں باری تعالیٰ کو شے نہیں کہتا؛ اس لیے کہ اس کے نزدیک شے مخلوق ہے جس کی مثل دوسری اشیاء بھی ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان گمراہوں کا امام جہم بن صفوان اور اس کے امثال و ہمنواکہتے ہیں : اﷲ تعالیٰ کوئی چیز نہیں ۔اور اس سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ان اسماء سے موسوم نہیں کیا کرتا تھاجن سے مخلوقات کو موصوف کیا جاتا ہے۔ البتہ وہ ذات باری تعالیٰ کو قادر و خالق کہا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہم جبر کا عقیدہ رکھتا تھا۔ اس کے نزدیک بندے میں کوئی قدرت نہیں پائی جاتی۔[2] [2] ان جبریہ کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوق میں کوئی قدرت نہیں پائی جاتی۔ (دیکھیں الملل والنحل شہرستانی؛ ۱؍۷۹ ) ۔ اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ : اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے موصوف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے۔ پس اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے عالم اور حیی ہونے کی نفی کرتا اور قادر اور خالق اور فاعل ہونے کی صفات کو تسلیم کرتا تھا۔اور کہتا تھا کہ مخلوق میں سے کوئی بھی خالق؛ قادر اور فاعل نہیں ۔ (الفرق بین الفرق ص ۱۲۸؛ التبصیر فی الدین ۶۴؛ الملل والنحل ۱؍۸۰)۔بسا اوقات وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ باقی اشیاء کی طرح شے نہیں ہے۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مانند کوئی بھی چیز نہیں ۔لیکن اس سے ان کا یہ مقصود ثابت کرنا ہے کہ تشبیہ کی حقیقت اس سے منتفی ہے تاکہ وہ کوئی ایسی چیز ثابت نہ کریں جو کہ متفق علیہ ہو۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ سے تشبیہ اور تمثیل کی نفی کی جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے کتاب عزیز کے متعدد مقامات پر تمثیل کی نفی کی ہے، اس ضمن میں مندرجہ ذیل آیات قابل ملاحظہ ہیں :﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱)’’اس کی مانند کوئی چیز نہیں ۔‘‘نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴾ (مریم:۶۵)’’کیا اﷲ کا کوئی ہم نام تجھے معلوم ہے۔‘‘نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ لَمْ یَکَنْ لَہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ (اخلاص:۴)’’اس کا کوئی ثانی[ہمسر ] نہیں ۔‘‘نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ (البقرہ: ۲۲)’’اﷲ کے لیے شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾ (النحل:۷۴)’’اﷲ کے لیے مثالیں نہ بیان کرو۔‘‘لیکن لفظ تشبیہ میں اجمال واقع ہوا ہے؛ جس کو آگے چل کر ہم تفصیل سے بیان کریں گے؛ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔