﴿ لیغفرلک اللہ ما تقدم﴾کی صحیح تفسیر
امام ابنِ تیمیہؒ﴿ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ﴾کی صحیح تفسیر:اس عقیدہ کے منکر قرآن کی تحریف کرنے سے بھی باز نہیں آتے؛ وہی بہتان تراشی اور تحریف قرآن ان کا وطیرہ ہے؛ اور قرآن میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں ۔مثلاً قرآن کریم کی یہ آیت:﴿ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ ﴾ (الفتح:۲) ’’تاکہ اﷲ تعالیٰ آپ کے سابقہ اور آمدہ گناہ معاف کر دے۔‘‘
شیعہ کہتے ہیں کہ: ’’ مَا تَقَدَّمَ ‘‘سے حضرت آدم علیہ السلام کا گناہ مراد ہے۔ اسی طرح وہ ’’مَا تَاَخَّرَ‘‘سے امت محمدی کے گناہ مراد لیتے ہیں ۔بلاشک و شبہ یہ بھی کلمات قرآن میں کھلی ہوئی تحریف ہے۔[اس کی وجوہات ]:پہلی وجہ :حضرت آدم علیہ السلام بھی ایک معزز نبی تھے۔اور آپ کی غلطی تو زمین پر اترنے سے قبل اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کر لی تھی، اس وقت حضرت نوح و ابراہیم علیہ السلام ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔پھر کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں پر اس آیت کریمہ : ﴿اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا﴾ (فتح 1) ’’ بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلی فتح دی ہے ‘‘ سے مراد یہ ہے تاکہ آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے گناہ معاف کردے۔[ گویا وہ جس بات سے بچنا چاہتے تھے، اسی کے مرتکب ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لغزش کی نفی کی اور اسی لغزش کو حضرت آدم علیہ السلام سے چسپاں کر دیا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟]دوسری وجہ : علاوہ ازیں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ (النجم:۳۸)’’کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘تو پھر ایک کے گناہ کا بوجھ دوسرے پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟تیسری وجہ :وہ مشہور حدیثِ شفاعت جسے کتب ستہ میں روایت کیا گیاہے؛ اس میں ہے:’’چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: اے بابا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا ، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی ، ملائکہ سے آپ کو سجدہ کروایا۔.... آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں ۔....تو وہ اپنی غلطی کو یاد فرمائیں گے ....پھر سب لوگ نوح پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسی و حضرت عیسی علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے؛ ....وہ کہیں گے: آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جائیں ۔ وہ ایسی ہستی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اگلی اور پچھلی لغزشیں معاف کردی ہیں ....۔‘‘ [1] [1] البخاری 6؍84 ؛ کتاب التفسِیرِ، سورۃ بنِی ِإسرائِیل: باب ذرِیۃِ من حملنا مع نوح؛ مسلِم 1؍180 کتاب الِإیمانِ، باب أدنی أہلِ الجنۃِ منزِلۃ۔تو آپ کی کمال عبودیت اوراللہ تعالیٰ کی جانب سے کمال مغفرت آپ کی شفاعت کی قبولیت کا سبب بنے گا۔‘‘ اگر یہ عنایت حضرت آدم علیہ السلام کے لیے ہوتی تو آپ اہل مؤقف کی شفاعت کرتے ۔چوتھی وجہ :....جب مذکورۃ الصدرآیت[إِنا فتحنا لک فتحا مبِینا] نازل ہوئی، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آیت تو خصوصی طور پر آپ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، ہمارے متعلق کیا ارشاد ہے؟ تب مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:﴿ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ....﴾(الفتح۴۔۵)’’وہ اﷲ ہی کی ذات ہے جس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکون کو نازل کیا تاکہ ان کے ایمان میں اور اضافہ ہو۔‘‘ [1] [1] صحیح بخاری، کتاب المغازی ، باب غزوۃ الحدیبیۃ(ح:۴۱۷۲)۔اگر پہلی آیت میں ’’ما تأخر‘‘ سے امت کے گناہ مراد ہوتے توآپ فوراً ارشاد فرما دیتے :’’یہ آیت تو تمہارے لیے ہے۔‘‘ پانچویں وجہ : ایک کم عقل آدمی بھی یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے پوری امت کے گناہ معاف کر دئیے؛ حالانکہ امت کے بعض افراد اپنے گناہوں کی بنا پر دوزخ میں جائیں گے،[ تو پھر مغفرت کیا ہوئی؟]یہ علیحدہ بات ہے کہ یہ لوگ بعد میں شفاعت کے سبب سے جہنم سے نکالے جائیں گے۔یہ اور اس جیسی دیگر آیات مانعین کی بہترین تاویلات ہیں ۔ کیونکہ قرآن کریم انبیائے کرام علیہم السلام کی ان کی لغزشوں سے توبہ و استغفار پر دلالت کرتا ہے۔جب کہ اس کے برعکس ان لوگوں کا گمان ہے نہ ہی کسی چیز توبہ کا موجب تھی اور نہ ہی استغفار کا کوئی سبب۔ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی۔ اور نہ ہی ان کی توبہ پر خوش ہوا؛ اور نہ ہی اپنی رحمت سے ان کی مغفرت فرمائی ۔مگر پھر بھی انہوں نے ان تمام تفسیروں اور تاویلات کا بیڑا أٹھالیا جو کہ دراصل تحریف قرآن اور اللہ تعالیٰ پر ایک باطل بات ہیں ۔ جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔