Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت علی رضی اللہ عنہ کی چھٹی دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ


امامت علی رضی اللہ عنہ کی چھٹی دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ:’’ امامت علی رضی اللہ عنہ کی چھٹی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ o إلی قولہ تعالیٰ....یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾ (النور:۳۶۔۳۷)

’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے؛ وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو ۔....اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اورآنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔‘‘

ثعلبی نے حضرت انس و بریدہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اے اللہ کے رسول !﴿فی بیوت﴾ سے کون سے گھر مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا:’’ انبیاء کے گھر‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ ! کیا یہ گھر یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر بھی ان میں شامل ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ یہ ان میں سے افضل ترین گھروں میں سے ہے۔اس میں وہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو افضلیت پر دلالت کرتے ہیں ؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی امام ہوں ورنہ فاضل پر مفضول کی تقدیم لازم آئے گی۔‘‘[شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا]۔

جواب:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے : 

پہلی وجہ :....ہم شیعہ مصنف سے پوچھتے ہیں : اس دعوی کی صحت پر اس کی دلیل کیا ہے؟[ ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ہر گز اس کی دلیل پیش نہیں کر سکتا]۔کسی روایت کو ثعلبی کی طرف منسوب کردینا حجت نہیں ہوسکتا۔اس پر شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے۔جمہور میں سے کوئی ایک اگر کسی روایت کو نقل کرلیتا ہے تو یہ نقل جمہور کے ہاں حجت نہیں بن جاتی ۔بلکہ جمہور کا تو یہ اتفاق ہے کہ ثعلبی اور اس کے امثال کی روایات حجت نہیں ہوسکتی ۔نہ ہی حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل میں اور نہ ہی شرعی احکام میں ۔اس کی صرف یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کسی ثابت شدہ سند سے اس روایت کی صحت ثابت ہوجائے ۔

پس کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہم آپ کے خلاف ایسی روایت سے دلیل پیش کرتے ہیں جو جمہور میں سے کسی ایک نے نقل کی ہے۔ یہ قول تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے : میں تم پر تمہارے خلاف جمہور کی گواہی کی روشنی میں فیصلہ دیتا ہوں ۔ تو کیا علمائے جمہور نے یہ کہاہے کہ : ان میں سے جو کوئی بھی؛ جیسی بھی گواہی دے گا وہ عدل و انصاف پر مبنی ہوگی۔ یا کسی ایک نے یہ کہا ہے کہ : جمہور میں سے جو کوئی بھی؛ کوئی بھی روایت نقل کرے گا وہ ہر حال میں صحیح ہی ہوگی۔

پھر جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ ثعلبی اور اس کے امثال صحیح و ضعیف ہر قسم کی روایات نقل کرتے ہیں ۔او ر جمہور کا یہ بھی اتفاق ہے کہ : صرف ثعلبی کے نقل کرنے کی وجہ سے اتباع واجب نہیں ہوجاتی۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ثعلبی تو’’ حاطب لیل‘‘ہے؛ جو بھی روایت پاتا ہے اسے نقل کرلیتا ہے؛ خواہ وہ روایت صحیح ہو یا ضعیف۔ثعلبی کی تفسیر میں اگرچہ اکثر احادیث صحیح ہیں لیکن باتفاق اہل علم اس میں ایسی روایات بھی موجود ہیں جوکہ جھوٹ اور موضوع ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ جب اس کی تفسیر کو ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی رحمہ اللہ نے مختصر کیا؛ تو آپ اس کی نسبت حدیث اور فقہ کے زیادہ ماہر تھے؛ جب کہ ثعلبی اس کی نسبت مفسرین کے اقوال کا زیادہ ماہر تھا۔ تو بغوی نے اس سے مفسرین اور نحویوں کے اقوال اور قصص الانبیاء تو نقل کیے؛یہ چیزیں بغوی نے ثعلبی سے لی ہیں ۔مگر جہاں تک حدیث کا تعلق ہے ؛ تو بغوی نے ثعلبی کی ذکر کردہ موضوعات میں کوئی ایک حدیث بھی ذکر نہیں کی۔ بلکہ اس نے ان میں سے صرف صحیح احادیث ہی ذکر کی ہیں ۔ ان میں سے بعض تو بخاری یا دوسری کتابوں کی طرف منسوب ہیں ۔ اس لیے کہ آپ کی تصانیف میں سے شرح السنۃ اور المصابیح بھی ہے۔ اور آپ نے ان احادیث کو ذکر کیا ہے جو صحیحین یا سنن میں ہیں ۔ اور ایسی کوئی بھی حدیث ذکر نہیں کی جس کے بارے میں علمائے حدیث پر یہ ظاہر ہوتا ہو کہ روایت موضوع ہے۔ جیسا کہ دوسرے مفسرین کرتے ہیں ۔ جیسا کہ واحدی ؛ ثعلبی کے ساتھی کا شیوہ ہے ۔ یہ واحدی عربی زبان کا ثعلبی سے بڑا ماہر اور عالم ہے۔ اور جیسا کہ زمحشری اوروہ دوسرے مفسرین جو ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں علمائے حدیث جانتے ہیں کہ یہ موضوع روایات ہیں ۔

[مذکورہ بالا حدیث ضعیف ہے]

دوسری وجہ:....محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں یہ روایت بلاشبہ جھوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اپنی کسی معتمد کتاب میں اس روایت کو جگہ نہیں دی۔یہ روایت نہ ہی صحاح ستہ میں ہے؛نہ ہی سنن میں ؛نہ ہی مسانید میں ۔ حالانکہ ان میں سے بعض کتابوں میں ضعیف احادیث پائی جاتی ہیں ۔بلکہ بعض موضوع روایات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لیکن موضوع روایات بہت ہی کم ہیں ؛جب کہ مذکورہ بالاروایت ایسا واضح جھوٹ تھا کہ کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا ۔

تیسری وجہ:....مزید براں یہ آیت بالاتفاق مساجد سے متعلق ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے صاف ظاہر ہے :

﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴾

حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کے گھر کی یہ صفات نہیں ہوسکتیں ۔

چوتھی وجہ:....ہم شیعہ سے کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر باتفاق مسلمین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر سے افضل تھا ؛ مگر وہ اس خطاب میں شامل نہیں ۔ اس لیے کہ آپکے گھر میں کو ئی مرد نہیں تھا۔ بلکہ آپ کے گھر میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی کوئی زوجہ محترمہ موجود ہوا کرتی تھی۔جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا ذکر نا چاہا تو صاف الفاظ میں کیا ؛ ارشادفرمایا:

﴿لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِی﴾ [ الأحزاب۵۳]

’’ تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو ۔‘‘

اور اشادفرمایا: ﴿وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنْ﴾ [الأحزاب ۳۴]

’’اوراپنے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو۔‘‘

پانچویں وجہ:....یہ کہنا کہ ’’ اس سے مراد انبیاء کے گھر ہیں ‘‘ صاف جھوٹ ہے۔ اگر واقعی ایساہوتا تو اہل ایمان کا اس میں کوئی نصیب نہ ہوتا۔جب کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ oرِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ﴾ [النور۳۶]

’’وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو ۔ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریداری اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی ۔‘‘

یہ آیت ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ان صفات سے موصوف ہوں ۔

چھٹی وجہ :....اس آیت کریمہ میں ﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ﴾ لفظ بیوت کو نکرہ موصوفہ لایا گیا ہے ؛ اس میں کوئی تعین نہیں ہے۔جب کہ اس سے آگے فرمایاہے: ﴿اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ ﴾ اگر اس خطاب سے مراد وہ ذکر و اذکاراور نمازیں ہوں جو مساجد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ گھروں میں ادا کیے جاتے ہیں ؛ تو اس میں اہل ایمان کے دیگر بہت سارے ایسے گھر بھی داخل ہوتے ہیں جو ان صفات سے موصوف ہیں ؛ تو پھر یہ آیت انبیائے کرام علیہم السلام کے گھروں کے ساتھ خاص نہ ہوئی۔

اگر اس سے مراد پانچ نمازیں اور ان کے ساتھ ذکر و اذکار ہیں ؛ تو پھر یہ آیت مساجد کے ساتھ خاص ہے۔ جب کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے گھروں میں مساجد کی خصوصیت نہیں پائی جاتی۔یہ علیحدہ بات ہے کہ انہیں انبیائے کرام علیہم السلام کے مسکن ہونے کا اعزاز و فضیلت حاصل ہیں ۔

ساتویں وجہ:....شیعہ سے یہ بھی کہا جائے گا کہ اگر انبیائے کرام علیہم السلام کے گھروں سے مراد وہ گھر ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تھا؛ تو پھرمدینہ طیبہ میں ازواج مطہرات کے گھروں کے علاوہ کسی بھی نبی کا کوئی گھر نہیں تھا۔ تو ان گھروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر داخل نہ ہوا۔اور اگر اس سے مراد وہ گھر ہوں جن میں انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کوئی ایک داخل ہوا ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت سارے صحابہ کرام کے گھروں میں داخل ہوئے ہیں ۔ جو بھی بات مان لی جائے ؛ کسی بھی صورت میں حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے گھروں کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر کی کوئی فضیلت و خصوصیت ثابت نہیں ہوتی ۔ جب آپ کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں ہوتی تو پھر مردوں کے مابین بہت سارے امور مشترک ہوتے ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی برابر کے شریک ہیں ۔

آٹھویں وجہ :....اس شیعہ سے یہ بھی کہا جائے گا کہ : وہ مرد جن کی صفت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی ہے :

﴿رِجَالٌ لَا تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ﴾ [النور۳۶]

’’ایسے لوگ جنہیں تجارت اللہ تعالیٰ کی یادسے غافل نہیں کرتی ۔‘‘

اس آیت سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مرددوسرے لوگوں سے افضل ہیں ۔اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کسی بھلائی کا وعدہ بھی نہیں کیا ؛ بلکہ ان کے اس فعل پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جس کسی کی بھی کوئی تعریف کی جائے یا اسے جنت کی خوشخبری سنائی جائے تووہ دوسروں سے افضل ہوجائے گا۔ اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ انسان انبیائے کرام علیہم السلام سے بھی افضل ہو۔

نویں وجہ :....تصور کیجیے اس آیت سے ان لوگوں پر فضیلت ثابت ہوتی ہے جو ان صفات سے موصوف نہیں ہیں ؛ تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ صفت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے ؟ بلکہ ہر وہ انسان جسے تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی؛ اور وہ آخرت کے دن کا بھی خوف رکھتا ہے؛ تووہ اس صفت سے موصوف ہے۔آپ پھر یہ کیونکر کہتے ہیں کہ : یہ صفت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی ہے ؟ جب کہ آیت کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ وہ بہت سارے لوگ ہیں ؛صرف کوئی ایک مرد نہیں ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت کریمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ آپ او ردوسرے لوگ اس صفت میں مشترک ہیں ۔ پس اس بنیاد پر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اپنے مشارکین سے افضل ہوں۔

دسویں وجہ :....اگر تسلیم کر لیا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ اس صفت میں باقی لوگوں سے افضل ہیں ۔ توپھر بھی اس سے امامت کا وجوب کہاں سے لازم آگیا؟

جب کہ مفضول کو فاضل پر مقدم کرنے کے امتناع کے مسئلہ کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بیشک ایسا ان مجموعی صفات میں ہوتا ہے جو کہ امامت کے لیے مناسب ہوتی ہیں ۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ انسان جسے خیر کی کسی ایک خصلت میں دوسروں پر فضیلت حاصل ہو تو وہ امامت کا مستحق ہوجائے گا۔ اگر ایسا جائزہو تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت بہت زیادہ کفار کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بہت زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔ اور ایسے بھی ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ تکلیف دی گئی ۔ ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے عمر میں زیادہ بڑے بھی تھے۔ ایسے بھی تھے جن کے پاس وہ علم تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس نہیں تھا۔

خلاصہ کلام ! انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی دوسرے نبی کی صفات ہر لحاظ سے اس میں موجود ہوں ۔اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک میں دوسری صحابی کی کوئی صفت ہر لحاظ سے پوری طرح موجود ہوسکتی ہے ۔ بلکہ مفضول میں بھی کوئی نہ کوئی ایسی یگانہ چیزہوتی ہے جس میں وہ فاضل سے آگے ہوتا ہے ؛ لیکن بات یہ ہے کہ مجموعی طورپر ساری صفات کو جمع کرکے انہیں معتبر سمجھا جاتا ہے ۔