Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جس عورت کو اس کا شوہر نہ رکھتا ہو، اس کو ہندو کے حوالے کرنا


سوال: ایک عورت کے نکاح کو 4 سال ہو گے نہ اس کو شوہر طلاق دیتا ہے نہ گھر میں رکھتا ہے۔ ایک بچہ اس عورت کا آوارہ گردی میں ہو چکا ہے۔ اس کے بعد وہ عورت 3 سال کے بعد ایک شخص کے یہاں چلی گئی، تقریبا آٹھ ماہ اس کے پاس رہی، جس شخص کے گھر میں وہ رہتی تھی وہ شخص قصاص دینے کو تیار ہے تو ایک جگہ شادی کا سلسلہ تھا بہت دور دور سے لوگ اکٹھے ہوۓ اس جگہ پر اس شخص کو بلایا گیا جس شخص کے گھر عورت موجود تھی ۔جو لوگ پہلے اکٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک شخص پریذیڈنٹ مقرر کیا گیا پریذیڈنٹ نے اس شخص کیلئے عورت کو بلایا تو عورت ایک ہندؤ کے سپرد کر دی گئی، اسلام اس کو بہت برا محسوس ہوتا ہے۔ پریزیڈنٹ نے یہ بھی حکم جاری کیا تو اس شخص سے سب رشتہ برادری نے قطع کر دیئے ہیں۔ اب اس عورت کے واسطے شریعتِ اسلامیہ کیا کہتی ہے کہ عورت اسی طرح رہے گی یا اسلام میں لائی جائے گی؟

جواب: اصل میں جس کی وہ عورت ہے اس پر زور دینا چاہیے کہ وہ اس کو رکھے یا اس کو طلاق دے عورت کا کسی غیر شخص کے پاس رہنا حرام ہے عورت کو کسی ہندؤ کے سپرد کر دینا نہایت سخت ترین اور خطرناک گناہ ہے۔ اگر عورت نے مذہب اسلام ترک کرکے ہندؤ مذہب اختیار کر لیا ہے تو اس کے ذمہ فرض ہے کہ دوبارہ اسلام قبول کرے۔ ایسا رہنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

اگر عورت خود ہندؤ کے یہاں آنے کو تیار نہ ہو تو برادری اور پریذیڈنٹ کے ذمہ واجب ہے کہ وہ کوشش کرکے زبردستی عورت کو وہاں سے نکال کر شوہر کے حوالہ کریں، اور جس نے اس عورت کو ہندؤ کے حوالہ کیا ہے اس کے ذمہ فرض ہے کہ علی الاعلان توبہ کرے، اور جس شخص کے یہاں وہ رہتی ہے اس کو بھی توبہ کرنا واجب ہے۔

(جامع الفتاوىٰ: جلد، 10 صفحہ، 63)