Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[خلافت میں انصار کا حصہ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[خلافت میں انصار کا حصہ]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:ساتواں سبب:’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی موت کے وقت کہا تھا: اے کاش کہ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتا کہ انصار کا بھی خلافت میں حق ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بذات خود اپنی خلافت کو مشکوک تصور کرتے تھے۔ حالانکہ انھوں نے ثقیفہ بنی ساعدہ میں خود ہی انصار کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا تھاجب انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ : ’’ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر آپ میں سے ہوں گا‘‘ اورآپ نے انہیں یہ حدیث بیان کی تھی: ’’اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ۔‘‘خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔‘‘ 

[جواب ]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی’’اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ‘‘خلفاء قریش میں سے ہوں گے‘‘یہ بر حق ہے۔ اورجس نے یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس حدیث کو یا پھر اپنی خلافت کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے؛ یقیناً اس نے جھوٹ بولا ۔اور جس نے یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ : اے کاش ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرلیتا کہ کیا انصار کا بھی خلافت میں کوئی حق ہے ؟ یقینایہ روایت صریح کذب ہے۔ یہ بات صحابہ کے نزدیک واضح اور شک سے بری تھی کہ امامت قریش کے ساتھ مختص ہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کثرت کے ساتھ روایات منقول ہیں ۔ 

اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ بات صحیح ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ گویا آپ کو حدیث نبوی’’اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ‘‘خلفاء قریش میں سے ہوں گے‘‘ کا علم نہ تھا۔ آپ نے اجتہاد کیا اور آپ کا اجتہاد موافق نص ثابت ہوا۔پھر اس کے باوجود آپ تمنا کرتے تھے کہ اس اجتہاد کے ساتھ نص بھی موجود ہوتی تو اس موقف کو مزید تقویت ملتی ۔یہ آپ کے کمال علم کی دلیل ہے کہ آپ کا اجتہاد نص کے بالکل موافق ٹھہرا۔اور اس میں آپ  کے ورع کی دلیل ہے کہ آپ کو نصوص کی خلاف ورزی سے ڈرتے تھے ‘ اسی لیے آپ کو یہ خوف تھا۔ پس اس میں قدح یا اعتراض کی کون سی بات ہے ؟[بلکہ اس قول سے یہ بھی واضح ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس امامت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نص موجود نہ تھی]۔