میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کے مانند ہیں۔
دارالافتاء الاخلاص،کراچیمیرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کے مانند ہیں۔
سوال: میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں، اس حدیث کے بارے میں بتلا دیں۔
جواب: أصحابی كالنُّجومِ بأيِّهمُ اقتديتُمُ اهتديتُم۔
ترجمہ: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
پہلی بات: مذکورہ بالاحدیث شریف کو بعض محدثین رحمہم اللہ جیسے ابنِ جریر وغیرہ نے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے اور بعض محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن یہ روایت متعدد طرق سے الفاظ کے اختلاف لیکن معانی کی یکسانیت کے ساتھ درج ذیل کتب میں منقول ہے:
- جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: صفحہ، 895،
- الاحکام لابنِ حزم: جلد، 6 صفحہ، 244،
- الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب: صفحہ، 48،
- المدخل للبیہقی: صفحہ، 152،
- مسند فردوس لدیلمی: جلد، 4 صفحہ، 75،
- مسنددیلمی: جلد، 2 صفحہ، 190،
- تاریخ ابنِ عساکر: جلد، 19 صفحہ، 383،
دوسری بات: یہ حدیث حسن (مقبول) سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاضِی أَبُو عَلِی، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ، وَأَبُو الْفَضْلِ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِی السِّنْجِی، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ حَدَّثَنَا التِّرْمِذِی، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رَبْعی بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِی أَبِی بکرؓ وَ عمرؓ وَ قَال : أَصْحَابِی كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ۔
(الشفا بأحوال المصطفىٰ للقاضی عياق الْقَسَمَ الثانی فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه الْبَابِ الثالث: فِی تعظيم أمره ووجوب توقيره وبرہ، رقم الحديث: 61 الحكم: إسناده حسن)
ترجمہ: سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے کہا میرے بعد ابو بکرؓ و عمرؓ کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
تیسری بات: مسلم شریف میں اس معنیٰ کے قریب قریب ایک اور روایت وارد ہوئی ہے۔
حدثنا أبو بكر بن أبی شيبة وإسحق بن إبراهيم وعبد الله بن عمر بن أبان كلهم عن حسين قال أبو بكر حدثنا حسين بن علی الجعفيعن مجمع بن يحيىٰ عن سعيد بن أبی بردةؓ عن أبی بردةؓ عن أبيه قال صلينا المغرب مع رسول اللهﷺ ثم قلنا لو جلسنا حتىٰ نصلی معه العشاء قال فجلسنا فخرج علينا فقال ما زلتم هاهنا قلنا يا رسول اللهﷺ صلينا معك المغرب ثم قلنا نجلس حتىٰ نصلی معك العشاء قال أحسنتم أو أصبتم قال فرفع رأسه إلى السماء وكان كثيرا مما يرفع رأسه إلى السماء فقال النجوم أمنة للسماء فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد وأنا أمنة لأصحابی فإذا ذهبت أتى أصحابی ما يوعدون وأصحابی أمنة لأمتی فاذا ذهب أصحابی أتى أمتی ما يوعدون۔
ترجمہ: سیدنا ابوبردہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپﷺ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا۔ پھر ہم بیٹھے رہے اور آپﷺ باہر تشریف لائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم یہیں بیٹھے رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہﷺ ہم نے آپﷺ کے ساتھ نماز مغرب پڑھی، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپﷺ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا یا ٹھیک کیا۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپﷺ اکثر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے، پھر فرمایا کہ ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی (یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا)۔ اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں)۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا، جس کا وعدہ ہے۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ: جلد، 2 صفحہ، 308، ط، قدیمی کتب خانہ)
خلاصہ کلام: ضعیف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ موضوع (من گھڑت) ہو۔
علمائے کرام اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور ایسی حدیث تلقی بالقبول کہلاتی ہے لہٰذا اس روایت کو بالکل موضوع قرار دینا درست نہیں ہے اور اس روایت کا بیان کرنا بھی صحیح ہے، البتہ مذکورہ بالا الفاظ میں بیان کرتے وقت اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرنا بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی