فصل:....[بیعت ابوبکر رضی اللہ عنہ پراعتراض]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[بیعت ابوبکر رضی اللہ عنہ پراعتراض]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:دوم :اور’’عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ایک عاجلانہ اقدام تھا، جس کی برائی سے اللہ نے بچا لیا۔ اگر کوئی شخص پھر ایسا کام کرے تو اسے قتل کردو۔اس کا عاجلانہ [جلدبازی میں ] ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بیعت کسی صحیح رائے سے وجود میں نہیں آئی۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ مانگی۔اور پھر اس کا اعادہ کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ قول ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر طعن کے مترادف ہے۔‘‘
[جواب ]: ہم کہتے ہیں : بخاری و مسلم میں منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’مجھے پتہ چلا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ کہتے ہیں ، اگر عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو چکے ہوتے تو میں فلاں شخص کی بیعت کرتا۔ کوئی شخص دھوکہ میں آکر یوں نہ کہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ایک عاجلانہ اقدام تھاجو پایہ انجام کو پہنچا۔ بے شک بات یونہی تھی مگر اللہ نے اس کی برائی سے بچا لیا۔ تم میں سے ایک شخص بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ،جس کی خاطر گردنیں کٹوائی جائیں جیساکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے کیا جاسکتا تھا۔جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر بیعت کرلی تو اس کی بیعت نہ کی جائے۔ اس خوف سے کہ وہ قتل کردیے جائیں گے جس وقت اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر تھے۔‘‘
پھر وہ روایت ذکر کی جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ تھے:
’’ میں تمہارے لیے ان دو آدمیوں میں سے ایک پر راضی ہوں ان دونوں میں کسی کی بیعت کرلو۔‘‘چنانچہ انہوں نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا ۔آپ اس وقت ہم دونوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔
[عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :]مجھے اس کے علاوہ انکی کوئی بات ناگوار نہ ہوئی؛ اللہ کی قسم !میں اس جماعت کی سرداری پر جس میں ابوبکر ہوں اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا۔ مگریہ کہ میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جس کو میں اب نہیں پاتا ہوں ۔ [یہ مکمل حدیث پہلے گزر چکی ہے ] [صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنا اذا احصنت (ح:۶۸۳۰)مطولاً۔]
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیعت اچانک ہوگئی تھی؛ اس کے لیے ہم نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے لیے متعین تھے ؛ اس لیے انہیں لوگ جمع کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ اس لیے کہ یہ سبھی لوگ جانتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کی ترجیح اور استحقاق پر لوگوں کا ایسا اجماع ہو جیسا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تھا۔ پس جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوکر کسی کی بیعت کرنا چاہے تو اسے قتل کردو۔ اورانہوں نے اس کے شر سے پناہ نہیں مانگی ‘ بلکہ یہ بتایا ہے کہ اجماع کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فتنہ کے شر سے بچا لیا ۔