اعتراض: امام بخاری رحمۃ اللہ کہتا ہے اللہ پاک بندے میں حلول کر کے اس کے اعضاء بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بندہ کے کان ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ بندہ میرے کانوں سے سنتا ہے میرے پاؤں سے چلتا ہے میں بندہ کی آنکھ بن جاتا ہوں اور وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے وغیرہ وغیرہ
مولانا محمد حسین میمناعتراض:
امام بخاری رحمۃ اللہ کہتا ہے اللہ پاک بندے میں حلول کر کے اس کے اعضاء بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بندہ کے کان ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ بندہ میرے کانوں سے سنتا ہے میرے پاؤں سے چلتا ہے میں بندہ کی آنکھ بن جاتا ہوں اور وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے وغیرہ وغیرہ
اعتراض:
مصنف لکھتا ہے’’امام بخاری رحمۃ اللہ کہتا ہے اللہ پاک بندے میں حلول کر کے اس کے اعضاء بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بندہ کے کان ہاتھ پاؤں بن جاتا ہوں وہ بندہ میرے کانوں سے سنتا ہے میرے پاؤں سے چلتا ہے میں بندہ کی آنکھ بن جاتا ہوں اور وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری کتاب الرقاق: صفحہ، 963 پر بڑے جذبات کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے مذہب کی ترجمانی کر کے قرآن سے خود اللہ کریم سے بغاوت کی روایت ٹانک دی ہے۔‘‘
(قرآن مقدس: صفحہ، 19، 20)
جواب:
مصنف نے حسبِ عادت یہاں بھی انتہائی درجہ کی خیانت کی ہے حدیث کے الفاظ میں ہیر پھیر کر کے حدیث کے مفہوم کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس حدیث کو اس طرح ذکر فرماتے ہیں:
’’قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ان الله قال من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب‘‘
(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع: رقم الحدیث، 6502)
ترجمہ: ’’نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا میں اس کو یہ خبر دیتا ہوں کہ میں اس سے لڑوں گا اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد) نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں پس جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں۔ الخ‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں بنیادی نکتہ ’’اللہ تعالیٰ کا قرب ہے‘‘ اگر کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اپنے صبح و شام گزارے گا فرائض کی پابندی کرے گا تو اسے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہونا، کان ہونا، آنکھیں ہونا، پیر ہونا، اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول کر جاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب نیک بندہ کوئی کام کرتا ہے اور وہ اس کے لیے اپنی نگاہیں استعمال کرتا ہے تو وہ اپنی نگاہیں ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوں کا بھی ایسی جگہ استعمال کرتا ہے جہاں اللہ کی رضا ہوتی ہے وہ اپنے قدموں کو وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے یہی حدیث مبارکہ کا مطلب ہے۔
دوسرا مطلب میدانِ جہاد میں جب یہ اللہ کا نیک بندہ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی مدد اس کے ہاتھ، پاؤں، نظروں کے ذریعے کرتا ہے۔
تیسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور اس کی رضا مندی کے لیے اپنے جوارح کو استعمال کرتا ہے یہی مطلب ہے نبی کریمﷺ کی حدیث کا مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡهُمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمۡ وَمَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى
(سورۃ الأنفال: آیت، 17)
ترجمہ: چنانچہ (مسلمانو! حقیقت میں) تم نے ان (کافروں کو) قتل نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں اللہ نے قتل کیا تھا، اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔
اگر کوئی شخص بدنیتی سے غلط مطلب لینا چاہے تو یقیناً اس آیت مبارکہ سے بھی غلط مطلب اخذ کر سکتا ہے جس طرح موصوف نے حدیث مبارکہ سے غلط مفہوم اخذ کئے۔ آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کافروں پر پھینکی کیا؟ نعوذباللہ۔ اللہ تعالیٰ زمین پر آ گیا تھا یعنی کیا یہ آیت وحدت الوجود اور وحدت الشہود والوں کے باطل نظریے کو تقویت دیتی ہے لیکن ہم جواباً یہ کہیں گے کہ نبی کریمﷺ کا پھینکنا (کافروں کی طرف) اللہ تعالیٰ کا پھینکنا یوں تھا کہ پھینکا تو نبی کریمﷺ نے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف نسبت اس لیے کی کہ اس کی رمیٰ (یعنی نبی اکرمﷺ کے پھینکنے) میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال تھی۔ بلکہ یہی جواب ہے حدیث مبارکہ کا کہ اس بندے کا ہاتھ بننے سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے میں حلول ہو گیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ شاملِ حال ہو جاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیئے۔)
(حافط ابنِ حجر کی فتح الباری: جلد، 11 صفحہ، 414 تا 422)