Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

رجوع حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ

  مولانا اللہ یار خانؒ

رجوع حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ

سیرة ابنِ ہشام میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ خیبر کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ہمراہ موجود نہیں تھے (سیرة: صفحہ 331 جلد 2) اس واسطے خیبر کے دن کی حرمتِ متعہ کا ان کو علم نہیں تھا۔

"اخرج الخازمی بسنده الى جابر بن عبد اللهؓ قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى غزوة تبوك حتىٰ إذا كنا عند العقبه مما يلى الشام جاءت النسوة فذكرنا تمتعهن يطغن فی رحالنا فجاء رسول اللهﷺ فنظر اليهن فقال من هولاء النسوة فقلنا يا رسول اللهﷺ نسوة تمتعنا بهن قال فغضب رسول اللهﷺ حتىٰ احمرت وجنتاه و تحمر وجهه وقام فينا خطيبا فحمد لله واثنى عليه ثم نهی عن المتعة فوارعنا يومئذ الرجال النساء ولم نعد ولا نعود اليها ابدا (علامہ شبیر احمد عثمانیؒ) لم نعد ولا نعود اليها ابدا" پر فرماتے ہیں: "فقوله فلم نعد اليها فيه رد على ابن خزم حيث عد جابرا فيمن ثبت على تحليلها"

فتح الملہم: صفحہ 444 جلد 3)

علامہ خازمیؒ نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ہم ہمراہ رسول اللہﷺ کے غزوہ تبوک پر گئے جب ہم عقبہ جو شامی سرحد سے ملا تھا پہنچے تو کچھ عورتیں آئیں پس ذکر کیا ہم نے کہ متعہ کیا تھا ان سے ہم نے اور وہ ہمارے سامان میں پھر رہی تھیں رسولِ خداﷺ تشریف لائے اور دریافت فرمایا یہ عورتیں کون تھیں؟ تو ہم نے جواب دیا کہ یہ عورتیں ہیں جب سے متعہ یعنی جن سے ہم نے نکاحِ مؤقت کیا تھا پس سخت غضب ناک ہوئے رسولِ خداﷺ یہاں تک کے چہرہ لعل سرخ ہو گیا اور ہم میں کھڑے ہو کر تقریر فرمائی بعد خدا کی حمد و ثناء کے پھر متعہ سے منع بھی فرمایا۔ پس ہم مردوں نے ان عورتوں کو وہاں جدا کر دیا اور اس کے بعد ہم متعہ کی طرف نہ لوٹے اور کبھی آئندہ بھی متعہ نہ کریں گے اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے فتح الملہم میں فرمایا کہ لفظ "لم نعد ولا نعود" میں رد ہے ابنِ خزمؒ پر جس نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کی فہرست میں شامل کر دیا جو بعد رسولﷺ (بوجہ عدم بلوغ) خبر پر اباحت کے قائم رہے تھے۔

فائدہ: رسول خداﷺ کا عورتوں کو دیکھ کر غضبناک ہونا اس امر کی دلیل واضح ہے کہ اس متعہ کو آپ اول حرام فرما چکے تھے اس واسطے غضبناک ہوئے کہ قولِ رسولﷺ کی مخالفت ہو رہی ہے اگر اس سے پہلے حرام نہ ہوتا تو غضب ناک ہونے کی کیا ضرورت تھی صرف فرما دیتے کہ متعہ سے باز رہنا دوسرا اس حدیث میں بھی نہیں کہ اس وقت انہوں نے متعہ کیا ہوا تھا اس میں سابقہ متعہ جو فتح مکہ کے دن ہوا اس کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔

باقی میں تسلیم کرتا ہوں کہ سیدنا جابرؓ سے مسلم میں روایت موجود ہے کہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں منع کیا تھا اور ہم منع ہو گئے گئے۔

جیسا فتح الباری و فتح الملہم میں صفحہ 442 جلد 3: "عن إلى نضرة قال كنت عند جابر ابن عبد اللهؓ فأتاه ات قال ابنِ عباسؓ و ابنِ الزبيرؓ اختلفا فی المتعتين فقال فقلنا هی مع رسول اللهﷺ‎ ثم نهانا عنهما عمرؓ لم نعد لهما" 

ابی نضرة سے روایت ہے کہ میں سیدنا جابرؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اس نے بیان کیا کہ سیدنا ابنِ عباسؓ و سیدنا ابنِ زبیرؓ کا کہ دونوں متعوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے تو سیدنا جابرؓ نے کہا ہم نے ہمراہ رسولِ خداﷺ کے تھے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منع کیا تو ہم نے پھر نہیں کیا۔

پھر اسی فتح الملہم کے صفحہ 442 پر ہے:

"ولعل جابر لم يتذكر نهى الا عند نهى عمرؓ عنها والا فجابرؓ فمن جملة من روىٰ فی تحريبها وحديثه حسن صحيح يحتج بهم۔

شاید سیدنا جابرؓ کو منع رسول بھول چکا تھا جب سیدنا عمرؓ نے یاد دلایا تو یاد آیا ورنہ سیدنا جابرؓ سے خود حرمتِ متعہ کی روایت صحیح حسن موجود ہے کہ متعہ حرام ہے۔

 فائدہ: کچھ بھی ہو سیدنا جابرؓ کا رجوع ثابت ہے خواہ کسی وقت ہی ہو رجوع پایا گیا جب رجوع ثابت ہو گیا تو پھر سیدنا جابرؓ کو حجاز متعہ کا قائل کہنا بدیانتی و خیانت نہیں تو کیا ہے۔