فصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ولایت منصب]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ولایت منصب]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: دسواں سبب:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی منصب عطا نہیں کیا تھا، اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ پر امیر مقرر کرکے بھیجا تھا۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: شیعہ کا قول کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ:....معاملہ اس دعوی کے برعکس ہے۔ جو ولایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تفویض کی گئی تھی ؛ اس میں کوئی دوسرا آپ کا سہیم و شریک نہیں ۔ یہ ولایت حج ہے۔یہ منصب عالی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تفویض کیا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا بہت سے لوگوں کو مختلف علاقوں کی امارت عطا کی گئی تھی۔
دوسری وجہ:....اس بات پر شیعہ اور اہل سنت سب کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بھی ولایت تفویض کی جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت ہی فروتر تھے؛ مثلاً :عمر و بن عاص و ولید بن عقبہ اور ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہم ۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور ولایت و امارت نہ ملنے کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے فروتر درجہ کے تھے ۔
تیسری وجہ:....امارت کا نہ ملنا نقص پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ کبھی ولایت اس لیے بھی ترک کردی جاتی ہے کہ اس کے لیے جو دوسرا مقام ہے ؛ وہ اس ولایت سے زیادہ نفع بخش و سود مند ہے۔اورانہیں اپنے پاس رکھنے کی ضرورت بہت زیادہ تھی ۔اور مسلمان دوسرے لوگوں کی وجہ سے ان سے بے نیاز ہوسکتے تھے۔ولایت نہ دینے کی وجہ وجیہ یہ تھی کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ کے وزیروں کے مقام پر تھے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے: میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے۔ میں اور ابوبکر و عمر باہر نکلے۔‘‘ اکثر و بیشتر راتوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ بیٹھ مسلمانوں کے امور میں گفت وشنید کیا کرتے تھے۔[ اور آپ مہمات امور میں ان سے بے نیاز نہیں ہوا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ بھی اس سے قریب قریب تھا]۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اہل شوری جیسے : حضرت عثمان ‘ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کو کوئی ولایت تفویض نہیں کرتے تھے۔ اوریہ آپ کے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ افضل تھے جنہیں ولایت تفویض کی جاتی تھی؛ مثلاً حضرت عمرو بن العاص‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام۔ اس لیے کہ ان لوگوں کو اپنے پاس رکھنے میں اس سے زیادہ فائدہ تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو ولایت تفویض کردی جاتی ؛ جب کہ دوسرے ایسے لوگ موجود تھے جو ان کی جگہ کفایت کرسکتے تھے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی داخل ہوتے تھے۔ اورپھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کیساتھ ملے ہوتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے فرمایا تھا: ’’ اگر تم دونوں ایک بات پر متفق ہوجاؤ تو میں تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘
جب کوئی وفد آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے مشورہ کرتے۔ان میں سے ایک کوئی مشورہ دیتا اور دوسرا کوئی مشورہ ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بدر کے قیدیوں کے بارہ میں بھی مشورہ کیاتھا۔ اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ غالب رہا۔ اورآپ ان کے ساتھ ہی اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ یہ بات ہر اس انسان پر عیاں ہے جو صحیح احادیث میں تدبر کرے۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت حج کا واقعہ:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:گیارھواں سبب:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر روانہ کیا۔ پھر ان کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو واپس مدینہ بھیج دیں ،اور خودیہ ذمہ داری ادا کریں ۔ جو شخص ایک سورت یا اس کا کچھ حصہ پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا وہ خلافت و امارت کا اہل کیسے ہو گاجس میں تمام احکام پوری امت تک پہنچانے کی ذمہ داری ہوتی ہے ؟
[جواب]:شیعہ کا یہ قول بھی کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے:
پہلی وجہ : اس بات کے افتراء روایات متواترہ کے خلاف ہونے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر مکہ بھیجا تھا۔[ یہ غلط ہے کہ آپ واپس بلا لیے گئے تھے ] نہ ہی آپ کو واپس بلایا گیا اورنہ ہی خود واپس آئے۔ بخلاف ازیں اس سال دورانِ حج آپ ہی امیرحج تھے، علی ان کی رعیت کے ایک فرد تھے اور انکی اقتداء میں نمازیں پڑھا کرتے تھے۔آپ جہاں جاتے وہ آپ کیساتھ جاتے اور جس بات کا حکم دیتے آپ اس کی تعمیل کرتے۔جیسا کہ آپ کیساتھ موجود باقی تمام لوگ کرتے تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ؛ اور نہ ہی اس میں کسی دو نے اختلاف کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہی سن ۹ھجری کا حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کروایا۔ پھر شیعہ کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو واپس بلا لیا تھا؟ البتہ مشرکین سے کیے ہوئے معاہدوں کے اختتام کا اعلان کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا تھا۔[اس میں دوسری مصلحت یہ تھی کہ سورۂ توبہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش پر متضمن ہے نبی کریم چاہتے تھے کہ اس ثناء کا اظہار حج کے موقع پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زبان سے ہوتا کہ اﷲ کے دشمن ہمیشہ کے لیے شرم سار ہوں اور جب بھی اس پر غوروفکر کریں ان کا مصنوعی دین دھڑام سے نیچے گر پڑے۔ متقدمین شیعہ میں سے اﷲ کے دشمن اﷲ شیطان الطاق نے بدحواسی کے عالم میں کہا کہ یہ الفاظ﴿ ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ﴾ اﷲ کے فرمودہ نہیں ہیں ۔ جیسا کہ مشہور ادیب جاحظ نے اپنے استاد ابراہیم نظام وبشربن خالد سے سن کر بیان کیا۔ (دیکھیے الفصل امام ابن حزم: ۴ ؍ ۱۸۱)۔ متاخرین شیعہ میں سے طاغوت الکاظمیہ نے حواس باختہ ہو کر کہا کہ آیت قرآنی ﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہما کو شامل نہیں ، بلکہ یہ خالص الایمان لوگوں کے لیے مختص ہے۔ ( دیکھیے کاظمی کی کتاب احیاء الشریعۃ فی کتب الشیعۃ ،ص:۶۳۔۶۴) سیدنا علی کو سورۂ توبہ دے کر مکہ بھیجنے کے واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ و علی ایک صف میں تھے اور اعداء صحابہ ان کے مدمقابل دوسری جانب، ان دونوں کا اتصال دین و دنیا میں کسی طرح ممکن نہیں ۔(علامہ خطیب) درحقیقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کو جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر الحج بنا کر روانہ فرمایا تھا اس وقت ابھی سورہ توبہ کی یہ آیات نازل نہیں ہوئی تھیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ابھی اثنائے سفر میں ہی تھے کہ سورہ توبہ کی چالیس آیتیں نازل ہوئیں جس کا اعلان براء ت حج میں ہونا ضروری تھا، اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے ہی روانہ کردیا تاکہ اعلان بروقت ہو سکے، لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت کو توڑا نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان پر امیر مقرر کیا، بلکہ امارت حج بدستور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور سیدنا علی کو ان کے ماتحت رہنے دیا۔]
اس لیے کہ عربوں کے یہاں رسم تھی کہ عہد باندھنے یا توڑنے کا کام حاکم خود کرتا یا اس کے اہل بیت میں سے کوئی شخص یہ کام انجام دیتا۔ہر ایک سے اس کی بات قبول نہیں کرلیتے تھے۔ [بنا بریں اعلان براء ت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا]۔
٭ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے امیر حج ہونے کے دن بزمرہ موذنین بھیجا تاکہ ہم منی میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ(ہو کر) طواف کرے۔‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورت برات کا اعلان کریں ، علی رضی اللہ عنہ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منی میں لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوی برہنہ(ہو کر)کعبہ کا طواف کرے۔‘‘[صحیح بخاری:ح 362]
٭ آپ فرماتے ہیں : پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کا عہد اس سال واپس کردیا۔حجۃ الوداع کے سال جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا ‘ تو اس سال کسی بھی مشرک نے حج نہیں کیا۔
ابو محمد ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ حج میں جو کچھ ہوا اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بہت بڑے فضائل ہیں ۔ اس لیے کہ اس سال اس عظیم الشان اجتماع سے آپ نے ہی خطاب کیا ۔اورلوگ خاموشی سے آپ کا خطبہ سنتے رہے۔ آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ کی جملہ رعیت میں سے ایک تھے۔ اس سورت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان اور غار کاذکرہے۔ سو یہ سورت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر لوگوں کو سنائی۔ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں انتہائی حد اورقطعی حجت ہے۔
٭ مزیدار بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر امیر بنانے کا واقعہ اس فرمان کے بعد کا ہے:
((أما ترضی اَنْ تَکون مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی۔))
’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے لیے بلحاظ منزلت ایسے ہی ہو جیسے ہارون حضرت موسیٰ کے ساتھ ۔‘‘
٭ مقام حیرت ہے کہ شیعہ مصنف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت و سوانح اور عصر و عہد کے واقعات سے نابلد محض ہونیکے باوجود علم و فضل کا دعوے دار ہے۔اوریہ ان متواتر واقعات سے بھی جاہل اور لاعلم ہے جنہیں وہ لوگ بھی جانتے ہیں جنہیں علوم سیرت سے ادنیٰ سی شناسائی ہوتی ہے۔مگریہ ایسے واقعات تلاش کرتے ہیں اور پھر ان میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کرتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگوں کو خاموش رہنا زبان سخن دراز کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔مگر کیا کریں اس رافضی مصنف نے بھی وہی کچھ کیا ہے جو کہ اس کے ان اسلاف نے کیا ہے جن کا یہ مقلد ہے۔اس نے ان کے کلام کی کوئی تحقیق نہیں کی۔ اور نہ ہی ان چیزوں کا مراجعہ کیا ہے جو اہل علم کے ہاں صرف معلوم ہی نہیں بلکہ متواتر کی حد تک معروف ہیں ۔اور خاص و عام انہیں جانتے ہیں ۔[ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو اندھا کردیا ہو اور اس کی نیت خراب ہو تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ وہ مصنف کٹر شیعہ ہے؛ اوراپنے اسلاف کی راہ پر گامزن ہے جو کہ تقیہ اور کذب و افتراء سے عبارت ہے]۔