[اللہ کے ماسواء محتیّز یا محتیّز کے ساتھ قائم ]یہ ان کے قول:’’ إن ماسوا اللّٰہ إما متحیز وإ ما قائم بالمتحیز ‘‘کے خلاف ہے۔میں کہتا ہوں :’’ طوسی کا یہ اعتراض کہ تحیزسے مراد مکان ہے؛یہ متکلمین کے ہاں مشہور قول نہیں ؛بلکہ ان کے ہاں مشہور ان دونوں میں فرق ہے۔‘‘اور اس نے مکان کے بارے میں جو دو اختلافی اقوال ذکر کئے ہیں ؛ اصل وہ ارسطوکے شاگردوں اور افلاطون کے شاگردوں کے مابین اختلاف ہے۔وہ کہتے ہیں :’’ وہ جوہر قائم بالذات ہے؛ جس میں اجسام حلول کرجاتے ہیں ۔‘‘ یہ بہت سارے متکلمین کا قول نہیں ۔ بلکہ ہر وہ چیز جو بذات خود قائم رہ سکے ان کے ہاں جسم کہلاتی ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں جوھر جس کا جسم ہے ان کے ہاں قائم بالنفس نہیں ہوتا سوائے ان دو مواقع کے۔ ان میں سے جنہوں نے جوھر کو بغیر جسم کے ثابت کیا ہے؛ تووہ ان کے ہاں محدث ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز محدث ہے؛ عدم اس پر سبقت لے جا چکا ہے۔اس پر اھل ملت[تمام ادیان] کا اتفاق ہے؛خواہ وہ اس کی فاعلیت کے دوام کے قائل ہیں کہ اس سے ہمیشہ ایک چیز کے بعد دوسری چیز پیدا ہوتی رہتی ہے؛ یا پھر وہ اس کی فاعلیت کے دوام کے قائل نہ ہوں ۔
وہ متکلمین جوکہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ کے ما سواجو بھی ہے؛ یا وہ جسم ہے یا قائم بالجسم ہے‘‘؛ وہ تناقض کا شکارہیں ۔ کیونکہ ان میں سے اکثر خلاء کو امر موجود ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کی تقدیر نہیں ہوتی؛ بلکہ اس میں تقدیر فرض کی جاتی ہے۔اور خلاء وہ جوہر ہے جسے افلاطون بھی ثابت کرتا ہے۔لیکن اھل ملل اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی قدیم وجود کو نہیں مانتے۔ کیونکہ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور ہر مخلوق پر عدم کو سبقت حاصل ہے۔ اگر خالق کے ساتھ اس کا دوام مانا جائے؛تو اس کا ایک چیز کے بعد ایک چیز کو دائمی پیدا کرنا اس بات کی نفی نہیں کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ماسواء ہر چیز مخلوق اور محدث ہے؛ اور عدم کے بعد وجود میں آئی ہے۔ اور ایسے قدیم کا وجود ممکن نہیں جو اپنے قِدم[پراناہونے میں ] اللہ تعالیٰ کے قدم کے برابر ہو۔ بلکہ صریح عقل اس کا انکار کرتی ہے؛ اور مرسلین علیہم السلام کی اللہ سے متعلق دی ہوئی خبرکے خلاف ہے۔ جیسا کہ مناسب مقام پریہ تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ارسطو اور اس کے شاگرد کہتے ہیں :’’ مکان اس حاوی جسم کی باطن سطح ہے جو[گھیری ہوئی چیز کے] جسم کی ظاہری سطح سے ملا ہوتا ہے۔جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ عرض ہے۔٭ انہ بدیھی الاینیۃ خفی الحققیۃ (بدیہی وجود اور مخفی حقیقت کا ہونا)یعنی ان فلاسفہ کے ہاں ہے؛ مسلمان علماء کے ہاں الحمد للہ ایسا نہیں کہ اس میں سے کچھ مخفی ہو۔ بلکہ لفظ مکان سے مراد بسااوقات ایسی چیز ہوتی ہے جو اس سے اوپر ہو اور اس کی محتاج ہو۔ جیسا کہ انسان کبھی چھت کے اوپر ہوتا ہے۔ اس سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جودوسری چیز سے اوپر ہو؛ اورجس کی محتاجی نہ ہو۔ مثلاً آسمان کا فضا کے اوپر ہونا ؛فرشتوں کا زمین اور ہوا کے اوپر ہونا؛ پرندوں کا زمین کے اوپر ہونا ۔اسی سے حسان بن ثابت قول ہے: تعالیٰ علوً افوق عرش إِلھُنا....۔حضرت حسان رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اللہ تعالیٰ کا مقام اس سے بڑھ کر اور بلند و بالا تھا۔ اوریہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے سوا ہر چیز سے بے پرواہ ہے۔ اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے؛ جیسے عرش یا کوئی دیگر چیز ؛ وہ سب اسی کی محتاج ہیں ۔ اسے کسی کی محتاجی نہیں سوا س کا مکان ثابت ہوا۔سلف ، صحابہ بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کی بات کو سن کر خاموش رہتے جیسا کہ عبداللہ بن رواحہ کا شعر ہے:شھدت بان وع(داللہ حق وان النار مثوی الکا فرینا وان العرش فوق الماء طاف وفوق العرش رب العالمینا وتحملہ ملائکہ شداد ملائکۃ الا لہ مسومینا
(یہ اشعار استیعاب از ابن عبدالبر میں ہیں اور آئندہ قصہ بھی اسی میں ہے)’’ میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور آگ کا فروں کا ٹھکانہ ہے؛اور بیشک اللہ کا عرش پانی پر تیرتا رہا ہے؛ اور عرش پر رب العلمین ہے۔اس عرش کو مضبوط فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے؛ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص [مخصوص علامات والے]فرشتے ہیں ۔‘‘٭ ایک مشہور قصہ ہے جسے کئی علماء نے ذکر کیا ہے جب ایک عالم نے اپنی کسی باندی سے وطی کی ؛تو اس کی بیوی نے اسے دیکھ لیا ۔تو وہ اسے تکلیف دینے کے لیے اس کے قریب آئی؛ مگراس نے اپنی اس حرکت کا اعتراف نہیں کیا۔ اس عورت نے کہا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو قرآن پڑھنے سے روکا نہیں ؟ پھر[اس عالم نے ] یہ اشعار پڑھے؛ تو اس کی بیوی نے سمجھا شاید یہ قرآن ہے اور خاموش ہو گئی جب آپ کو بتایا گیا تو آپ نے اس کی تحسین کی۔‘‘٭ بسا اوقات مکان سے مراد ایسی جگہ ہوتی ہے جو ہر طرف سے کسی چیز سے گھیری ہوئی ہو۔رہ گیا مکان سے مراد باطنی سطح مراد لی جائے ؛ یا غیر محسوس جوہر مراد لیے جائیں ؛ تو یہ فلاسفہ کا قول ہے۔ہمارے علم کی حد تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؛تابعین عظام ؛اورمسلمان ائمہ رحمہم اللہ میں سے کسی کا قول نہیں جو مکان سے یہ معنی مراد لیتے ہوں ۔ ارسطو نے لفظ مکان سے جو معنی مراد لیا ہے وہ عرض ثابت ہے؛ لیکن عام مسلمانوں اور علماء کے ہاں اس کا یہ معنی نہیں ؛ اور نہ ہی جمہور امتوں کے آئمہ اور عوام یہ معنی مراد لیتے ہیں ۔ افلاطون جو معنی لیتے ہیں اس کا جمہور عقلاء نے خارج میں وجود ماننے سے انکار کیا ہے۔ اس کی تفصیل کسی اور جگہ بیان کریں گے۔ اسی طرح اھل نظر[مناظرین] کے ہاں اجسام میں تداخل کے قول میں اختلاف معروف ہے ۔ رازی کا تداخل کے متعلق کہنا یہ محال ہے؛ یہی مشہور مقام امتناع ہے۔ مگر کسی اھل نظر نے نہیں کہا کہ جوہر میں حیز تداخل کے معنی میں ہے۔ برابر ہے حیز کی تفسیر امر عدمی سے کی جائے جیسا کہ ائمہ کلام کے ہاں معروف ہے یا حیز کی تفسیر معقول معنی لغوی کے ساتھ کی جائے؛ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ ﴾(انفال 16)’’ یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو۔‘‘یہ حیز جسم سے جو متحیز کو ملاتا ہے یہ عدم یا عرض نہیں ؛اورنہ ہی جو ہری عقلی ہے جس کے وجود بھی متنازع ہے ۔ مقصود یہ ہے کہ حیز کا جو بھی معنی لیں ؛ نظّار کہیں گے: ’’بیشک جو ہرکے ’’حیز ‘‘ میں ہونے کا مطلب وہ تداخل نہیں ہے جس وجود میں ہی اختلاف ہے۔اس لیے کہ اس موقع پر مسئلہ تداخل میں کلام کرنے کی اب کو ئی ضرورت ہی نہیں ہے[یہ تفصیل بیان ہوچکی ہے]۔