Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بخاری محدث نے بڑے زور سے ایک جھوٹی روایت قرآن کے صریح خلاف نقل کر دی، جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بدنام کیا جا سکتا ہے۔ آپﷺ کا دو قبروں سے گزر ہوا ان دونوں انسانوں پر عذاب ہو رہا تھا تو فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ دو انسان کون تھے اور کیا تھے اگر وہ دونوں جاہلی کافر و منافق تھے تو قرآن کی نص قطعی کے خلاف جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منع کر رہی ہے آپﷺ نے ان کے لئے سفارش کس طرح فرمائی؟ اور اگر یہ دونوں مسلمان تھے تو صحابی کے علاوہ کوئی اور دوسرا نہیں ہو سکتا۔

  مولانا محمد حسین میمن

اعتراض
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 40 اور 41 پر لکھتا ہے کہ اللہ کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’یزکیھم "
ان کو پاک کر رہا ہے اب ان میں کسی قسم کی پلیدی نہیں ہے نہ ظاہری اور نہ باطنی اور اللہ نے بھی صاف فرمایا ’’لکن یرید ان یطھرکم‘‘ تو اللہ کا ارادہ پورا ہوا اور وہ ہر طرح پاک ہو گئے۔
لیکن بخاری محدث نے بڑے زور سے ایک جھوٹی روایت قرآن کے صریح خلاف نقل کر دی جس سے صحابہ کرامؓ کو بدنام کیا جاسکتا ہے۔ آپﷺ کا دو قبروں سے گزر ہوا ان دونوں انسانوں پر عذاب ہو رہا تھا تو فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ وہ دو انسان کون تھے (معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھے لیکن بلاوجہ اعتراض کرنا مصنف کا مشغلہ بن چکا ہے ) اور کیا تھے اگر وہ دونوں جاہلی کافر و منافق تھے تو قرآن کی نص قطعی کے خلاف جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منع کر رہی ہے آپﷺ نے ان کے لئے سفارش کس طرح فرمائی؟ اور اگر یہ دونوں مسلمان تھے تو صحابی کے علاوہ کوئی اور دوسرا نہیں ہو سکتا۔ 
جواب:
مصنف اپنی عادتِ خبیثہ کے مطابق عام مسلمانوں کو حدیث سے بدظن کرنا چاہتا ہے اس کی یہ جستجو کے’’ھباء منثورا‘‘ مانند ہے جو کہ ایک ہی جھونکے میں ریت ہو گیا۔ الحمد للہ مصنف نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ جن کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا وہ صحابی تھے یعنی اگر کوئی شخص ان کو صحابی تصور کر لے تو قرآن کا انکار آتا ہے لیکن یہ کوشش مصنف کے اندھے پن کے سوا کچھ نہیں کیونکہ صحیح بخاری میں یہ حدیث اس طرح ہے :
’’مرّ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فسمع صوت انسانین یعذ بان فی قبورھما فقال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم یعذ بان۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الوضوء باب من الکبائر أن لایستترمن بولہ رقم الحدیث، 216)
’’نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تو دو انسانوں کی آواز سنی جن کو عذاب دیا جا رہا تھا قبروں میں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔‘‘
مصنف کا اس حدیث پر اعتراض یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو اللہ نے نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ذریعے تزکیہ کر دیا تھا تو پھر ان کو عذاب کیسا، اگر ان پرعذاب ہو رہا ہے تو یہ قرآن کے خلاف ہے اور اگر یہ افراد صحابی نہیں ہیں تو پھر مسلمان بھی نہیں۔
قارئین کرام یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص اسلاف کے طریقے کو چھوڑتا ہے تو وہ خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے، مصنف نے صحیح حدیث کو قرآن کے خلاف سمجھ کر ہی اتنا بڑا جرم کیا ہے کہ ان کی سزا ان دو قبروں میں جن کو عذاب ہو رہا تھا کسی حدیث میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ وہ صحابی تھے (صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایمان کی حالت میں دیکھا اور ایمان کی حالت میں فوت ہوا۔)
حافظ ابن حجرؒ راقم ہیں:
’’لم یعرف اسم المقبورین ولااحد ھما ‘‘ (فتح الباری: جلد، 1صفحہ، 425)
ترجمہ: ’’ان قبر والوں کے نام پہچانے نہیں گئے ۔‘‘
یعنی وہ صحابی نہ تھے اگر مصنف کہتا ہے کہ وہ صحابی تھے تو دلیل مصنف کے ذمے ہے جس سے مصنف پہلے ہی بری الذمہ ہو گیا کہ وہ دو انسان کون تھے نہ معلوم ہونے پر اتنا نشانہ بنایا اگر معلوم ہوتا تو پتہ نہیں مصنف کیا ستم ڈھاتا؟؟ اگر وہ دونوں مسلمان تھے تو صحابی کے علاوہ کوئی دوسرا کون ہو سکتا ہے؟ یہ دعویٰ بھی اس کی کم علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔ الحمد للہ اگر ہم کتب احادیث اور کتب رجال و تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کتنے ہی ایسے مسلمان تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں زندہ تھے لیکن ان کو صحابی کا رتبہ نہ مل سکا ( کیونکہ انکی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہ ہوئی ) مثلاً
1۔ نجاشی
2۔ اویس قرنی
3۔ یحی بن ابی حازم وغیرہ۔
یہ وہ اشخاص ہیں جو مسلمان تھے لیکن نبی کریمﷺ کے دور میں ہونے کے باوجود ان کا شمار صحابہ میں نہیں ہوتا۔
لہٰذا مصنف کا اعتراض کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں صرف اورصرف صحابی ہی مسلمان ہوسکتا ہے یہ محض مصنف کا وہم اور پاگل پن ہے۔
لہٰذا عذابِ قبر جن دو اشخاص کو ہو رہا تھا وہ صحابی نہیں بلکہ عامۃ المسلمین میں سے تھے۔
واللہ اعلم!
لہٰذا اعتراض فضول ہے۔