فصل:....[غزوۂ حنین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بسالت]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[غزوۂ حنین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بسالت]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ غزوہ حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں نظر لگائی اور فخریہ انداز میں کہا: آج ہماری کثرت کی وجہ سے ہم پر کون غالب آسکتا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ صرف نوہاشمی اور ایمن بن ام ایمن باقی رہ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے تلوار چلا رہے تھے؛ آپ نے مشرکین کے چالیس آدمی قتل کردیے، باقی مشرک بھاگ گئے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں : اس واقعہ کی کوئی صحیح سند دکھاؤ ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نظر لگانے کا قصہ بھی خودساختہ جھوٹ ہے ۔ ہمارے سامنے کتب مسانید اور سِیَر اور تفاسیر پڑی ہیں ، کسی ایک کتاب میں بھی یہ مذکور نہیں کہ مسلمانوں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نظر لگ گئی تھی۔جب کہ ماثور الفاظ جو بعض مسلمانوں نے کہے تھے وہ یہ ہیں کہ:’’ آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو سکتے۔‘‘[ سیرۃ ابن ہشام(ص:۵۶۵)، طبقات ابن سعد(۲؍۱۵۰)، مجمع الزوائد (۶؍۱۷۸)، دلائل النبوۃ (۵؍۱۲۳)]
٭ ایسے ہی یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ:’’ آپ کے ساتھ بنی ہاشم کے نو آدمی باقی رہ گئے تھے۔‘‘
ابن اسحاق رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مہاجرین و انصار اور آپ کے اہل بیت کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقی رہی تھی۔مہاجرین میں سے حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما ؛اہل بیت میں سے حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما و ابوسفیان بن الحارث اور اس کا بیٹا ؛ فضل بن عباس؛ ربیعہ بن الحارث؛ اُسامہ بن زیدایمن بن ام ایمن رضی اللہ عنہم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں ثابت قدم رہے تھے۔[سیرۃ ابن ہشام مسند احمد(۱؍۴۵۳۔۴۵۴)۔]
بعض لوگوں نے قثم بن عباس رضی اللہ عنہما کو ان میں شمار کیا ہے ‘ ابن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کوشمار نہیں کیا ۔ یہ علامہ ابن اسحق رحمہ اللہ کا کلام ہے۔
[اشکال]:شیعہ کا قول کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلوار چلاتے ہوئے چالیس آدمیوں کو قتل کیا تھا۔‘‘
[جواب]:یہ صریح کذب ہے۔ اور اس کے جھوٹ ہونے پر تمام اہل معرفت محدثین سیرت نگاران اور اصحاب المغازی کا اتفاق ہے ۔ [کسی قابل اعتماد شخص نے یہ بات نہیں کہی]۔اس قصہ میں اتنی بات ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بوقت فجر وادی حنین میں پہنچے تویہ لوگ بڑے تیر انداز تھے ؛ انہوں نے یکبارگی تیروں کی برسات کردی۔ اس وجہ سے لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ساتھ آپ کے چچا عباس اور ابو سفیان بن الحارث ثابت قدم رہے ۔ یہ شاعر تھے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے ؛ مگر پھر بعد میں مسلمان ہوئے اور بہترین مسلمان ثابت ہوئے ۔ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں اور ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چپک گئے تھے ‘ ہم نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو آواز دیکر جمع کریں ۔ آپ بلند آواز والے تھے۔ آپ نے آواز لگائی :اے اہل شجرہ ! اے اہل سورت بقرہ ! یعنی ایسے لوگو جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ آپ نے انہیں بیعت یاد دلائی جس میں انہوں نے پیچھے نہ ہٹنے اور جانیں نثار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پھر اس کے ساتھ ہی بقرہ کا تذکرہ کیا کیونکہ گائے اپنے بچے پر بڑی مہربان ہوتی ہے۔ پھر ان لوگوں نے قتال کیا یہاں تک مشرکین کو شکست ہوئی ۔‘‘ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت کی ایک مٹھی بھر کر مشرکین کے مونہوں پر دے ماری تھی اور فرمایا تھا:
’’ رب کعبہ کی قسم ! یہ لوگ شکست پاگئے ۔‘‘
بخاری و مسلم میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خچر پرتھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے:
’’ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔‘‘
’’ میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘
صحیحین میں حضرت براء سے روایت ہے ؛ ان سے ایک شخص نے کہا :اے ابوعمارہ !کیا تم لوگ حنین کے دن بھاگ گئے تھے؟ انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے۔[ بلکہ آپ کے نوعمر اصحاب جن کے پاس ہتھیار نہ تھے وہ چلے گئے تھے]۔ اور وجہ یہ ہوئی کہ ان کا واسطہ قبیلہ ہو ازن کے تیر اندازوں سے پڑا ۔وہ ایسے مشاق تھے کہ ان کا کوئی تیر خالی نہیں جاتا تھا۔ انہوں نے ان کو تیروں پر رکھ لیا اس وجہ سے وہ ہٹ گئے۔ اسکے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اس وقت آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے، جس کو آپ کے چچا کے بیٹے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ہانک رہے تھے۔ پس آپ اترے اور آپ نے ارحم الراحمین سے مدد مانگی اس کے بعد فرمایا :
’’ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۔‘‘
’’ میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘
حضرت براء فرماتے ہیں شدید جنگ کی حالت میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ میں بچاؤ حاصل کیا کرتے تھے۔ ہم اس شخص کو بہادر سمجھا کرتے تھے جو آپ کے برابر ہوا کرتا تھا۔[صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب من قاد دابۃ غیرہ فی الحرب(ح:۲۸۶۴)، صحیح مسلم، کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ حنین(ح:۱۷۷۶)۔ ]
صحیح مسلم میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ حنین میں جب کفار نے آپ کو گھیر لیا تو آپ نے سواری سے اتر کر مٹی کی ایک مٹھی لی ؛ پھر کفار کی طرف متوجہ ہوئے [اوران پر مٹی پھینکتے ہوئے]فرمایا:’’شَاہَتِ الْوُجُوْہ‘‘ اللہ کرے یہ چہرے ذلیل ہوں ۔‘‘ ان میں کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں پیدا کیا تھا مگران سب کی آنکھیں اس ایک مٹی سے بھر گئیں اور وہ پیٹھ پھیر کر چل دیے؛ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیے۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب الجہاد، باب غزوۃ حنین(حدیث:۱۷۷۷)۔]