صفات کمال کا مفصل اثبات اور صفات نقص کی مجمل اور مختصر نفی :
امام ابنِ تیمیہؒصفاتِ کمال کا مفصل اثبات اور صفاتِ نقص کی مجمل اور مختصر نفی : جب صورتِ حال یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پیغمبروں کو اپنے اسمآء اورصفات کا تفصیلی طریقے پر اثبات دے کر بھیجا جو کہ اس کی ذات میں کمال کی مقتضی ہے؛جس میں صفاتِ نقص اورتمثیل کی اجمالی نفی کردی گئی۔ پس رب تعالیٰ ان صفات ِ کمال کے ساتھ موصو فہے جن سے اوپر اور کوئی حد نہیں ؛ اور ہر اعتبار سے نقص سے منزہ ہے اور اس بات کی بھی نفی کردی کہ صفاتِ کمال میں اس کے ساتھ کوئی بھی ہم مثل اور مشابہ ہو ۔صفات نقص سے تو اللہ تعالیٰ مطلق طور پر منزہ اور پاک ہیں ۔ اورصفاتِ کمال بھی نہ تو کوئی اس کا مماثل ہے اور نہ ہی کوئی اس کے قریب ہے۔یہ تنزیہ دونوں قسم پر ہے :ایک نقص کی نفی دوسرے صفاتِ کمال میں غیر کے ساتھ مماثلت کی نفی جس طرح کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادہے :’’قل ھو اللّٰہ احد ‘‘دال ہے اور اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات اور ساتھ ساتھ اس کے کہ اس پر عقل بھی دلالت کرتا ہے اور قرآن کی آیات سے بھی اس طرف رہنمائی ملتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ آخرت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کی دنیا میں کوئی مشابہت ہی نہیں ۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ بندوں کے لیے آخرت میں ایسے انواع اور اقسام کی نعمتیں ہوں گی جن کی دنیا میں مشابہ نعمتیں دی گئی ہیں جیسے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس طرح پینے کی چیزیں اس طرح لباس،نکاح وغیرہ ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’ دنیا میں جو بھی نعمتیں ہیں ؛ وہ جنت کی نعمتوں میں صرف نام میں مشابہت رکھتی ہیں ۔‘‘[1] [1] الطبری ؛ تفسیر آیت ۲۵؛ من سورۃ البقرۃ۔ ۱؍ ۳۹۱۔ جب کہ ان کے حقائق تو اِن اشیاء سے بہت ہی بڑھ کر ہیں ؛ اتنے بڑھ کر کہ ان کی مقدار معلوم نہیں ہے(یعنی ان کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ) اور یہ دونوں مخلوق ہیں ۔ اور وہ نعمتیں جن کی جنس معروف ہی نہیں ؛ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے ا س فرمان میں اختصار کے ساتھ اجمالی طور پر بیان کیا ہے:﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ﴾ (سجدہ ۱۷)’’ پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ اللہ فرماتے ہیں :(( أعددت لعبادی الصالحین ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔))[2] [2] البخاری 4؍118؛ کتاب بدئِ الخلقِ، باب ما جاء فِی صِفِ الجنۃِ وأنہا مخلوقۃ؛ مسلِم 4؍2174 ِکتاب الجنۃِ وصِفۃِ نعِیمِہا وأہلِہا؛ سننِ التِرمِذِیِ 5؍26 ؛ ِکتاب التفسِیرِ، باب تفسِیرِ سورۃِ السجدۃِ؛ سنن ابن ماجہ 2؍1447؛ کتاب الزہدِ، باب صِفۃِ الجنۃِ۔ ’’ میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے (آخرت میں )ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں ،نہ کسی کان نے (ان جیسی صفات )سنیں اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا۔‘‘پس جب یہ دو مخلوق نام میں متفق ہونے کے باوجود ان کے حقائق میں اتنا فرق پایا جاتا ہے جس کا اس دنیا میں اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ؛ تو اس سے بداہۃً یہ معلوم ہوتاہے کہ جن صفات کما ل کیساتھ رب تعالیٰ متصف ہیں وہ بندوں کی صفات سے مختلف ہیں ۔ اور یہ بھی بداہۃً معلوم ہیکہ دومخلوقوں کی صفات کے درمیان فرق سے یہفرق کہیں بہت زیادہ ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( لا أحصی ثناء علیک أنت کما أثنیت علی نفسک ۔))[3] [3] مسلِم 1؍352؛ کتاب الصلاِۃ، باب ما یقال فِی الرکوعِ والسجودِ، سننِ بِی داود 1؍322 کتاب الصلاِۃ، باب فِی الدعاِ فِی الرکوعِ والسجود ؛ سننِ التِرمِذِیِ 5؍187 ِ؛ کتاب الدعواتِ ؛ سنن ابن ماجہ 2؍1262 ؛ کتاب الدعائِ، باب ما تعوذ مِنہ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے؛ آپ نے فرمایا : (( ما أصاب عبدا ہم قط ولا حزن فقال اللہم إنی عبدک ابن عبدک وابن أمتک ناصیتی بیدک ماض فی حکمک عدل فی قضائک۔أسألک بکل اسم ہو لک سمیت بہ نفسک أو أنزلتہ فی کتابک أو علمتہ أحدا من خلقک أو استأثرت بہ فی علم الغیب عندک أن تجعل القرآن ربیع قلبی ونور صدری وجلاء حزنی وذہاب ہمی وغمی إلا أذہب اللّٰہ ہمہ وغمہ وأبدلہ مکان حزنہ فرحا قالوا یا رسول اللہ أفلا نتعلمہن قال بلی ینبغی لکل من سمعہن أن یتعلمہن ۔)) [1] [1] المسندِ ط. المعارِفِ 5؍266 ؛ رقم (3418) وصححہ الشیخ أحمد شاکِر رحِمہ اللہ وتکلم علیہِ طوِیلا 5؍266 ؛ وقال المنذِرِی الترغِیب والترہِیب 3؍276 ؛ رواہ أحمد والبزار وأبو یعلی وابن حبان فِی صحِیحِہِ والحاِکم ؛ والحدِیث فِی المستدرِک لِلحاِکمِ 1؍950 ۔’’ کبھی بھی کسی بندے کو غم اور تکلیف نہیں پہنچتی لیکن وہ ان الفاظ میں دعا کرے:’’ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی آپ ہی قبضے میں ہے میرے بارے میں آپ کا ہرحکم نافذ ہے،میرے بارے میں آپ کا ہر فیصلہ انصاف پر مبنی ہے ۔اے اللہ میں آپ سے آپ کے ہر اس نام کے وسیلے سے مانگتا ہوں جس آپ نے خود کو مسمیٰ کیا ہے یا اپنی کتاب میں اسے اتارا ہے یا پھر اپنی مخلوق میں کسی کو سکھایا ہے یا اپنے ہاں غیب میں اسے رہنے دیا ہے کہ قرآن کو میرے دل کا بہار بنادے ،میرے غم کے دور ہونے کا ذریعہ بنادے اور میرے غموں کو ختم کرنے والا بنا دے ‘‘ تو اللہ اس کے تمام پریشانیوں کو دور فرمادیں گے اور اس کو اس کے غم کے بدلے خوشی عطا فرمادیتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہم یہ سیکھ نہ لیں ؟فرمایا:’’ کیوں نہیں ؛ جس نے بھی یہ سن لیا اسے یہ یاد کرلینا چاہئے۔‘‘تو اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ اسماء ایسے ہیں جن کی تاثیر اس نے اپنے علم غیب میں رکھی ہوئی ؛ اور کوئی نبی یا فرشتہ بھی ان اسماء گرامی کو نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء اس کے صفات کو متضمن ہیں ۔ اور یہ اسماء محض اعلام نہیں ۔ جیسے اس کے نام یعنی علیم ،قدیر ،رحیم ،کریم ،مجید ،سمیع، بصیر اور باقی اسمائے حسنیٰ وغیرہ ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کمالِ مطلق کے مستحق ہیں اس لیے کہ وہ واجب الوجود بنفسہ ہے اس پر عدم ممتنع ہے۔ اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ کسی طور پر بھی کسی غیر کی طرف محتاج ہو۔ اس لیے کہ وہ اگر کسی بھی صورت میں غیر کی طرف محتاج ہوگا تو فی الجملہ وہ غیر کی طرف محتاج ہی کہلائے گا اور غیر کی طرف حاجت یا تو کمال کے حصول کی خاطر ہوگی یاپھر اس کے کمال میں نقص پیدا کرنے والے امور سے حفاظت کی خاطر۔ اور جو شخص بھی اپنے کمال کے حاصل کرنے یانقص کو ختم کرنے میں کسی غیر کی طرف محتاج ہو جائے؛ تو اس کا کمال ذاتی نہیں ہوتا بلکہ وہ غیر کی طرف سے ہوتا ہے؛ اور وہ اس کمال کے بغیر ناقص کہلاتا ہے۔ اور ناقص واجب بنفسہ نہیں بن سکتا بلکہ وہ ممکن اور محتاج الی الغیر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ ناقص ہونے کے باوجود واجب بنفسہ ٹھہرے اس لیے کہ اگر وہ اپنے کمال میں غیر کی طرف محتاج اور ناقص ہونے کے باوجود واجب بنفسہ قرار دیا جائے؛ تو وہ ذات جو اس کو کمال دیتا ہے یا اس کے کمال کی نقص سے دفاع کرتا ہے تو پھر اگر وہ ذات ممکن ہے تو وہ خود دوسرے واجب کی طرف محتاج ہے اور اس امر میں کلام اُسی طرح ہے جس طرح کہ امرِ اول میں کلام تھا اور اگر وہ واجب اور ناقص ہے تو پھر اس میں کلام بعینہ اُسی طرح ہے جس طرح امرِ اول میں تھا ۔
اگر وہ دوسری ذات واجبِ کامل ہے تو پھر وہ واجب بنفسہ ہے اور وہ ذات جس کو واجبِ ناقص فرض کر لیا تھا وہ اس کی طرف اپنے کمال میں محتاج ہوگا اور وہ اس سے غنی ہے پس یہ اس کا رب ہوا اور وہ اس کا بندہ ۔ اور یہ امر ممتنع ہے کہ وہ مربوب ہو اور معبود ہو یعنی اس کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ واجب بھی بنے پس اس کے واجبِ ناقص ہونے کو فرض کرنا محال ہوا ۔[یعنی اس کا اس طرح فرض کرنا کہ وہ ایک واجب ذات ہے ،موجود بنفسہ ہے اور ناقص بھی ہے (توان امور کا اجتماع )یہ محال ہے]۔ اور یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ ذات جو واجب بنفسہ ہے اس کے نفس کے اندر کوئی ایسا نقص پایا جائے جس کے زوال کے لیے وہ غیر کی طرف محتاج ہو ۔ اس لیے کہ وہ نفس ایسی صورت میں ممکن الوجود ہوگا ورنہ تو وہ اس کو قبول ہی نہ کرتا؛ اور ممکن العدم ہوگا۔ ورنہ تو وہ اس کی ذات کے ساتھ لازم ہوتا اور زوال کو قبول نہ کرتا ۔ اور مفروض تو یہ ہے کہ اس کا زوال ممکن ہے اس کمال کے حصول کے ذریعے جو ممکن الوجود ہے۔ اس لیے کہ بے شک وہ شے جو ممتنع ہو وہ کمال نہیں بن سکتا اور جو ممکن ہو یا تو وہ کسی واجب کی وجہ سے ہوتا ہے یا واجب کی ذات سے مستفاد ہوتا ہے اور یہ امرممتنع ہے کہ مخلوق خالق سے اکمل ہو پس وہ خالق واجب بنفسہ ہے وہ اس کمال کا زیادہ احق ہے جو ممکن الوجود ہے جس کے اندر کوئی نقص نہیں پس اس کی ذات اس کمال کو مستلز م نہ ہوئی پس وہ کمال جب پایا جائے گا اس حال میں کہ وہ غیر کی طرف محتاج ہو پھر وہ ان دونوں کے ذریعے حاصل ہوا اور ان دونوں میں سے پھر ہر ایک واجب بنفسہ ٹھہرا پس وہ اثر پورے طور پر نہ اس سے حاصل ہوا اورنہ پورے طور پر اِس دوسرے سے حاصل ہوا بلکہ وہ تو ایک ایسی شے ہے یعنی کمال جودونوں کے حال سے خارج ہے ۔اس کی تحقیق یہ ہے کہ کسی شے کا کمال اس کی ذات سے ہی ہوتا ہے۔ اور وہ اس کے اندر داخل ہوتا ہے۔ پس واجب بنفسہ ؛ واجب بنفسہ تب ہی بنتا ہے جب اس کی ذات کے اندر داخل تمام امور میں سے ہر ہر امر واجب الوجود ہو۔ اور وہ کسی سبب منفصل کی طرف محتاج نہ ہوں پس جب وہ اپنے وجود میں کسی سبب منفصل کی طرف محتاج ہو گیا تو اس کی نفس واجب بنفسہ نہ بنی اور جو امور اس کی ذات کے اندر داخل نہیں ہیں تو وہ اس کے کمال میں سے بھی شمار نہیں ہوتے بلکہ وہ تو اس کی ذات سے مبائن اور الگ چیز ہے اور وہ دو قسم ہو سکتے ہیں :ایک واجب بنفسہ اور دوسری ایسی شے جو اس کے ساتھ متصل ہے اور اس کے ساتھ ملائی گئی ہے اور یہ بھی کہ واجب الوجود بذات خود اکمل الموجودات ہے۔ کیونکہ واجب بدیہی عقل کے ساتھ ممکن کے بہ نسبت اکمل ہوتا ہے ۔ پس ہر ایسا کمال جو اس کی ذات کے لیے ممکن ہے اگر وہ اس کے ساتھ لازم ہے تو پھر یہ امرممتنع ہے کہ اس کا کمال غیر سے مستفاد ہو یا اس میں غیر کی طرف محتاج ہو۔ اور اگر وہ اس کی ذات کے ساتھ لازم نہیں ہے تو پھر اگر وہ دیگر ممکنا ت کی بہ نسبت اس کو زیادہ قبول کرنے والا نہیں ہے تو پھر ممکن تو واجب کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہوا اور جس امر کو واجب اورممکن دونوں قبول نہ کرتے ہوں تو پھر وہ کمال ہی نہیں ۔اور اگر وہ اس کو قبول کرنے والا ہے اور اس کی ذات اس کو مستلزم نہیں تو اس کا غیر اس کادینے والا ہے۔ پھر کمال کا دینے والا وہی احق بالکمال ہوتا ہے پس وہ معطی اس کی بہ نسبت اکمل ہوا اور واجب الوجود اکمل کا غیر اس سے اکمل نہیں ہوتا ۔
’’اور اگر کہا جائے کہ اس کا غیر بھی واجب ہے۔‘‘[تو اس کا جواب یہ ہے کہ]: اگر وہ کامل بنفسہ نہیں ہے تو ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے کمال کا معطی ہوا یعنی کمال دینے والا ہوا اور یہ امرممتنع ہے اس لیے کہ یہ اس امرکو مستلزم ہے کہ دونوں میں ہر ایک دوسرے کے اندر ایسے تاثیر کے ساتھ مؤثر ہو کہ وہ دوسرے کے تاثیر کے بعد حاصل ہو پس بے شک وہ کمال دوسرے کو دیتا ہی نہیں تو وہ کامل کیسے بنے گا ۔وہ کامل بنتا ہی تب ہے کہ دوسرا اس کو کمال دے تو یہ تو ممتنع ہے جس طرح یہ امرممتنع ہے کہ یہ شے موجود نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ دوسرا شے اسے وجود دے اور وہ دوسرا شے بھی تب وجود پائے گا جب کہ یہ پہلا اس کو وجود دے اگرچہ وہ غیر واجب اور کامل بنفسہ ہو اور مکمل للغیر ہو اور دوسرا ایسا واجب ہو جو ناقص ہے اور اپنے کمال میں اُس کامل مکمل کی طرف محتاج ہے پھر اس کی طرف اس کاایک جزء محتاج ہوا اور جس چیز کا کوئی جزء غیر کی طرف محتاج ہوا تو اس کا جملہ اورکل واجب بنفسہ ہر گز نہیں بن سکتا ۔اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ واجب بنفسہ ذات یا تو ایک ہی چیز ہوگی جس کا کوئی جزء نہ ہو یا وہ کئی اجزاء پر مشتمل ہوگی۔ اور اگر وہ ایک ہی چیز ہے یعنی اس کا جزء نہیں ؛ تو اس کے حق میں یہ بات ممتنع ہے کہ اس کے لیے کوئی بعض یا جزء ثابت ہو؛ چہ جائے کہ یہ کہا جائے کہ اس کا بعض غیر کی طرف محتاج ہے اور بعض نہیں ۔ اور یہ بھی درست ہے کہ دو ایسی چیزیں ہوں جن میں سے ایک نفس ِ چیز ہو اور دوسرا اس کا کمال ہو۔اگر کہا جائے کہ یہ دو جزء ہیں یا کئی اجزاء ہیں ؛ توواجب اِن اجزاء کا مجموعہ ہوگا۔ پس ایسی صورت میں بھی وہ واجب بنفسہ نہیں قرار پائے گا یہاں تک کہ وہ مجموعہ پورے کا پورا واجب بنفسہ بن جائے۔ پس جب بعض اجزاء ایک ایسے سبب کی طرف محتاج ہیں جو مجموعہ سے جداہے تو یہ بھی ایسی صورت میں واجب بنفسہ نہ ٹھہرا اور یہ مقام اس شخص کے لیے ایک ایسا واضح برہان ہے جو اس میں غور کرے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے صفات کے باب میں اختلاف کیا ہے۔ پس اہل سنت تو اللہ کی صفات کو اس کے لیے ثابت مانتے ہیں اور بہت سے فلاسفہ اور روافض ان کے ساتھ اس میں موافق ہیں ۔رہے جہمیہ اور ان کے علاوہ دیگر جیسے معتزلہ اوران کے موافقین یعنی شیعہ اور فلاسفہ میں سے جیسے ابن سینا اور اس کے امثال ،وہ اللہ تعالیٰ سے صفات کی نفی کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کو ثابت کرنا تجسیم ،تشبیہ اور اللہ کی ذات کو مرکب کہنے کے مترادف ہے۔