Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[غم کا محال ہونا؟]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[غم کا محال ہونا؟]

[اعتراض]:رافضی نے کہا ہے:’’یہ غم و حزن اگر اطاعت کا کام تھا تو پھر یہ بات محال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع کردیں ۔ اور اگریہ معصیت کا کام تھا تو پھر جس چیز کو یہ لوگ فضیلت ظاہر کررہے ہیں ؛ حقیقت میں وہ ذلت و رسوائی ہے ۔‘‘

[جواب]:پہلی بات: کسی ایک نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ محض غمگین ہونا کوئی فضیلت کا کام تھا۔بلکہ اصل فضیلت تو اس چیزمیں ہے جس پر قرآنی آیت دلالت کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰]

’’اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیا تھا دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب آپ اپنے ساتھی سے فرمارہے تھے غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘

سو فضیلت اس بات میں ہے کہ آپ اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے۔اور آپ کی خصوصی صحبت میں رہے۔آپ کو مطلق طور پر صحبت نبوت میں کمال حاصل تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ مبارک : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال موافقت کو متضمن ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی محبت ‘ اطمینان ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال معاونت و موالات ؛اور اس حالت میں کمال ایمان اور تقوی آپ کی فضیلت کے دلائل میں سے ہیں ۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی کمال محبت ونصرت آپ کے لیے حزن و ملال کا موجب تھی؛اگر آپ نے حزن و ملال کااظہار کیا ہو۔حالانکہ قرآن میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آپ غمگین ہوئے بھی تھے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا۔

٭ دوسری بات : قرآن مجید میں بعینہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ﴾(النحل ۱۲۷)  

’’ اور ان پر غم نہ کر اور نہ کسی تنگی میں مبتلا ہو، اس سے جو وہ تدبیریں کرتے ہیں ۔‘‘

اورارشاد فرمایا:

﴿لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ [وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ]﴾(الحجر۸۸)

’’اپنی آنکھیں اس چیز کی طرف ہرگز نہ اٹھائیں جس کے ساتھ ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو فائدہ دیا ہے [اور نہ ان پر غم کریں ]۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿خُذْہَا وَلَاتَخَفْ سَنُعِیْدُہَا سِیْرَتَہَا الْاُوْلٰی﴾ (طہ ۲۱)

’’اسے پکڑ واور ڈرونہیں ، عنقریب ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔‘‘

اس شیعہ سے کہا جائے گا: اگریہ خوف اطاعت کا کام تھا؛ تو یقیناً اس سے منع کیا گیا ہے۔اور اگر [تم شیعہ کے بقول] نافرمانی کا کام تھا تو پھر [پیغمبر کی طرف سے ] نافرمانی کی گئی۔

نیز یہ بھی کہا جائے گاکہ: آپ کو حکم دیا گیا تھا کہ مطمئن اور ثابت قدم رہیں ۔اس لیے کہ خوف تو انسان کے اختیار کے بغیر حاصل ہوتا ہے۔اس لیے کہ جب امن کے اسباب و موجبات نہیں تھے تو خوف لاحق ہوا۔ اور جب امن کے اسباب پیدا ہوگئے تو خوف زائل ہوگیا۔پس اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ فرمانا کہ :

﴿وَلَاتَخَفْ سَنُعِیْدُہَا سِیْرَتَہَا الْاُوْلٰی﴾ (طہ ۲۱)

’’ اور ڈرو نہیں ، عنقریب ہم اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔‘‘

اس حکم میں ساتھ ہی اس چیز کی خبر بھی دی گئی ہے جس سے خوف زائل ہوجائے گا۔

ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :

﴿ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰیo قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی﴾ (طہ ۶۷۔۶۸)

’’تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ہم نے کہا خوف نہ کر، یقیناً تو ہی غالب ہے۔ ‘‘

یہاں پر خوف کھانے سے منع کیا گیا اس کے ساتھ ہی خوف ختم ہونے کے موجبات بھی بیان کیے گئے ہیں ۔

یہی حال اس آیت میں وارد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی ہے : ﴿ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾’’ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘یہاں پر غمگین ہونے سے منع کیا گیا ہے ‘ اور اس کے ساتھ ہی غم نہ کرنے کا سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ سبب ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾’’ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ جب ایسی بشارت مل جائے جس سے غم و حزن ختم ہوں تو یہ امور ختم ہوجاتے ہیں ۔ورنہ انسان کو غم و حزن بغیر اختیار کے لاحق ہوتے ہیں ۔

تیسری بات:....حزن وملال سے منع کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ واقعی غم و حزن پائے بھی جاتے ہیں ؛ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔بلکہ یہ ممانعت اس لیے بھی وارد ہوسکتی ہے تاکہ جب غم و حزن کے اسباب پیدا ہوجائیں تو اس وقت غم و حزن نہ کیا جائے۔ اس صورت میں غم اگر معصیت اور گناہ کا کام بھی ہو تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اور اگر غم ہو بھی تو پھر بھی ہم کہتے ہیں : ’’ اگر منہیٰ عنہ گناہ اورنافرمانی کا کام نہ ہو تو کبھی نہی تسلی و تعزیت اور ثابت قدمی کے لیے آتی ہے؛اس لیے کہ بیشتر اوقات بعض چیزیں غیر اختیاری طور پر ظاہر ہوجاتی ہیں ۔یہ غم و حزن بھی اسی باب سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پس اس صورت میں ممانعت ایک مستحق ازالہ چیز سے ممانعت ہوگی؛ اگرچہ وہ گناہ کاکام نہ بھی ہو۔جیساکہ انسان کو حکم دیاجاتا ہے کہ وہ دشمن سے اپنا دفاع کرے‘ یا نجاست کا ازالہ کرے۔اور اس طرح کی دیگر چیزیں اگرچہ گناہ کا کام نہ بھی ہو‘ مگر ان کے تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے ان سے منع کیا جاتا ہے ۔ غم و ملال سے انسان کے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔پس اس لیے ایسی چیز کا حکم دیا گیا جس سے غم کاازالہہوسکے؛ جیسا کہ گندکی دور کرنے کے لیے ایسی چیز کا حکم دیا جاتاہے جس سے یہ کام ممکن ہو۔ یہ غم بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ملا تھا؛ یہ اطاعت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خیرخواہی۔اس میں کو ئی گناہ کاکام نہیں جو کہ قابل مذمت ہو۔ بلکہ اس غم کا سبب اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دل کی کمزوری تھی جس پر کسی انسان کی مذمت نہیں کی جاسکتی۔اور اس چیز کا حکم دیا گیا جس سے دل میں استقامت و استقلال پیدا ہو؛ اور اس پر ثواب مل سکے۔

چوتھی بات:....اگر مان لیا جائے کہ :غمگین ہونا گناہ کا کام ہے؛ تو پھر بھی آپ اس کی ممانعت کاحکم آنے سے پہلے غمگین ہوئے تھے۔اورجب اس سے منع کردیا گیا تو دوبارہ آپ سے ایسی حرکت کا ارتکاب نہیں ہوا۔اور جوکام حرام ہونے سے پہلے ہوگیا ‘ اس پر کوئی گناہ نہیں ۔جیسا کہ لوگ شراب کی حرمت کاحکم نازل ہونے سے پہلے شراب پیا کرتے تھے ؛ اور جوا بھی کھیلتے تھے ؛ مگر جب ان کاموں کی ممانعت کا حکم نازل ہوگیا تو لوگ ان سے رک گئے؛ اور سچی توبہ کرلی ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جاچکاہے۔

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غمگین ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے سے پہلے تھا۔اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا حصول تھا؛ اس لیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غمگین تھے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ بھی ان کے ساتھ تھا۔اللہ تعالیٰ کبھی بھی گناہ گاروں کے ساتھ نہیں ہوتا ؛ بلکہ ان کے خلاف ہوتاہے۔جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منع کیا تو اس کے بعد کبھی بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ غمگین نہیں ہوئے۔ اگر اعتراض کرنے والے ان کمینوں کو کوئی ذرابھر بھی حیاء ہوتی؛تو اس قسم کے اعتراض نہ کرتے۔اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غمگین ہونا عیب ہے تو یہی عیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام پر بھی لازم آتا ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرماتے ہیں :

﴿قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغٰلِبُوْنَ ﴾ (قصص۳۵)

’’کہا ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمھاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔‘‘

پھر جادو گروں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ جب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا :

﴿ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی﴾(....آگے تک....) ﴿ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی٭قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی﴾ (طہ ۶۵۔۶۸)

انھوں نے کہا اے موسیٰ! یا تو یہ کہ تو پھینکے اور یا یہ کہ ہم پہلے ہوں جو پھینکے۔....’’تو موسیٰ نے اپنے دل میں ایک خوف محسوس کیا۔ہم نے کہا خوف نہ کر، یقیناً تو ہی غالب ہے۔ ‘‘

یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول اور اس کے کلیم ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر بھی دی تھی کہ فرعون اور اس کے لشکری آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔اور آپ ہی غالب رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بھی آپ کے دل میں خوف محسوس ہوا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ خوف محسوس کرنا صرف اس وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے جو وعدہ کیا تھا کہ آپ ہی غالب رہیں گے؛ اس وقت یہ بات آپ کے ذہن سے اوجھل ہوگئی تھی۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غم کرنا اس کی ممانعت کا حکم آنے سے پہلے تھا۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَ مَنْ کَفَرَ فَلَا یَحْزُنْکَ کُفْرُہٗ ﴾ (لقمان ۲۳)

’’اور جو کوئی کفر کرے پس اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کرے ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ﴾ (النحل ۱۲۷)

’’ اور ان پر غم نہ کر اور نہ کسی تنگی میں مبتلا ہو، اس سے جو وہ تدبیریں کرتے ہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ ﴾ (یس ۷۶)

’’ان کی باتیں آپ کو غمگین نہ کریں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ ﴾ (فاطر۸)

’’سو آپ کی جان ان پر حسرتوں کی وجہ سے نہ جاتی رہے۔‘‘

اورہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کایہ بھی فرمان ہے:

﴿قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ﴾ (الانعام ۳۳)

’’ہم جانتے ہیں بیشک آپ کو وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں ۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ آپ کو کفار و مشرکین کا کلام غمگین کرتا ہے۔اور اس سے منع بھی کیا گیا۔ اگر شیعہ قول کے مطابق دیکھا جائے تو جیسے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غمگین ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہیں ؛[یہی اعتراض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوتا ہے ؛ مگر ہم کہتے ہیں ]:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان لوگوں کے کفریہ کلام پر غمگین ہونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کام تھے ؛ اور یہ حزن و ملال کی ممانعت آنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس ممانعت کا حکم آنے سے پہلے غمگین ہونا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کام تھا۔اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کردیا تو اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی بھی غمگین نہیں ہوئے۔پس یہ کیفیت بھی ممکن ہے کہ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ غمگین نہ ہوئے ہوں ۔مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس لیے منع کیا ہو کہ کہیں آپ غمگین نہ ہوجائیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ آثِمًا اَوْ کَفُوْرًا ﴾ (الإنسان ۲۴)

’’اور ان میں سے کسی گناہ گار یا بہت ناشکرے کا کہنا مت مان۔‘‘