۳) تیسرا فرقہ :جو کہ اعتزال اور عقیدہ امامت کے قائل ہیں ؛ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ حرکت نہیں پس ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ کا ارادہ مراد کے غیر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی وجہ سے یہ مخلوق ہے نہ کہ اس کے ارادے سے یعنی یہ اللہ کی ذات کے ساتھ لگا ہوا ہے اور بعض وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کسی شے کا ارادہ کرنا ہی خود وہ شے ہے(یعنی چیز کا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اس کے وجود کا ارادہ کرنا ہی عبارت ہے اس چیز کے وجود سے) اور بندوں کے افعال کاارادہ اللہ تعالیٰ کا ان کو اس فعل کا امر دینے سے عبارت ہے اور ظاہر ہے کہ وہ امر ان کے فعل کا غیر ہے اور وہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے معاصی کا ارادہ کیا تو اس کے ارادے سے وہ وجود میں آئے ۔۴) چوتھا فرقہ : ان کا عقیدہ ہے کہ ہم فعل کے وجود میں آنے سے پہلے یہ نہیں کہتے کہ اللہ نے ارادہ کیا ۔اور جب طاعت وجود میں آجاتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کا ارادہ کیا۔ اور جب کوئی معصیت وجود میں آجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اور اس سے خوش نہیں ہوتے۔ میں تو کہتا ہوں کہ قولِ ثالث تو متأخرینِ روافض کا قول ہے جیسے کہ مفید اور اس کے وہ اتباع۔ جنہوں نے معتزلہ کی اتباع کی ہے اور وہ اس کتاب کے صاحب کا ایک گروہ ہے اور قول اول تو معتزلہ میں سے بصرئین کا قول ہے اور دوسرا بغدادیین کا قول ہے پس یہ شیعہ معتزلہ کے قول کو اختیار کرنے والے ہوئے ۔الحاصل یہ وہ مقالات ہیں جو تشبیہ وتجسیم کے بارے میں نقل کئے گئے ہیں اور قدمائے روافض کی بہ نسبت ہمیں کوئی اور ایسا شخص نہیں معلوم جس نے مسلمانوں کے طوائف سے یہ غلط عقائد اس طرح نقل کئے ہوں جیسے کہ اس نے نقل کئے ہیں ۔ اور روافض اس باب میں راہ حق سے محروم کر دیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ امورمیں ان کے قدماء تو اُس تجسیم کے قائل ہیں جو غالی مجسمہ کا قول ہے اور ان کے متاخرین تو معتزلہ میں سے غالی معطلہ کی موافقت میں اللہ تعالیٰ کی صفات میں تعطیل کے قائل ہیں ۔ان کے آئمہ کے اقوال تعطیل اور تمثیل کے درمیان دائر ہیں ۔ ان میں کوئی ایسا قول کسی کا نہیں ملتا جو ان دونوں راستوں کے درمیان اعتدال کا راستہ ہو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے جو آئمہ مسلمین ہیں صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو ایک متوسط قول پر متفق ہیں جو کہ تمثیل اور تعطیل دونوں قولوں کے مغایر ہے۔ اور یہ ایسی بات ہے جو اصول دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے أئمہ اہل بیت کے ساتھ روافض کے اختلاف کو واضح کرتی ہے۔ جیسے کہ یہ لوگ أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیںویسے ہی کتاب اللہ اور صریح سنت کی بھی مخالفت کرتے ہیں ۔ اور کیونکہ اس قوم کے مذہب کی بنیاد جہل ،جھوٹ اور خواہش پرستی پر ہے۔ اور یہ اگرچہ بارہ شرائع میں اور دینی احکام میں بارہ آئمہ کے اتباع کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ پس اگر آئمہ اہل بیت میں سے کوئی ایسا امام پایا جائے جس کی تقلید جائز ہو اور اس میں اجتہاد کی اہلیت ہو جیسے کہ علی بن حسین ہیں یعنی امام زین العابدین ،ابو جعفر باقر ،امام جعفر صادق اور ا نکے امثال ،تو یہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے کہ ان کی تقلید کی جائے۔ اوراہل سنت نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ مقلدین کے لیے ان آئمہ اہل بیت اور ان کے امثال کی تقلید جائز نہیں ۔ بلکہ اہل سنت تو اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ حضرات اور ان کے امثال میں سے کسی ایک کی تقلید بھی اسی طرح ہے جیسے ان کے ہمنواؤں کی تقلید ۔اور جس کے لیے ان میں سے کسی ایک کی تقلید جائز ہے؛ اس کے لیے ان کی تقلید بھی جائز ہے۔ اور اکثر علماء سنت تو اس بات پر ہیں کہ شرائع میں صرف اس کے لیے تقلید کرنا جائزہے جو استدلال سے عاجز آگیا ہو۔ یہ امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ سے منصوص ہے۔ اور اس پر ان کے اصحاب کا عمل بھی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے جو منقول ہے کہ ایک عالم کے لیے دوسرے عالم کی تقلید جائز ہے ؛یہ ان پر افتراء اور غلط الزام ہے۔یہ قول محمد ابن الحسن کا ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ۔ ان سے بھی منقول ہے کہ عالم کے لیے اپنے سے اعلم کی تقلید جائز ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک عالم کیلئے دوسرے کی تقلید جائز ہے۔یہ اختلاف تو اس صورت میں ہے جب اس عالم کے سامنے کوئی ایسا قول واضح موجود نہ ہو جو کتاب و سنت کے موافق ہو۔ اور اگر ان دونوں کے سامنے کوئی ایسی صریح بات آجائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو تو پھر ان کے لیے بالاتفاق اس کے بخلاف کسی کی تقلید جائز نہیں ہے ۔رہا ایسے شخص کی تقلید جو خود استدلال کرنے سے قاصر ہو تو جمہور اسے جائز سمجھتے ہیں اور اصحابِ ظواہر میں سے ایک گروہ اس کو بھی منع اور ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ جمہور علمائے مسلمین اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد اور استدلال پر قدرت ایک ایسا امر ہے جو انقسام اور تبعیض کوقبول کرتا ہے یعنی کم اور زیادہ ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات ایک آدمی کسی ایک مسئلے میں اجتہاد اور استدلال پر قادر ہوتا ہے یا علم میں سے کسی ایک خاص نوع میں استدلال پر قادر ہوتا ہے دوسرے نوع میں نہیں ۔ جیسے فرائض میں تو قادر ہے لیکن بیوعات میں قادر نہیں ۔ اور یہی حال اکثر علمائے مسلمین کا ہے۔ لیکن وہ قوتِ استدلال اور کثرتِ استدلال میں باہم متفاوت ہیں ۔ پس مشہور آئمہ اکثر مسائل شرع میں اجتہاد اور استدلال پر قادر ہیں ۔رہا یہ کہ اگر اس بات کا دعویٰ کیا جائے کہ ان میں سے کوئی اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ وہ دین کے ہر ہر مسئلے میں اللہ کے حکم کو اس کی صریح دلیل کے ساتھ جان لے تو یقیناً اس نے ایک ایسی بات کا دعویٰ کیا جس پر اس کے پاس صحیح علم نہیں بلکہ اس نے ایسا دعویٰ کیاہے جس کو وہ خود بھی جانتا ہے کہ یہ باطل ہے ۔